حکایت نمبر54: طویل ترین سفر”دودنوں”میں طے کرلیا
حضرت سیدناعبد اللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، ایک مرتبہ حضرت سیدناابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم نے اپنی توبہ سے قبل کاایک واقعہ بتایاجو واقعات آپ کی توبہ کاسبب بنے ان میں یہ سب سے پہلا واقعہ تھا،آپ فرماتے ہیں:”موسم گرماکی ایک سخت دوپہر،مَیں اپنے محل کے بالاخانے میں دنیاکی رنگینیوں میں مگن تھا،مجھے ہرطرح کی سہولت میسر تھی، محل کی ایک کھڑکی شارع عام کی طرف کھلتی تھی جس سے میں باہرکے نظاروں سے لطف اندوز ہواکرتاتھا۔ ا س دن بہت شدید گرمی تھی لیکن میں اپنے آرام دہ، ٹھنڈے ،ہوا دار بالاخانے میں اپنے رفقاء کے ساتھ بڑے سکون سے خوش گپیوں میں مصروف تھا۔یکایک میری نظر اس کھڑکی کی طرف پڑی جو شارع عام کی طرف کھلتی تھی۔ میں نے دیکھاکہ اس سخت گرمی میں ایک بزرگ بوسیدہ سی چادر میں لپٹا دنیا کے غموں سے بے فکرمحل کی دیوا رکے سائے تلے بڑے سکون سے بیٹھاہے۔ میں اس کی یہ حالت دیکھ کربہت حیران ہوا۔ میں نے فوراََخادم کوبلایااور کہا:” اس بزرگ کے پاس جاؤ اور اسے میری طرف سے سلام عرض کرنااور کہناکہ آپ کچھ دیر محل میں تشریف لے چلیں، ہمارا بادشاہ آپ کو بلارہاہے۔” خادم فوراََبزرگ کے پاس گیا اوراسے میر اپیغام دیا۔وہ خادم کے ساتھ میرے پاس آیااور مجھے سلام کیا۔میں نے جواب دیااور اسے اپنے پہلومیں بٹھایا اس کی قربت سے مجھے دلی سکون نصیب ہوا اور میرے دل سے دنیاکی محبت زائل ہونے لگی۔ میں نے اس بزرگ کے لئے کھانامنگوایاتو اس نے کھانے سے انکار کردیا۔میں نے اس سے پوچھا:”آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟” فرمانے لگے:” میں وراء النہر سے آیاہوں۔” میں نے پوچھا:”کہاں
کااراد ہ ہے؟” فرمانے لگے: ”ان شاء اللہ عزوجل حج کاارادہ ہے۔” میں بہت حیران ہواکیونکہ اس دن ذوالحجۃ الحرام کی دوتاریخ تھی ۔میں نے پوچھا:” آپ حج کے لئے اب روانہ ہوئے ہیں حالانکہ ذوالحجۃ الحرام کی دو تاریخ ہوچکی ہے، آپ اتنے کم وقت میں حرمین شریفین کیونکر پہنچ پائیں گے ؟”تو وہ بزرگ فرمانے لگے:” اللہ عزوجل جوچاہتاہے کرتاہے ،وہ ہرشے پر قادر ہے۔”میں نے کہا:”حضور! اگر آپ قبول فرمائیں تو میں بھی آپ کے ساتھ حرمین شریفین کی حاضری کے لئے چلوں۔” فرمایا: ”جیسے تمہاری مرضی۔” چنانچہ میں نے اسی وقت ارادہ کرلیاکہ اس بزر گ کی صحبت ضرورحاصل کروں گااوراس کے ساتھ حج کرنے جاؤں گا۔جب رات ہوئی تو اس بزرگ نے مجھ سے فرمایا:” چلو!ہم اپنے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔”میں سفر کی کچھ ضروری چیزیں لے کر ان کے ساتھ چلنے کوتیار ہوگیا۔انہوں نے میراہاتھ پکڑا اور ہم رات ہی کو بلخ سے روانہ ہوگئے۔ ہم نے رات کے کچھ ہی حصہ میں کافی فاصلہ طے کر لیا پھر ہم ایک گاؤں میں پہنچے تو مجھے ایک شخص ملامیں نے اسے چند ضروری اشیاء لانے کو کہا تو اس نے فوراً وہ چیزیں حاضر کردیں پھرہمیں کھاناپیش کیا۔ہم نے کھاناکھایا ،پانی پیااور اللہ عزوجل کاشکر اداکیا۔پھر اس بزرگ نے مجھ سے فرمایا:”اٹھئے، پھر انہوں نے میراہاتھ پکڑا اورچل دیئے ہم منزل پر منزل طے کرتے جاتے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہاتھاکہ زمین ہمارے لئے سمیٹ دی گئی ہے اور خود بخودہمیں کھینچ کر منزل کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہم کئی شہروں اور بستیوں کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ جب بھی کوئی شہر آتاتو وہ بزرگ مجھے بتاتے کہ یہ فلاں شہر ہے، یہ فلاں جگہ ہے۔
جب ہم کوفہ پہنچے تو انہوں نے مجھ سے کہا:” تم مجھے رات کو فلا ں وقت فلاں جگہ ملنا۔”اتناکہنے کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے ۔جب میں وقتِ مقررہ پر اس جگہ پہنچاتو وہ بزرگ وہیں موجو دتھے۔ انہوں نے مجھے دیکھاتو میراہاتھ پکڑا اور پھر منزل کی طرف چل دیئے۔ میں حیران تھاکہ اس بزرگ کی صحبت میں نہ تومجھے تھکاوٹ کا احساس ہو رہاتھا اور نہ ہی کسی قسم کی وحشت محسوس ہورہی تھی ۔ہماری منزل قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ پھر اس بزر گ نے فرمایا: ” اے ابراہیم! اب ہم اپنی عقیدتوں کے مرکز اورعُشَّاق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ”مدینہ منورہ ” کی نور بار فضاؤں میں داخل ہونے والے ہیں، سامنے سبزسبز گنبد ہے ۔
؎کیا سبز سبز گنبد کا خوب ہے نظارہ !
