خدا عزوجل کی راہ میں شہید ہوجانا یہ بھی جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک بہت اعلیٰ اور اطمینان بخش عمل صالح ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کے لیے حیات جاودانی کی بشارت اور جنۃ الفردوس کی خوشخبری دی ہے۔ شہادت کے فضائل میں سینکڑوں حدیثوں میں سے یہ چند حدیثیں درج ذیل ہیں ان کو بغور پڑھئے اور اپنے اندر جوش جہاد اور شہادت کا جذبہ پیدا کرکے حیاتِ جاودانی، باغِ بہشت کی شادمانی اور جنتی زندگانی کی کرامت حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔
حدیث:۱
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَضْحَکُ اللہُ تَعَالٰی اِلٰی رَجُلَیْنِ یَقْتُلُ اَحَدُھُمَا الْاٰخَرَ یَدْخُلَانِ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُ ھٰذَا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیُقْتَلُ ثُمَّ یَتُوْبُ اللہُ عَلَی الْقَاتِلِ فَیُسْتَشْھَدُ۔متفق علیہ (1)
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۲۳۰)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں سے بہت خوش ہوجاتا ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردیتا ہے پھر وہ دونوں جنت میں داخل ہوجاتے ہیں ایک اللہ عزوجل کی راہ میں جنگ کرتے ہوئے قتل ہوجاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور پھر و ہ بھی شہید ہو جاتا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حدیث:۲
عَنْ اَنَسٍ اَنَّ الرُّبَیِّعَ بِنْتَ الْبَرَاءِ وَھِیَ اُمُّ حَارِثَۃَ بْنِ سُرَاقَۃَ اَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَارَسُوْلَ اللہِ اَلَا تُحَدِّثُنِیْ عَنْ حَارِثَۃَ وَکَانَ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ اَصَابَہٗ سَھْمٌ غَرْبٌ فَاِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ صَبَرْتُ وَاِنْ کَانَ غَیْرَ ذٰلِکَ اِجْتَھَدْتُ عَلَیْہِ فِی الْبُکَاءِ فَقَالَ یَا اُمَّ حَارِثَۃَ اِنَّھَا جِنَانٌ فِی الْجَنَّۃِ وَاِنَّ ابْنَکَ اَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الْاَعْلٰی۔رواہ البخاری(2) (مشکوٰۃ،ج۲،ص۳۳۱)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ربیع بنت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جوحارثہ بن سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں ہیں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کیا آپ حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ بیان فرمائیں گے؟ حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بدر کے دن قتل ہوگئے تھے، ان کو ایک نامعلوم تیر لگ گیا تھا۔ اگر وہ جنت میں ہوں جب تو میں صبر کروں گی اور اگر اس کے سوا کوئی بات ہو تو میں ان پر رونے میں پوری کوشش کروں گی۔ توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ اے حارثہ کی ماں!بے شک جنت کے اندربہت سی جنتیں ہیں اوریقین رکھ کہ تیرابیٹا فردوس اعلیٰ میں ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے نقل کیا ہے۔
حدیث:۳
عَنْ سَالِمٍ اَبِی النَّضْرِ قَالَ کَتَبَ اِلَیْہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ اَبِیْ اَوْفٰی اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ (1)
(بخاری،ج۱،ص۳۹۵)
حضرت سالم ابونضر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ کر بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ تم لوگ یقین کے ساتھ جان لو کہ بے شک جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حدیث:۴
عَنْ عُمَرَ قَالَ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ (1) (بخاری،ج۱،ص۲۵۳)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے یہ کہا کہ اے اللہ! عزوجل مجھے تو اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور اپنے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے شہر میں مجھے موت دے۔
حدیث:۵
عَنْ اَبِیْ مَالِکِ نِ الْاَشْعَرِیِّ مَنْ خَرَجَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَمَاتَ اَوْقُتِلَ فَھُوَ شَھِیْدٌ اَوْوَقَصَتْہٗ فَرَسُہٗ اَوْبَعِیْرُہٗ اَوْلَدَغَتْہٗ ھَامَّۃٌ اَوْمَاتَ عَلٰی فِرَاشِہٖ بِاَیِّ حَتْفٍ شَاءَ اللہُ فَھُوَ شَھِیْدٌ (2) (کنز العمال،ج۴،ص۱۸۶)
حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جواللہ عزوجل کی راہ (جہاد)میں نکلاپھرمرگیایاقتل کیاگیاتووہ شہیدہے یااس کواس کے گھوڑے یا اونٹ نے کچل دیایااس کوکسی زہریلے جانورنے ڈس لیایااپنے بچھونے پرجس موت کے ساتھ اللہ عزوجل نے چاہاوہ مرگیاتووہ بھی شہیدہے۔
حدیث:۶
