Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
waqiyat

حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃاللہ علیہ کادورِخلافت

حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃاللہ علیہ کادورِخلافت

حضرت سیدناسہل بن یحییٰ المروزی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں :”خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کی وفات کے بعد جب حضرت سیدناعمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجیدنے اسے دفن کردیااور قبرستان سے واپس آنے لگے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوشاہی سواری پیش کی گئی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:”یہ کیاہے ؟”عرض کی گئی،” یہ وہ سواری ہے جس پر خلفاء سوار ہواکرتے ہیں چونکہ اب آپ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ہی ہمارے خلیفہ ہیں لہٰذا شاہی سوار ی حاضر خدمت ہے، قبو ل فرمائیے۔”
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اسے مجھ سے دور کردو،میرے لئے میراخچر ہی کافی ہے۔ چنانچہ آپ نے شاہی سواری کو چھوڑا اور اپنے خچر پر سوار ہوگئے پھر ایک خادم آیا اور عرض کی:” حضور!چلئے ،میں آپ کے خچر کی لگام پکڑ کرساتھ ساتھ چلتاہوں۔” آپ نے اس سے بھی انکار فرمادیااور خود ہی اپنے خچر پر سوارہوکرروانہ ہوگئے اور لوگوں سے فرمایا:” تم مجھے عجیب وغریب مخلوق نہ سمجھومیں بھی تمہاری ہی طرح ایک عام مسلمان ہوں، مجھے اپنے جیساہی سمجھو۔”
سب لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیچھے پیچھے آرہے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں داخل ہوئے اور منبر پر چڑھ کر خطبہ دینے لگے ۔تمام لوگ جمع ہو گئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاکلام سننے لگے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرما یا:”اے لوگو!میرے کندھوں پر خلافت کابارِگراں رکھ دیاگیاہے مگر میں اسے سر انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتالہٰذا جس نے میری بیعت کی ہے میں اسے اختیار دیتاہوں کہ وہ میرے علاوہ جس کے ہاتھ پر چاہے بیعت کر لے میں یہ خلافت قبول نہیں کرتالہٰذا مسلمانوں میں سے تم جسے چاہو اپناخلیفہ مقرر کر لو۔”جب لوگوں نے یہ سناتو ان کی چیخیں بلندہونے لگیں اورسب نے بیک زبان کہا:” اے عمر بن عبد العزیز (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!ہم نے آپ ہی کوخلیفہ مقرر کیا،ہم آ پ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)سے راضی ہیں، ہم سب آپ ہی کی خلافت پر متفق ہیں۔ آپ اللہ عزوجل کانام لے کر اُمور خلافت سر انجام دیں، اللہ عزوجل اس میں برکت دے گا۔”جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لوگوں کی یہ عقیدت دیکھی اور آپ کواس بات کا یقین ہوگیاکہ لوگ بخوشی میری خلافت قبول کرنے پر آمادہ ہیں تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی حمد وثناء کی اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر درود وسلام پڑھنے کے بعد لوگوں سے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے:”اے لوگو!میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرنے کی وصیت کرتاہوں، تم تقوی اختیار کرو اور اپنی آخرت کے لئے اعمال صالحہ کرو ۔بے شک جوشخص آخرت کے لئے نیک اعمال کریگااللہ عزوجل اس کی دُنیوی حاجات کوخود پورافرمائے گا۔
اے لوگو!تم اپنے باطن کی اصلاح کی کوشش کرواللہ عزوجل تمہارے ظاہر کی اصلاح فرمائے گا۔موت کوکثرت سے یاد کیا کرو اور موت سے پہلے اپنے لئے اعمالِ صالحہ کاخزانہ اکٹھا کرلو،موت تمام لذات ختم کردے گی۔ اے لوگو! تم اپنے آباؤاجداد