ہے کس قدر سہانا کیسا ہے پیارا پیارا !
ہم دھڑکتے دل کے ساتھ روضہ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پرحاضر ہوئے اور درود وسلام کے نذرانے پیش کئے میرے دل کو کافی قرار نصیب ہوا ،میں روضہ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی معطر ومعنبر
فضاؤں میں گم ہو گیا۔
؎ ایسا گما دے ان کی وِلا میں خدا ہمیں
ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
پھر اس بزرگ نے مجھ سے فرمایا:” اب میں کسی کام سے جارہاہوں اور رات کے فلاں حصے میں تم مجھے فلاں جگہ ملنا۔”اتناکہنے کے بعد وہ بزرگ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے پھر جب میں مقررہ وقت پر اس جگہ پہنچاتو دیکھا کہ وہ وہاں مجھ سے پہلے ہی موجودہیں اور نمازمیں مشغول ہیں۔نماز سے فراغت کے بعد انہوں نے میراہاتھ پکڑا اور کہا:”چلو اب” مکہ مکرمہ” کی طرف چلتے ہیں۔” ہم نے چلناشروع کردیا اورتھوڑی ہی دیر بعدہم” مکہ مکرمہ” کی مشکبار فضاؤں میں سانس لے رہے تھے۔” اب اس بزرگ نے فرمایا :” اے ابراہیم! اب تم مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہو،اب میں تم سے جدائی چاہتاہو ں ۔”یہ سنتے ہی میں نے ان کادامن تھام لیااور عرض کی:” میں آپ کی صحبتِ بابرکت سے مزید فیضیاب ہوناچاہتا ہوں۔”اس عظیم بزرگ نے فرمایا: ”میں ملک شام جانا چاہتاہوں۔” میں نے کہا:”حضور!مجھے بھی اپنی رفاقت میں شام لے چلیں۔” فرمانے لگے:” جب تم حج مکمل کرلو تو مجھے بِیر زمزم کے پاس ملنا،میں وہیں تمہاراانتظار کروں گا۔”اتناکہنے کے بعد وہ بزرگ وہاں سے تشریف لے گئے اور میں حسرت بھری نگاہوں سے ان کو دیکھتارہا۔جب میں فریضہ حج ا دا کرچکاتو مقررہ وقت پربیرزمزم کے پاس پہنچا۔ وہ عظیم بزرگ وہاں میرے منتظر تھے مجھے دیکھ کر انہوں نے میر اہاتھ پکڑا اور ہم نے خانہ کعبہ کاطواف کیا،پھر ہم مکہ مکرَّمہ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
ہم جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو اس بزرگ نے ایک مقام پر پہنچ کر پہلے ہی کی طرح مجھ سے فرمایا:”تم یہاں میراانتظار کرنامیں فلاں وقت تمہیں یہیں ملوں گا۔” وہ وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گئے اسی طرح انہوں نے تین مرتبہ کیاپھر ہمیں بہت جلد شام کی سرحدیں نظر آنے لگیں۔ ہم بہت ہی قلیل وقت میں مکہ مکرمہ سے شام پہنچ گئے ۔وہ بزرگ مجھے لے کر ”بیت المقدس ” پہنچے اور مسجدمیں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمانے لگے:” اے اللہ عزوجل کے بندے! یہی میری رہائش گاہ ہے۔ اب ہماری جدائی کاوقت آ گیاہے، اللہ عزوجل تجھے اپنی حفظ وامان میں رکھے اور تم پر سلامتی ہو۔”
اس کے بعدوہ بزرگ اچانک میری نظروں سے غائب ہوگئے ۔میں نے ان کوبہت تلاش کیا لیکن مجھے وہ نہ مل سکے اور نہ ہی ان کے متعلق کسی سے کوئی معلومات مل سکیں اور میں یہ بھی نہ جا ن سکاکہ جس عظیم ہستی کی کچھ دنوں کی صحبت نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی، میرے دل سے دنیاکی محبت ختم کردی میرے اس محسن کانام کیاہے۔ میں اس کے نام سے بھی ناواقف رہاپھر میں اپنے دل میں اس بزرگ کی جدائی کاغم لئے شام سے بلخ کی طرف روانہ ہوااوراب میں اس سفر کو بہت طویل محسوس کررہاتھااور میراواپسی کاسفر مجھ پر بہت سخت ہوگیا تھا مجھے اس بزرگ کی رفاقت میں گزرے ہوئے نورانی لمحات بار با ریاد آرہے تھے۔ بالآخر میں سفر کی کافی صعوبتیں برداشت کر کے کئی دنوں کے بعد اپنے شہر بلخ پہنچا۔
جو واقعات میری توبہ کا سبب بنے یہ ان میں سب سے پہلاواقعہ تھا اور اس کی وجہ سے میں دنیاوی زندگی سے کافی بیزار ہوچکاتھا،مجھے اس بزرگ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات باربار یاد آتے اور میں ان کے دیدار کامشتاق ہی رہالیکن دوبارہ ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)