islam
تفسیری اقوال:
سیدنا کلبی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:”اس سے مراد وہ جانور ہے جو ذبح نہ کيا گيا ہو يا اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کيا گيا ہو۔”
سیدنا عطاء رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں:”قريش اور عرب جو جانور بتوں پر چڑھاوے کے لئے ذبح کيا کرتے تھے ان سے منع کيا گيا ہے۔”
ايک قول يہ ہے: ”وَاِنَّہُ لَفِسْقٌ سے مراد ہر وہ مردار ہے جس پر اللہ عزوجل کا نام نہ ليا گيا ہو اور فسق سے مراد دين سے خارج ہو جانا ہے۔”
اس آيت مبارکہ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوْلِیٰٓـِٕہِمْ لِیُجَادِلُوۡکُمْ ۚ کا مطلب يہ ہے کہ شيطان اپنے دوستوں کے دل ميں وسوسے ڈالتا ہے کہ وہ مردار کے بارے ميں باطل طريقے سے ایمان والوں سے جھگڑيں۔(پ:۸، الانعام:۱۲۱)
حضرت سيدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہيں:”شيطان نے اپنے انسانی دوستوں کے دل ميں يہ بات ڈالی کہ تم اس ذات کی عبادت کيسے کرتے ہو؟ جس کے مارے ہوئے کو نہيں کھاتے جبکہ اپنا مارا ہوا کھا ليتے ہو تو اللہ عزوجل نے يہ آيت مبارکہ نازل فرمائی :
وَ اِنْ اَطَعْتُمُوۡہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوۡنَ
ترجمۂ کنزالایمان:اوراگرتم ان کاکہنامانوتواس وقت تم مشرک ہو۔(پ:8، الانعام:121)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت سیدنا زجاج رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہيں:”آيت کريمہ اس بات پر دليل ہے کہ جس نے اللہ عزوجل کی حرام کردہ شئے کو حلال جانا يا اللہ عزوجل کی حلا ل کردہ شئے کو حرام جانا وہ مشرک ہے بشرطيکہ اس حلت يا حرمت پر اجماع ہو اور اس کا ضرورياتِ دين ميں سے ہونا معلوم ہو۔”
سوال:آپ نے مسلمان کے ذبيحہ کو(بسم اللہ ترک ہونے کے باوجود) مباح کيسے قرار ديا حالانکہ آيت مبارکہ حرمت ميں نص کی طرح ہے؟
جواب:مفسرين کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس آيت کريمہ کی تفسير صرف مردار سے کی ہے کسی نے بھی اسے بِسْمِ اللہ نہ پڑھنے کی صورت ميں مسلمان کے ذبيحے پر محمول نہيں کيا۔
اوراس آیتِ مبارکہ سے مردارمرادہونے پراللہ عزوجل کا يہ فرمانِ عالیشان وَاِنَّہُ لَفِسْقٌ بھی دلالت کرتا ہے کيونکہ تسميہ ترک کرنے والے مؤمن کو حرمت کے اعتقاد کی صورت ميں فاسق نہيں کہا جا سکتا کيونکہ اس کی حلت ميں قوی اختلاف کی وجہ سے مناسب ہے کہ يہ حرمت کے قائل کے نزديک بھی صغيرہ ہو اور اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے: وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوْلِیٰٓـِٕہِمْ لِیُجَادِلُوۡکُمْ ۚ کيونکہ مفسرين کے اجماع کی وجہ سے اختلاف تو مردار ميں ہے نہ کہ تسميہ ترک کرنے والے مسلمان کے ذبيحہ ميں اور اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شرک مردار کو حلال جاننے ميں ہے نہ کہ اس ذبيحہ کو حلال جاننے ميں جس پر تسميہ نہ پڑھی گئی ہو يہ بات علامہ واحدی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اوربعض دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی ہے۔
علامہ واحدی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سند سے کچھ احادیثِ مبارکہ روايت کی ہيں جن ميں سے بعض ميں بھول کر تسميہ ترک کئے گئے ذبيحہ کی حلت اور بعض ميں مطلقاًحلت کاذکرہے۔۱؎
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ہمارے اصحابِ شوافع رحمہم اللہ تعالیٰ نے ذبح کے وقت، ”بِسْمِ اللہ وَاِسْمِ مُحَمَّدٍيابِاِسْمِ مُحَمَّدٍرَّسُوْلِ اللہِ” کہنے کو حرمت کا سبب قراردياہے۔۲؎