کے احوال میں غور وفکرکیاکرووہ بھی دنیامیں آئے اور ز ندگی گزار کرچلے گئے اسی طرح تم بھی چلے جاؤگے۔ اگر تم ان کے احوال کویادنہ رکھو گے تو موت تمہارے لئے بہت سختی کاباعث ہوگی لہٰذا موت سے پہلے موت کی تیاری کرلو۔
اور بے شک یہ امت مسلمہ اپنے رب عزوجل ،اس کے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور اس کی کتاب قرآن مجید کے بارے میں ایک دوسر ے سے جھگڑا نہیں کرے گی، اس مسئلے میں ان کے درمیان اختلاف نہ ہوگا بلکہ ان کے درمیان عداوت وفساد تو دراہم ودنانیر کی وجہ سے ہوگا۔ اللہ عزوجل کی قسم! میں کسی ایک کوبھی ناحق کوئی چیز نہ دوں گااور حق دار کواس کاحق ضرور دوں گا۔” پھرآپ نے مزید فرمایا:” اے لوگو!جو اللہ عزوجل کی اطاعت کرے، تم پر اس کی اطاعت واجب ہے اور جواللہ عزوجل کی اطاعت نہ کرے اس کی اطاعت ہرگز نہ کرو۔ جب تک میں اللہ عزوجل کی اطاعت کرتارہوں اس وقت تک تم میری اطاعت کرنااگر تم دیکھو کہ (معاذاللہ عزوجل )میں اللہ عزوجل کی اطاعت نہیں کررہاتو اس معاملے میں تم میری ہرگز اطاعت نہ کرنا۔”
یہ خطبہ دے کر آپ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔اپنا مال ودولت اور تمام کپڑے وغیرہ منگوائے اور انہیں بیت المال میں جمع کرادیاپھر تمام شاہی لباس جو خلفاء کے لئے تھے اور تمام آرائشی چیزیں منگوائیں اور حکم دیاکہ ان کوبیچ کربیت المال میں جمع کرا دو۔ آپ کے حکم کی تعمیل ہوئی اور تمام رقم مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کردی گئی۔
آپ دن رات لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مصروف رہتے کبھی تو ایسا بھی ہوتاکہ آرام کے لئے بالکل وقت نہ ملتا اور آ پ لوگوں کے مسائل کی وجہ سے آرام کوترک کردیتے۔ ایک دن ظہر کی نماز سے قبل بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تو کچھ دیر قیلولہ کرنے کے لئے کمرے میں تشریف لے گئے ابھی آ پ لیٹے ہی تھے کہ آپ کے صاحبزادے حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے : ”اے امیرالمؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہاں کیسے تشریف فرماہیں ؟”آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے فرمایا: ”مجھے مسلسل بے آرامی کی وجہ سے بہت زیادہ تھکاوٹ ہورہی تھی اس لئے کچھ دیر کے لئے آرام کی غرض سے آیاہوں۔”توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے نے کہا: ”حضور! لوگ آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے منتظر ہیں اور مظلوم اپنی فریاد لے کر حاضر ہیں اور آپ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)یہاں آرام فرماہیں۔” آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا:”میں ساری رات نہیں سوسکا اب تھوڑی دیر آرام کرکے ظہر کے بعد لوگوں کے مسائل حل کروں گا۔”توآپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے عظیم صاحبزادے نے کہا: ”اے امیرالمؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! کیاآپ کویقین ہے کہ آپ ظہر تک زندہ رہيں گے؟
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے لختِ جگر کافکرِ آخرت سے بھرپوریہ جملہ سنا تو فرمایا: ” اے میرے بیٹے ! میرے قریب آؤ۔”جب وہ قریب آئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی پیشانی کوبوسہ دیا اور فرمانے لگے:” تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے