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَتِیْکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّھَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَلْمَطْعُوْنُ شَھِیْدٌ وَالْغَرِیْقُ شَھِیْدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الجَنْبِ شَھِیْدٌ وَالْمَبْطُوْنُ شَہِیْدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِیْقِ شَھِیْدٌ وَالَّذِیْ یَمُوْتُ تَحْتَ الْھَدْمِ شَھِیْدٌ وَالْمَرْأَۃَ تَمُوْتُ بِجُمْعٍ شَھِیْدٌ۔ رواہ مالک وابوداودوالنسائی(1)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مشکوٰۃ ،ج۱،ص۱۳۶)
حضرت جابربن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ عزوجل کی راہ میں قتل ہوجانے کے سوا سات دوسری شہادتیں بھی ہیں:طاعون میں مراہوا شہید ہے،ڈوب کر مرا ہوا شہید ہے، نمونیا میں مرا ہوا شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرا ہوا شہید ہے،آگ میں جل کر مرا ہوا شہید ہے اور وہ شخص جو کسی چیز سے دب کر مرا ہووہ شہید ہے اوروہ عورت جو حالتِ نفاس میں مر جائے وہ بھی شہید ہے۔ اس حدیث کو امام مالک اور ابوداود و نسائی نے روایت کیا ہے۔
حدیث:۷
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یُحِبُّ اَنْ یَّرْجِعَ اِلَی الدُّنْیَا وَلَہٗ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا الشَّھِیْدُ یَتَمَنّٰی اَنْ یَّرْجِعَ اِلَی الدُّنْیَا فَیُقْتَلَ عَشَرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرٰی مِنَ الْکَرَامَۃِ۔متفق علیہ (2)
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۳۳۰)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ کوئی شخص ایسانہیں ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں آنے کو پسند کرے اگرچہ اس کو روئے زمین کی ہر چیز مل جائے۔ مگر شہید اس بات کی تمنا کریگا کہ وہ پھر لوٹ کردنیا میں جائے اور دس مرتبہ خدا عزوجل کی راہ میں قتل ہو کر شہید ہو۔یہ تمنا اس لیے کریگا کہ وہ جنت میں شہداء کی فضیلت دیکھ چکاہے تواس کویہ خواہش باربارہوگی کہ باربارشہیدکیاجاؤں تاکہ اورزیادہ اجرملے ۔
حدیث:۸
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَبْوَابَ الْجَنَّۃِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ فَقَامَ رَجُلٌ رَثُّ الْھَیْئَۃِ فَقَالَ یَا اَبَا مُوْسٰی اَنْتَ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ھٰذَا قَالَ نَعَمْ فَرَجَعَ اِلٰی اَصْحَابِہٖ فَقَالَ اَقْرَأُ عَلَیْکُمُ السَّلَامَ ثُمَّ کَسَرَجَفْنَ سَیْفِہٖ فَأَلْقَاہُ ثُمَّ مَشٰی بِسَیْفِہٖ اِلَی الْعَدُوِّ فَضَرَبَ بِہٖ حَتّٰی قُتِلَ۔رواہ مسلم(1) (مشکوٰۃ،ج۲،ص۳۳۴)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یقینا جنت کے دروازے تلواروں کے سائے کے نیچے ہیں یہ سن کر ایک پراگندہ حال مرد کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اے ابو موسیٰ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا آپ نے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ تو حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہاں! پھر وہ مرد اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو سلام کرتا ہوں پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام کو توڑ کر پھینک دیا پھر تلوار لے کر دشمن کی طرف بڑھا اور تلوار چلاتا رہا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
حدیث:۹
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّھِیْدُ لَا یَجِدُ اَلَمَ الْقَتْلِ اِلَّا کَمَا یَجِدُ اَحَدُکُمْ اَلَمَ الْقَرْصَۃِ۔رواہ الترمذی(1) (مشکوٰۃ،ج۲،ص۳۳۳)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ شہیدکوقتل ہونے کے وقت صرف اتنی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی چیونٹی نے کاٹ لیا۔اس حدیث کوترمذی نے روایت کیاہے۔
حدیث:۱۰
عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیْکَرَبَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلشَّھِیْدِ عِنْدَ اللہِ سِتُّ خِصَالٍ یُغْفَرُ لَہٗ فِیْ اَوّلِ دَفْعَۃٍ وَیُرٰی مَقْعَدَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَیَأْمَنُ مِنَ الْفَزْعِ الْاَ کْبَرِ وَیُوْضَعُ عَلٰی رَاْسِہٖ تَاجُ الْوَقَارِ الْیَاقُوْتَۃُ مِنْھَا خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا وَیُزَوَّجُ ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ زَوْجَۃً مِّنَ الْحُوْرِالْعِیْنِ وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِیْنَ مِنْ اَقْرِبَائِہٖ۔رواہ الترمذی وابن ماجہ(2)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۳۳۳)
