Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
waqiyat

سفرہوتوایسا، رفیقِ سفر ہوتوایسا

سفرہوتوایسا، رفیقِ سفر ہوتوایسا

حضرت سیدنا محمد بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، حضرت سیدنا مخول نے مجھے بتایا کہ” ایک مرتبہ حضرت سیدنا بہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میرے پا س آئے اور مجھ سے فرمانے لگے :”میرا حج کا ارادہ ہے ، اگر تمہارے علم میں کوئی ایسا شخص ہے جو حج کا ارادہ رکھتاہوتومجھے اس کے بارے میں بتاؤ تاکہ ہم دونوں سفرِحج پرروانہ ہوں اور ایک دوسرے کی رفاقت میں حج کی سعادت حاصل کریں۔” میں نے حضرت سیدنابہیم (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)سے عرض کی:”ہمارے پڑوس میں ایک دین دار اور بہت نیک شخص رہتا ہے وہ بھی حج کاارادہ رکھتاہے، آیئے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکی اس سے ملاقات کر ادیتا ہوں۔چنانچہ میں انہیں اپنے اس دوست کے پاس لے گیا اور اسے صورت حال سے آگاہ کیاتو وہ تیار ہو گیا اور کہا:”ان شاء اللہ عزوجل ہم ایک ساتھ سفرِ حج پر روانہ ہوں گے۔
پھر ہم وہاں سے چلے آئے اور حضرت سیدنا بہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد میرا وہی دوست میرے پاس آیا اورکہنے لگا :” میں یہ چاہتا ہوں کہ جس شخص کو آپ نے میرا رفیق بنایا ہے آپ اسے میرا رفیق نہ بنائیں بلکہ اس کے لئے کوئی اور رفیق تلاش کر لیں ،میں اس کے ساتھ سفر نہیں کر سکتا۔” جب میں نے یہ سنا تو اپنے اس دوست سے کہا: ”تجھ پر افسوس ہے! آخر کیوں تو اس کے ساتھ سفر کرنے کو تیار نہیں؟ خدا عزوجل کی قسم !پورے کوفہ میں میرے نزدیک ان سے بڑھ کرکوئی متقی و پر ہیز گار نہیں ،میں نے ان کے ساتھ کئی سمندری اور صحرائی سفرکئے ہیں، میں نے ان میں ہمیشہ بھلائی اور خیر ہی کو پایا اور تم ہو کہ ان کی رفاقت سے محروم رہنا چاہتے ہو، آخر وجہ کیا ہے؟” وہ کہنے لگا:” مجھے خبر ملی ہے کہ جسے آپ میرا رفیق بنانا چاہتے ہیں وہ تو ہر وقت روتے ہی رہتے ہیں اور انہیں رونے سے کبھی فرصت ہی نہیں ملتی، ہر وقت آہ وبکا کرتے رہتے ہیں، اب آپ ہی بتائیے کہ میں ایسے شخص کے ساتھ سفر کیسے کر سکتا ہوں؟ان کے رونے کی وجہ سے ہمارا سفرخوش گوار نہیں رہے گا اور ہمیں بہت پر یشانی ہوگی ۔”
میں نے اپنے اس دوست سے کہا :”بعض اوقات انسان وعظ ونصیحت سن کر رو پڑتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے ؟یہ تو رقتِ قلبی کی وجہ سے ہوتا ہے کیاآپ کبھی وعظ ونصیحت سن کر نہیں روئے ؟ ”اس نے کہا:” یہ تو آپ بجا فرمارہے ہیں لیکن ان کے بارے میں تو مجھے یہ خبر ملی ہے کہ وہ ہر وقت ہی روتے رہتے ہیں اور ان کا رونا بہت طویل ہوتا ہے ۔”
میں نے کہا :” آپ اس کی صحبت اختیار کریں، اللہ رب العزت آپ کو اس مرد صالح کے ذریعے بر کتیں عطا فرمائے گا، آپ بے فکر ہو کر ان کے ساتھ سفر کریں۔”چنانچہ میرا وہ دوست تیار ہوگیا اور کہنے لگا:” ٹھیک ہے، میں ان کے ساتھ سفر کرنے کو تیار ہوں، اللہ ربُّ العزَّت ہمارے اس سفر میں خیر و برکت عطا فرمائے ۔