لئے ہیں جس نے مجھے ایسی اولاد عطافرمائی جودین کے معاملہ میں میری مدد کرتی ہے۔”
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً ہی آرام کئے بغیر باہرتشریف لائے اور اعلان کروادیاکہ جس کاکسی پر کوئی حق ہے یاجس کوکوئی مسئلہ درپیش ہے وہ آجائے میں اسے اس کاحق دلواؤں گااور اس کے مسائل حل کروں گا۔ تھوڑی دیر میں ایک ذمی کافرآیااور کہنے لگا: ” میں حمص سے آیاہوں اور آپ سے کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ چاہتاہوں ۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ”آخر تمہارا معاملہ کیاہے؟ تم کس بات کافیصلہ چاہتے ہو؟”وہ ذمی جواباً کہنے لگا:” عباس بن ولیدنے میری زمین مجھ سے غصب کرلی ہے۔” عباس بن ولید بھی اسی مجلس میں موجود تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا:” ا ے عباس! تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟” عباس بن ولید کہنے لگے:” حضور !یہ زمین مجھے امیر المؤمنین ولید بن عبد الملک نے دی تھی، ان کی لکھی ہوئی سند میرے پاس موجود ہے۔”پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمی سے فرمایا:” اے ذمی !تواس بارے میں کیا کہتا ہے؟ اس کے پاس تو زمین کی ملکیت کی سند ولید بن عبدالملک کی طرف سے موجود ہے جس کے مطابق یہ زمین عباس کی ملکیت میں ہے۔” ذمی کہنے لگا:”اے امیر المؤمنین ! میں اپ سے کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ چاہتاہوں۔” امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”ولید بن عبد الملک کی کتاب (یعنی سند) کی بجائے کتاب اللہ زیادہ لائق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ۔ لہٰذا اے عباس! تو یہ زمین اس ذمی کوواپس کردے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ زمین عباس بن ولید سے لے کر اس ذمی کودلوائی تب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوقرار حاصل ہوا۔اسی طرح جو بھی جائداد اور زمین وغیرہ شاہی خاندان کے پاس ناحق موجودتھی وہ سب کی سب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے حق داروں کوواپس کرادی ،جن لوگوں کے اموال ناحق مقبوض تھے سب ان کوواپس کردئیے گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی عدل وانصاف کا مظاہرہ کیا اورشاہی خاندان کے پاس کوئی چیزبھی ایسی نہ چھوڑی جس پر کسی دوسرے کاحق ثابت ہورہا ہو۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عدل وانصاف پر مبنی ان فیصلوں کی خبر عمربن ولید بن عبد الملک کوپہنچی تو اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ایک مکتوب بھیجااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبہت زیادہ سخت الفاظ سے مخاطب کیا۔چنانچہ اس نے لکھا:
”اے عمربن عبدالعزیز (علیہ رحمۃ اللہ المجید) ! تم نے اپنے سے پہلے تمام خلفاء پر عیب لگایاہے اور تم حد سے تجاوز کرگئے ہو، تم نے بغض وعناد کی وجہ سے اپنے پہلوں کے طریقوں کو چھوڑدیاہے اور ان کے خلاف چل رہے ہو،تم نے قریش اور ان کی اولاد کی میراث کو جبراََبیت المال میں داخل کرکے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی ہے اور قطع رحمی سے کام لیاہے۔اے عمر بن عبد العزیز !اللہ عزوجل سے ڈرو اور اس بات کاخیال کرو کہ تم ظلم وزیادتی سے کام لے رہے ہو،اے عمر بن عبد العزیز !ابھی تمہارے پاؤں صحیح طور پر تختِ

