کعبۃاللہ شریف پر پہلی نظر
حضرت سیدنا حامد اسودعلیہ رحمۃ اللہ الصمد ، حضرت سیدنا ابراہیم خوّاص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کے عقید ت مندوں میں سے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب کبھی سفر پر روانہ ہوتے تو کسی کو بھی اطلاع نہ دیتے اور نہ ہی کسی کو اپنے ساتھ سفر پر چلنے کے لئے کہتے ۔جب کبھی سفر کا اِرادہ ہوتا تو ایک بر تن اپنے ساتھ لے جاتے جو وضو اور پانی پینے کے لئے استعمال فرماتے ۔
ایک مرتبہ اسی طر ح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا بر تن اٹھایا اور ایک سمت چل دیئے۔ میں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے ہولیا۔ہماراسفرجاری رہاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دورانِ سفر مجھ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ ہم کوفہ پہنچ گئے ۔ وہاں ہم نے ایک دن اور ایک رات قیام کیا، پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ”قادسیہ” کی طر ف روانہ ہوئے ۔ جب ہم قادسیہ پہنچے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میری طرف متو جہ ہو کر پوچھنے لگے : ”اے حامد !تم یہاں کیسے آئے ؟” میں نے عرض کی:” حضور! میں آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کے ساتھ ساتھ ہی سفرکرتا آرہا ہوں۔میں سارے سفر میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ رہاہوں۔”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” میرا اِرادہ تو حج کرنے کا ہے، اگر اللہ عزوجل نے چاہا تو اب میں مکہ مکرمہ کی طرف جاؤں گا۔” تو میں نے عرض کی :”حضور ! ان شاء اللہ عزوجل میں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ مکہ شریف چلوں گا۔” چنانچہ ہم سوئے حرم روانہ ہوئے اور مسلسل دن رات سفر کیا۔
ہمارا سفر اسی طرح جاری وساری تھا۔مکہ مکرمہ قریب سے قریب تر ہوتا جارہا تھا۔اچانک ہمیں راستے میں ایک نوجوان ملا۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ ہمارے ساتھ ایک دن اور ایک رات سفر کرتا رہا لیکن راستے میں اس نے ایک بھی نماز نہ پڑھی۔یہ دیکھ کر حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کہا:”اے نوجوان !تُو کل سے ہمارے ساتھ ہے لیکن تُونے ایک بھی نماز نہ پڑھی حالانکہ نماز حج سے بھی زیادہ اَہمیت کی حامل ہے۔”اس نوجوان نے جواب دیا: ”اے شیخ! مجھ پر نماز فرض نہیں ۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا: ”کیا تُو مسلمان نہیں؟ ” اس نے جواب دیا: ”نہیں،بلکہ میں نصرانی ہوں اورمیں اس جنگل بیابان میں یہ دیکھنے آیا ہوں کہ مَیں توکُّل میں کتنا کامل ہوں او رمجھے میرے پروردگار عزوجل پر کتنا بھروسا ہے کیونکہ میرا نفس مجھ سے کہتا ہے کہ تو تو کُّل میں بہت کامل ہے لیکن میں نے نفس کی بات پر یقین نہ کیا اور یہ تہیہ کرلیا کہ اپنے آپ کو آزماؤں گا او رکسی ایسی جگہ جاؤں گا جہاں میرے او رمیرے رب عزوجل کے سوا کوئی نہ ہوپھر وہاں دیکھو ں گا کہ میرے اندر کتنا توکُّل ہے۔ چنانچہ میں اس جنگل بیابان میں آگیا ہوں اوراپنے آپ کو آزمارہا ہوں۔”
اس نوجوان کی یہ بات سن کر حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے اٹھے اور چلتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ”اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔” نوجوان بھی ہمارے ساتھ ہی چلنے لگا۔ حرم شریف سے قریب ”وادی مُرّ’ ‘میں پہنچ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے پرانے کپڑے اُتار کر دھوئے پھر وضو کرنے کے بعد اس نوجوان سے پوچھا:” تمہارا نام کیا ہے؟” اس نے جواب دیا: ” عبدا لمسیح” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اے عبدالمسیح! اب حرم شریف کی حد شرو ع ہونے والی ہے اور کفار کا داخلہ