پھر جس دن ان کی حج کے لئے روانگی تھی تو میں اور میرا دوست حضرت سیدنا بہیمرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچے تودیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک دیوار کے سائے تلے بیٹھے زار وقطار رو رہے ہیں اور آپ کے آنسوداڑھی مبارک کو تر کرتے ہوئے زمین پر گر رہے ہیں ۔
جب میرے دوست نے یہ دیکھا تو مجھ سے کہنے لگا:” دیکھو! انہوں نے تو ابھی سے ہی رونا شرو ع کردیا ،بقیہ سفر میں ان کا کیا حال ہوگا ۔آپ نے تو مجھے بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے، میں ان کے ساتھ سفر کس طر ح کر سکوں گا؟” میں نے کہا : ”ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے اہل وعیال سے جدائی کی وجہ سے رو رہے ہوں۔ میری یہ بات حضرت سیدنا بہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سن لی اور کہا :”اے مخول! میں گھر والوں سے جدائی کی وجہ سے نہیں رو رہا بلکہ مجھے تو سفر آخرت کی طوالت اور صعوبتیں رُلا رہی ہیں۔” یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پھر رونے لگے۔
مجھ سے میرادو ست کہنے لگا :”ان کی رفاقت کے لائق تو حضرت سیدنا داؤد طائی اور حضرت سیدنا سلام ابو الاخوص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہماجیسے بزرگ ہیں کیونکہ وہ بھی ایسے ہی رونے والے ہیں۔ جب یہ سب جمع ہوں گے تو انہیں قرار نصیب ہو جائے گا یا پھر سارے ہی رورو کر جان دے دیں گے ،میں ان کی رفاقت کے قابل نہیں ۔”
میں نے پھر اپنے دوست کو سمجھا یا اور کہا:” آپ تھوڑا صبر سے کام لیں اور انہیں برداشت کریں، ہوسکتاہے یہ سفر آپ کے لئے ذریعہ نجات بن جائے۔” بالآخر وہ کہنے لگا:” اکثر لوگ جب حج پر روانہ ہوتے ہیں تو وہ خوش خوش اور بہت زیادہ زادِ راہ لے کرجاتے ہیں اور ان میں کوئی بھی غم زدہ یا محتاج نہیں ہوتا۔ میں نے تو ہمیشہ ایسے ہی خوشحال لوگو ں کے ساتھ سفرکیا ہے، اب پہلی مرتبہ مجھے ایسے شخص کی رفاقت مل رہی ہے جو گریہ وزاری کرنے والا ہے۔ بہر حال میں ان کے ساتھ سفر ضرور کروں گا شاید! یہ سفر میرے لئے خیر و برکت کا سبب بنے ۔ بالآخرمیرا وہ دوست سفرکے لئے تیار ہوگیا۔ حضرت سیدنا بہیمرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوہمارے مابین ہونے والی گفتگو کا علم نہ تھا ورنہ وہ اگر ہماری یہ باتیں سن لیتے تو کبھی بھی میرے اس دوست کے ساتھ سفر نہ کرتے۔ بہر حال میں نے ان دونوں کو سو ئے حرم روانہ کردیا ۔
؎ مدینے جانے والو ! جاؤ جاؤ فی امان اللہ (عزوجل)
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بستر مدینے میں
پھر جب حاجیوں کے قافلے فریضہ حج ادا کر کے اور اپنی آنکھوں سے سبز سبزگنبد اور خانہ کعبہ کے جلوے دیکھ کر واپس کوفہ پہنچے تومیں اپنے اس دوست کے پاس گیااسے سلام کیااورپوچھا: ”آپ نے ا پنے رفیق کو کیسا پایا؟ ”تو اس نے مجھے دعائیں

دیتے ہوئے کہا: ”اللہ عزوجل آپ کو میری طرف سے اچھا بد لہ عطا فرمائے، خدا عزوجل کی قسم! آپ نے جس مردِ قلندر کو میرا رفیق بنایا مجھے ان میں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے جلوے نظر آتے تھے، انہوں نے حقِ صحبت خوب ادا کیا۔وہ خود تنگ دست ہونے کے باوجود مجھ پر خرچ کرتے رہے حالانکہ میں اپنے ساتھ بہت سارا زادِراہ لے گیا تھا مگر وہ مجھ پر اپنے زادِراہ سے خرچ کرتے رہے،میں جوان تھا اور وہ ضعیف العمر ۔لیکن پھر بھی انہوں نے میری خدمت کی ۔وہ میرے لئے کھانا تیار کرتے اور مجھے کھلاتے اور خود سارا دن روزہ رکھتے، اللہ رب العزت انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔(آمین)
میں نے اپنے دوست سے پوچھا:”آپ خوف زدہ تھے کہ وہ روتے بہت زیادہ ہیں، اس کا کیاہوا؟ کیا تمہیں ان کے رونے سے پریشانی نہیں ہوئی ؟”و ہ کہنے لگا:”خدا عز وجل کی قسم! مجھے ان سے محبت ہوگئی اوران کے رونے کی وجہ سے مجھے قلبی سکون ملتااورمیں بھی ان کے ساتھ رویاکرتاتھا۔پھرابتداء ً توہمارے رونے کی وجہ سے دوسرے رفقاء کوپریشانی ہوئی لیکن پھر وہ بھی ہم سے مانوس ہوگئے پھر ایسا ہوتا کہ ہمیں روتادیکھ کر وہ بھی روناشروع کردیتے اوران سب نے ہم سے پیارومحبت بھرا سلوک کیااورجب ہم روتے تو ہمارے رفقاء بھی یہ کہتے ہوئے رونے لگتے :” جس غم نے انہیں رُلایاہے وہ سفرِ آخرت کاغم توہمیں بھی لاحق ہے پھر ہم کیوں نہ روئیں لہٰذا وہ بھی ہمارے ساتھ رونے لگتے ۔الحمدللہ عزوجل !ہمارایہ سفر بہت اچھارہا۔اللہ عزوجل آپ کوجزاء خیر عطا فرمائے۔
پھر میں سیدنابہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیااوران سے پوچھا:” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے رفیق کو کیساپایا؟”وہ فرمانے لگے :”الحمدللہ عزوجل! وہ بہت اچھے رفیق ثابت ہوئے، وہ اللہ عزوجل کاذکر کثرت سے کرنے والے، قرآن پاک کی بہت زیادہ تلاوت کرنے والے، بہت جلد رودینے والے اوراپنے ہم سفر کی لغزشوں سے درگزرکرنے والے تھے۔”

(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!