اسی طرح کتابی اپنے کَنِيسہ،صليب، حضرت سیدنا موسیٰ يا حضرت سیدنا عيسیٰ علی نبينا وعليہما الصلوٰۃ والسلام کے لئے ذبح کرے اور مسلمان کعبہ، رسولِ اکرم (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)، بادشاہ يا جِن وغيرہ کے نام پر تقرب کی نيت سے ذبح کرے تو ان تمام صورتوں ميں ذبيحہ حرام اور کبيرہ گناہ ہے،البتہ!اگرکسی کے آنے پر خوشی يااللہ عزوجل کاشکر ادا کرنے کے ارادے سے ذبح کيا ياروٹھے ہوئے کو راضی کرنے يااللہ عزوجل کی قربت کی نيت سے ذبح کيا تاکہ وہ اس سے جن کا شردورکرے تو جائز و حلال ہے۔
۱؎ :فقہائے احناف کے نزدیک:”ذبح کرنے ميں قصداًبِسْمِ اللہ نہ کہی جانور حرام ہے اور اگر بھول کر ايسا ہوا جيسا کہ بعض مرتبہ شکار کے ذبح ميں جلدی ہوتی ہے اور جلدی ميں بِسْمِ اللہ کہنا بھول جاتا ہے اس صورت میں جانور حلال ہے۔”
۲؎: احناف کے نزدیک:”ذبح کرتے وقت”بِسْمِ اﷲِ”کے ساتھ غیرخدا کا نام بھی لیا اس کی دوصورتیں ہیں اگر بغیر عطف ذکرکیا ہے مثلاً یوں کہا”بِسْمِ اﷲِ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اﷲِیابِسْمِ اﷲَِ تَقَبَّلْ مِنْ فُلَانٍ”ایسا کرنامکروہ ہے مگر جانور حرام نہیں ہوگا ۔اور اگر عطف کے ساتھ دوسرے کا نام ذکر کیا مثلاً یوں کہا”بِسْمِ اﷲِوَاِسْمِ فُلاَنٍ”اس صورت میں جانور حرام ہے کہ یہ جانور غیر خدا کے نام پر ذبح ہوا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ذبح سے پہلے مثلاً جانور کولٹانے سے پہلے اس نے کسی کا نام لیا یا ذبح کرنے کے بعد نام لیا تو اس میں حرج نہیں جس طرح قربانی اور عقیقہ میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور قربانی میں ان لوگوں کے نام لئے جاتے ہیں جن کی طرف سے قربانی ہے اور حضور اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اورحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے نام بھی لئے جاتے ہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
صدرالشریعہ علیہ الرحمہ مزید فرماتے ہیں:”یہاں سے معلوم ہوا”وَمَآاُھِلَّ لِغَیْرِاﷲِ بِہٖ ”جو حرام ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ذبح کے وقت جب غیرِخدا کا نام اس طرح لیا جائے گا اس وقت حرام ہوگا اوروہابیہ کہتے ہیں کہ آگے پیچھے جب کبھی غیر خدا کا نام لے دیا جائے حرام ہو جاتا ہے بلکہ یہ لوگ تو مطلقاًہرچیزکوحرام کہتے ہیں جس پر غیر خدا کا نام لیا جائے ان کا یہ قول غلط اور باطل محض ہے اگر ایسا ہو تو سب ہی چیزیں حرام ہو جائیں گی۔ کھانے پینے اور استعمال کی سب چیزوں پر لوگوں کے نام لے دئیے جاتے ہیں اور ان سب کو حرام قرار دینا شریعت پر افترا اور مسلم کو زبردستی حرام کا مرتکب بنانا ہے معلوم ہوا کہ بعض مسلمان گائے،بکرا،مرغ جو اس لئے پالتے ہیں کہ ان کو ذبح کر کے کھانا پکواکر کسی ولی اﷲ کی روح کو ایصال ثواب کیا جائے گا یہ جائز ہے اور جانور بھی حلال ہے اس کو”مَااُھِلُّ بِہٖ لِغَیْرِاﷲ”میں داخل کرنا جہالت ہے کیوں کہ مسلمان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ اس نے”تقرُّب الیٰ غیرِاﷲ”کی نیت کی ہٹ دھرمی اور سخت بدگمانی ہے،مسلم ہرگز ایساخیال نہیں رکھتا۔عقیقہ اور ولیمہ اور ختنہ وغیرہ کی تقریبوں میں جس طرح جانور ذبح کرتے ہیں اور بعض مرتبہ پہلے ہی سے متعین کر لیتے ہیں کہ فلاں موقع اور فلاں کام کے لئے ذبح کیا جائے گا جس طرح یہ حرام نہیں ہے وہ بھی حرام نہیں۔”
(بہارِشریعت،ج۲،حصہ۱۵،ص ۷۵۔۷۶)