Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

عمرۃ القضاء

چونکہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ آئندہ سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ آکر عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ میں ٹھہریں گے۔ اس دفعہ کے مطابق ماہ ذوالقعدہ   ۷ھ؁ میں آپ صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ روانہ ہونے کاعزم فرمایا اور اعلان کرا دیا کہ جو لوگ گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پاچکے تھے سب نے یہ سعادت حاصل کی۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چونکہ کفارمکہ پر بھروسا نہیں تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے آپ صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے۔ بوقت روانگی حضرت ابو رہم غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ پر حاکم بنا دیا اور دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ جن میں ایک سوگھوڑوں پر سوار تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ساٹھ اونٹ قربانی کے لئے ساتھ تھے۔ جب کفارمکہ کو خبر لگی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آرہے ہیں تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے چند آدمیوں کو صورت حال کی تحقیقات کے لئے ”مرالظہران” تک بھیجا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسپ سواروں
کے افسر تھے قریش کے قاصدوں نے ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اطمینان دلایا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صلح نامہ کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے یہ سن کر کفارقریش مطمئن ہوگئے۔
چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب مقام ”یاجج” میں پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے تو تمام ہتھیاروں کو اس جگہ رکھ دیا اور حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے متعین فرما دیا ۔ اور اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مجمع کے ساتھ ”لبیک” پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے جب مکہ میں داخل ہونے لگے تو دربار نبوت کے شاعر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے رجز کے یہ اشعار جوش و خروش کے ساتھ بلندآواز سے پڑھتے جاتے تھے کہ ؎
خَلُّوْا بَنِی الْکُفَّارِ عَنْ سَبِیْلِہٖ
اَلْیَوْمَ نَضْرِبُکُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہٖ
اے کافروں کے بیٹو!سامنے سے ہٹ جاؤ۔ آج جو تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار چلائیں گے۔
ضَرْبًا یُّزِیْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِیْلِہٖ
وَیُذْھِلُ الْخَلِیْلَ عَنْ خَلِیْلِہٖ
ہم تلوار کا ایسا وار کریں گے جو سر کو اس کی خوابگاہ سے الگ کردے اور دوست کی یاد اس کے دوست کے دل سے بھلا دے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٹوکا اور کہا کہ اے عبداللہ بن رواحہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آگے آگے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں تم اشعار پڑھتے ہو؟ تو
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر !رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو چھوڑ دو۔ یہ اشعار کفار کے حق میں تیروں سے بڑھ کر ہیں۔ (1)(شمائل ترمذی ص ۱۷ و زرقانی ج ۲ ص ۲۵۵ تا ص ۲۵۷ )
    جب رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاص حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو کچھ کفارقریش مارے جلن کے اس منظر کی تاب نہ لاسکے اور پہاڑوں پر چلے گئے۔ مگر کچھ کفار اپنے دارالندوہ(کمیٹی گھر) کے پاس کھڑے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بادهٔ توحید و رسالت سے مست ہونے والے مسلمانوں کے طواف کا نظارہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے؟ ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں پہنچ کر ”اضطباع” کرلیا۔ یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ شروع کے تین پھیروں میں شانوں کو ہلا ہلاکر اور خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔ اس کو عربی زبان میں ”رمل” کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سنت آج تک باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی کہ ہر طواف کعبہ کرنے والا شروع طواف کے تین پھیروں میں ”رمل” کرتا ہے۔(2) (بخاری ج۱ ص ۲۱۸ باب کیف کان بدء الرمل )

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!