حضرت مِقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شہید کے لیے چھ فضیلتیں حاصل ہیں۔(۱) خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔(۲)بوقتِ شہادت وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتاہے۔(۳)عذابِ قبرسے محفوظ رہتاہے۔(۴)قیامت کے دن کی پریشانیوں اور گھبراہٹوں سے بے خوف ہوجاتاہے۔(۵)اس کے سرپرعزت کاتاج رکھاجاتاہے۔
جس کا ایک یا قوت دنیا اور اس کی تمام کائنات سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہوگا اور بہتّربی بیاں اُس کو حوروں میں سے ملیں گی۔(۶) سترّرشتہ داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
تشریحات و فوائد
اس عنوان کے تحت دس حدیثیں اوران کے تراجم ہم تحریر کرچکے اور ان سب حدیثوں سے شہادت کے بلند درجات اور اس کی فضیلتوں کا حال نہایت ہی تفصیل و وضاحت کے ساتھ معلوم ہوجاتا ہے۔
(۱)حدیث نمبر ۱ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کافر نے کسی مسلمان کو شہید کردیا تو شہید سے اللہ تبارک وتعالیٰ خوش ہوکراس کوجنت عطافرمادے گاپھروہ کافرمسلمان ہوجائے اور وہ بھی کفار سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوجائے تو اس سے بھی اللہ تعالیٰ خوش ہو کر اس کوجنت میں بھیج دے گا۔اس طرح قاتل و مقتول دونوں جنت میں گئے اوردونوں سے خداعزوجل خوش ہوگیا۔
(۲)حدیث نمبر ۲سے صاف صاف معلوم ہوا کہ شہیدکو جنت میں فردوسِ اعلیٰ کا محل عطا کیا جاتا ہے۔
(۳) حدیث نمبر ۳ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تلوار کے نیچے پڑ کر شہید ہوجانا یہ جنت میں جانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ توگویا جنت تلوار کے سائے کے نیچے ہے۔
(۴)حدیث نمبر ۴ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کا ذکر ہے وہ ہمیشہ خلوص قلب کے ساتھ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔اور بحمداللہ تعالیٰ ان کی دعا مقبول ہوگئی کہ اُن کو شہر مدینہ کی مسجد نبوی میں بحا لتِ نماز فجر ابولولو فیروز مجوسی کافر نے خنجر مار کر شہید کردیا۔ اس طرح آپ کو شہادت بھی مل گئی اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے مقدس شہر مدینہ منورہ میں آپ کی وفات بھی ہوگئی۔آپ کی شہادت کاپوراواقعہ ہماری کتاب”دوحقانی تقریریں” میں پڑھیے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(۵)حدیث نمبر ۵ سے معلوم ہوا کہ جو شخص جہاد کے لیے اپنے گھر سے نکل گیا۔ اب خواہ اس کو کسی طرح بھی موت آئے مگر بہرحال اس کو شہادت کا درجہ ملے گا۔
(۶)حدیث نمبر ۶کاحاصل یہ ہے کہ ان ساتوں کوشہیدفی سبیل اللہ کاثواب ملے گا اگرچہ خداعزوجل کی راہ میں سرکٹاکرشہیدہونے والے اوران لوگوں کے درجات ومراتب میں بڑافرق ہوگایہ اللہ تعالیٰ کافضل وکرم ہے کہ ان امراض وعوارض میں مرنے والوں کو بھی شہیدکاثواب ملے گا۔
(۷)حدیث نمبر۸سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کس قدر جذبہ جہاد اور شہادت حاصل کرنے کا شوق تھا،اللہ اکبر!اللہ اکبر!اس حدیث کا مطلب حدیث نمبر ۳ کی تشریح میں گزر چکا ہے۔
(۸)حدیث نمبر ۹ سے پتا چلتا ہے کہ شہید کو جذبہ شہادت کی ایسی لذت ملتی ہے کہ بڑے سے بڑے زخم لگنے کی بس اُس کو اتنی ہی تکلیف محسوس ہوتی ہے جیسے کسی چیونٹی نے کاٹ لیا ہو۔ شہادت کی لذت کو بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں مل سکتا اس لذت کو تو بس وہی جان سکتا ہے جس کو یہ رُتبہ بلندمل جائے اور ہر ایک کوشہادت کا یہ بلند رتبہ کہاں ملتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ
یہ رُتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب الجہاد،الفصل الاول،الحدیث:۳۸۰۷،ج۲،ص۲۶
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب الجہاد،الفصل الاول،الحدیث:۳۸۰۹،ج۲،ص۲۷
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الجھادوالسیر،باب الجنۃ…الخ،الحدیث:۲۸۱۸،ج۲، ص۲۵۹
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب ۱۳،الحدیث:۱۸۹۰،ج۱، ص۶۲۲
2۔۔۔۔۔۔کنزالعمال،کتاب الجہاد،الباب الاول،الحدیث:۱۰۶۴۰،ج۲،الجزئ۴، ص۱۳۳
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادۃالمریض…الخ،الحدیث:۱۵۶۱،ج۱، ص۲۹۹
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب الجھاد،الفصل الاول،الحدیث:۳۸۰۳،ج۲،ص۲۵
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب الجھاد،الفصل الثالث،الحدیث:۳۸۵۲،ج۲، ص۳۳
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الجھاد،الفصل الثانی،الحدیث:۳۸۳۶،ج۲،ص۳۱
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الجھاد،الفصل الثانی،الحدیث:۳۸۳۴،ج۲،ص۳۰