خلافت پر جمے بھی نہیں اور تم نے ایسے سخت فیصلے کرناشروع کردئیے ہیں۔ یاد رکھو!تم اللہ عزوجل کی نگاہ میں ہوجوبہت جبّار وقہار ہے ۔”
جب حضرت سیدناعمر بن عبد العزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس کایہ خط ملاتوآپ نے اس کوپڑھ کراسی انداز میں اسے عدل وانصاف اور جرأتِ ایمانی سے بھرپورخط روانہ کیاجس کامضمون کچھ اس طرح تھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
اللہ عزوجل کے بندے عمربن عبدالعزیز کی طرف سے عمربن ولید کو۔تمام تعریفیں اللہ عزوجلکے لئے ہیں جوتمام جہانوں کاپالنے والاہے اور سلام ہوتمام رسولوں پر۔
امَّابعد!اے عمر بن ولید!مجھے تمہاری طرف سے جو مکتوب ملاہے اس کاجواب اسی اندازمیں لکھ رہاہوں۔ اے عمر بن ولید!تو ذرا اپنے آپ کو پہچان کہ کس کی اولادہے؟ تو ایک ایسی لونڈی کے بطن سے پیداہواتھاجسے ذبیان بن دیان نے خریدا تھااور اس کی قیمت بیت المال سے ادا کی تھی پھر اس نے وہ لونڈی تیرے والدکو تحفۃََ دے دی تھی ۔اور اب تو اتناشدید وسخت بن رہاہے اور تو گمان کررہاہے کہ میں نے حدوداللہ نافذ کرکے ظلم کیاہے۔ یاد رکھ! وہ زمین اور جائداد جو تمہارے خاندان والوں کے پاس ناحق تھی وہ میں نے ان کے حق داروں کودے کرظلم نہیں کیابلکہ اللہ عزوجل کی کتاب کے مطابق فیصلہ کیاہے۔ ظالم تو وہ شخص ہے جس نے اللہ عزوجل کے احکام کالحاظ نہ رکھا اور جس نے ایسے لوگوں کوگورنر اوربلند حکومتی عہدے دئیے جو صرف اپنے اہل خانہ اور اپنی اولاد کا بھلا چاہتے تھے اور مسلمانوں کی مشکلات اور ان کے حقوق سے انہیں کوئی غرض نہ تھی اوروہ اپنی مرضی سے فیصلے کرتے تھے۔ اے عمر بن ولید! تجھ پر اور تیرے باپ پر بہت زیادہ افسوس ہے، بروزِقیامت تم دونوں سے حق مانگنے والوں کی تعدادبہت زیادہ ہوگی،اس دن لوگ تم سے اپنے حقوق کامطالبہ کریں گے اور مجھ سے زیادہ ظالم تو حجاج بن یوسف تھاجس نے ناحق خون بہایااور مالِ حرام پر قبضہ کیااور مجھ سے زیادہ ظالم و نافرمان تو وہ شخص تھاجس نے اللہ عزوجل کی حدود قائم کرنے کے لئے قرہ بن شریک جیسے شخص کومصرکاگورنرمقرر کیا حالانکہ وہ نراجاہل تھا،اس نے شراب کو عام کیااور آلاتِ لہوولعب کوخوب پروان چڑھایا۔
اے عمر بن ولید! تمہیں مہلت ہے کہ جن جن کاحق تم پرہے جلد ان کو واپس کردو ورنہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے پاس جوبھی ایسا مال ہے کہ اس میں کسی غیرکاحق شامل ہے تو میں اسے حق داروں میں تقسیم کردوں گااور اگر تم غور وفکر کرو تو تمہارے اموال میں بہت سارے لوگو ں کا حق شامل ہے۔ اگردنیاوآخر ت کی بھلائی چاہتے ہوتو دوسروں کے حق واپس کردو۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْنَاوَلَاسَلَامُ اللہِ عَلٰی الظّٰلِمِیْن یعنی ہم پر سلامتی ہواور ظالموں پر اللہ عزوجل کی طرف سے سلامتی نہ ہو۔
حضرت سیدناعمربن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت وکردارسے آپ کے دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں

نے بھی اعتراف کیاکہ یہ مردِ مجاہدواقعی خلافت کے لائق ہے ۔یہاں تک کہ جولوگ آپ کی جان کے درپے تھے انہوں نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اچھی سیرت اور کردار سے متاثر ہوکر اپنے ارادوں کو ترک کر دیا۔ خوارج بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے دشمنی رکھتے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرناچاہتے تھے لیکن جب ان کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت اور طرز حکومت کی خبر ہوئی تو انہوں نے آپس میں یہ طے کیاکہ ہم ایسے عظیم شخص سے جنگ کریں اور اسے قتل کردیں،یہ کام ہمیں زیب نہیں دیتالہٰذا وہ اپنے اس مذموم فعل سے باز رہے اور جب تک اللہ عزوجل نے چاہاآپ نہایت عدل وانصاف سے اُمورِخلافت انجام دیتے رہے ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!