حرم شریف میں حرام ہے۔
جیسا کہ اللہ عزوجل نے اپنی آخری کتا ب قرآن کریم میں ارشا د فرمایا:
اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا ۚ
ترجمہ کنزالایمان:مشرک نرے ناپاک ہیں تواس برس کے بعدوہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں۔( پ10، تو بہ :28)
لہٰذا تم اب یہیں رکو اور ہر گزہرگز حرم شریف میں داخل نہ ہونا اگر تم داخل ہوئے تو ہم حُکّام سے تمہاری شکایت کر دیں گے ۔”
اِتنا کہنے کے بعد ہم نے اس نوجوان کو وہیں چھوڑ ا اور ہم مکہ مکرمہ کی نور بار مشکبار فضاؤں میں داخل ہوگئے ۔پھر ہم میدانِ عرفات کی جانب روانہ ہوئے۔ وہاں حاجیوں کا ہجوم تھا اچانک ہم نے اسی نوجوان کو میدانِ عرفات میں دیکھا اس نے حاجیوں کی طر ح اِحرام باندھا ہوا تھا اور بے تا بانہ نظر وں سے کسی کو تلاش کر رہا تھا جونہی اس نے ہمیں دیکھا فوراً ہمارے پاس چلا آیا اور حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیشانی کو بوسہ دینے لگا۔ یہ صورتحال دیکھ کر حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:” اے عبد المسیح! تم یہاں کیسے آگئے ؟” اس نوجوان نے عرض کی:”حضور! اب میرا نام عبد المسیح نہیں بلکہ عبد اللہ ہے (یعنی اب وہ عیسائی مسلمان ہو چکا تھا)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”اپنا پورا واقعہ بیان کر وکہ تم کس طرح مسلمان ہوئے، تمہاری زندگی میں یہ انقلاب کیسے آیا ؟” اس نوجوان نے عرض کی:” حضور! جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے چھوڑ کر آگئے تھے تو میں وہیں موجود رہا اور میرے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ آخر مَیں بھی تو دیکھوں کہ وہ مکہ مکرمہ کیسی جگہ ہے جس کی طرف مسلمان سفر و ہجر کی صعوبتیں بر داشت کر کے ہر سال حج کے لئے آتے ہیں۔آخر اس میں ایسی کیا عجیب بات ہے ۔” اسی خواہش کی بناء پر میں نے بھیس بدلا اورمسلمانوں جیسی حالت بنالی۔ میری خوش قسمتی کہ وہا ں ایک قافلہ پہنچاجو”حرمین شریفین ” آرہا تھا ۔ میں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور ا س قافلے میں شامل ہوگیا۔
جوں جوں ہمارا قافلہ مکہ مکرمہ سے قریب ہوتا جارہا تھا میرے دل کی دنیا بدلتی جارہی تھی۔ عجیب وغریب کیفیت کا عالم
تھاپھر جونہی میری نظر ”خانہ کعبہ” پر پڑی تو میرے دل سے تمام اَدیان باطلہ کی محبت نکل گئی اور ”دینِ اسلام ”کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی۔مَیں نے فوراً”عیسائیت ”سے توبہ کر کے محمد رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی غلامی اِختیار کرلی اور مسلمان ہوگیا ۔اس وقت میرا دل بہت خوشی محسوس کر رہا تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد میں نے غسل کیا احرام باندھا اور دعا کی:” اے اللہ عزوجل! آج میری ملاقات حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ہوجائے ۔” بارگاہِ خداوندی عزوجل میں میری دعا قبول ہوئی اور میں اب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔”
حضرت سیدنا ابراہیم خواص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت خوش ہوئے۔ اسے خوب شفقتوں اور محبتوں سے نوازا۔پھر ہماری طرف متو جہ ہوئے اور فرمایا:” اے حامد ! دیکھ لو سچائی میں کتنی برکت ہے۔ اس نوجوان کو حق کی تلاش تھی اور یہ اپنی طلب میں سچا تھا لہٰذا اسے حق مل گیا یعنی یہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگیا ۔” پھر وہ نوجوان ہمارے ساتھ ہی رہنے لگا اور بہت بلند مرتبہ حاصل کیا ۔ بالآ خر وہ دارِ فناسے دارِ بقاء کی طرف روانہ ہوگیا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)