حکایت نمبر7: امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت
حضرت سیدنا عمر وبن میمون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:”جس دن حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا گیا اس دن میں وہیں موجود تھا ۔ حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازِ فجر کے لئے صفیں درست کرو ارہے تھے۔ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بالکل قریب کھڑا تھا، ہمارے درمیان صرف حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حائل تھے۔ حضرت سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ صفوں کے درمیان سے گزرتے اور فرماتے :اپنی صفیں درست کرلو۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھاکہ صفیں بالکل سیدھی ہوچکی ہیں، نمازیوں کے درمیان بالکل خلا نہیں رہااورسب کے کندھے ملے ہوئے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے ا ور تکبیرتحریمہ کہی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ صبح کی نماز میں اکثر سورہ یوسف اور سورہ نحل میں سے قراء َت فرماتے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی رکعت میں کچھ زیادہ تلاوت فرماتے تاکہ بعدمیں آنے وا لے بھی جماعت میں شامل ہو سکیں، ابھی آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے نمازشروع ہی کی تھی کہ ایک مجوسی غلام جو پہلی صف میں چھپ کر کھڑا تھااس نے موقع پاتے ہی ایک دودھاری تيز خنجرسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کردیا۔ حضرت سیدناعمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز سنائی دی کہ مجھے کسی کُتےّ نے قتل کردیا یا کاٹ لیا ہے وہ مجوسی غلام حملہ کرنے کے بعد پیچھے پلٹا اور بھاگتے ہوئے تیرہ نماز یوں پر حملہ کیا جن میں سے سات شہید ہوگئے ،ایک نمازی نے آگے بڑھ کر اس پر کپڑا ڈالا اور اسے پکڑ لیا، جب اس بدبخت غلام نے دیکھا کہ اب میں پکڑا جاچکاہوں ،تو اپنے ہی خنجرسے خودکشی کر لی، جب حضرت سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ ہوا تو صفوں میں دور دور کھڑے اکثر نمازی اس حملہ سے بے خبر تھے جب انہوں نے حضر ت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراء َت نہ سنی توسبحان اللہ ، سبحان اللہ کہنا شروع کردیا۔ حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز فجر پڑھائی ، اکثر لوگو ں کونماز کے بعد واقعہ کا علم ہوا۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدید زخمی ہوچکے تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدناابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے فرمایا:”اے ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہما!معلوم کرو کہ مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ”آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ باہر گئے ،کچھ دیر بعد واپس آکربتایا: ”مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام(ابولؤلؤہ فیروز) نے آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ پر حملہ کیا ہے ۔”
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”وہی غلام جو لوہار تھا ؟” حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا:”جی ہاں ۔ ‘ ‘ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ”اللہ عزوجل اسے غارت کرے !میری اس سے کوئی دشمنی نہیں تھی ،بلکہ میں نے تو اسے نیکی کی دعوت دی تھی ، میں تو اس کے ساتھ بھلائی کا خواہاں تھا ۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ میں کسی مسلمان کے ہاتھوں زخمی نہ ہوا۔” پھر آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو گھرلے جایا گیا۔ حضرت سیدناعمر وبن میمون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” ہم لوگ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی طر ف چل دیئے ۔ لوگو ں پر مصیبتوں کاپہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔گویا اس سے پہلے کبھی ایسی پریشانی اور مصیبت سے دو چار نہ ہوئے تھے۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسلی دینے لگے:حضور! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یشان نہ ہوں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گے، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکھجور کی نبیزپلائی گئی لیکن وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ سے زخموں کے ذریعے باہر آگئی۔ پھر دودھ پلایا گیا تو وہ بھی زخموں کے راستے پیٹ سے باہر نکل آیا ، لوگ سمجھ گئے کہ اب ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت سے زیادہ دیر تک فیضیاب نہ ہو سکیں گے۔
پھر لوگو ں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرنا شروع کردی، ایک نوجوان آکرکہنے لگا: ”اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کو مبارک ہو کہ عنقریب اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے رِحلت فرمانے والے دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ملا دے گا ۔اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کو خلافت کا منصب عطا کیا گیا تو آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے عدل وانصاف سے کام لیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اچھے خلیفہ اور لوگوں کے خیر خواہ و محسن ہیں۔” حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: ”میں تو اس بات کو پسند کرتا تھا کہ مجھے بقدرِ کفایت رزق ملے، نہ کوئی میرا مقروض ہو، نہ ہی میں کسی کا مقروض ہوؤں۔” پھر وہ نوجوان واپس جانے لگا تو اس کا تہبند ٹخنوں سے نیچے تھا اور زمین پرلگ رہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگو ں سے فرمایا:” اس نوجوان کو میرے پاس بلاؤ۔” جب وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی ہی شفقت سے فرمایا:” اے بھتیجے !اپنا کپڑا ٹخنوں سے اونچا کر لے، بیشک اس میں تیرے کپڑوں کی پاکیزگی اور تیرے رب عزوجل کی بارگاہ میں تیرا یہ عمل تقوی اور پر ہیز گاری کے زیادہ قریب ہے۔( سبحان اللہ عزوجل! قربان جائیے ان پاکیزہ ہستیوں کے جذبہ تبلیغ پرکہ آخری لمحات میں بھی نیکی کی دعوت دینا ترک نہ کی اورا س حالت میں بھی خلافِ شرع کام برداشت نہ ہوسکا۔ اللہ عزوجل ان کے صدقے ہمیں بھی جذبہ تبلیغ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الا مین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے فرمایا:”حساب لگا کر بتا ؤ، ہم پر کتناقرض ہے ؟” انہوں نے حساب لگا کر بتایا:” تقریباً چھیاسی ہزار(86,000) درہم ۔”
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اگر یہ قرض میرے مال سے ادا ہوجائے تو ادا کردینااوراگر میرا مال کافی نہ ہو توبنی عدی بن کعب کے مال سے ادا کرنا اگر پھر بھی ناکافی ہو توقریش سے سوال کرنا،ان کے علاوہ اور کسی سے سوال نہ کرنا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: ” تم اُم المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں چلے جاؤ اور ان سے عرض کر و کہ عمر بن خطاب اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرب میں جگہ عطا فرمائی جائے ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رور ہی تھیں، آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے کہا :” حضر ت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو سلام عرض کرر ہے ہیں اور اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے ساتھیوں کے قرب میں دفن کیا جائے۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:” یہ جگہ تومیں نے اپنے لئے رکھی تھی لیکن اب میں یہ جگہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایثار کر تی ہوں، انہیں جاکر یہ خوشخبری سنا دو۔”چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجازت لے کر واپس تشریف لائے۔
جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا گیا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آگئے ہیں توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”مجھے بٹھا دو۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسہارا دے کر بٹھا دیا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اے میرے بیٹے! کیا خبر لائے ہو؟ ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:” حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت عطا فرمادی ہے، آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش ہو جائیں ،جس چیز کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پسند کیا کرتے تھے وہ آپ کو عطا کردی گئی ہے ۔” یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” مجھے اس چیز سے زیادہ اور کسی چیز کی فکر نہیں تھی ، الحمد للہ عزوجل مجھے میری پسندیدہ چیز عطا کردی گئی ہے۔”
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” جب میری روح پر واز کرجائے تو مجھے اٹھا کرسرکارِ ابد ِقرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے روضہ اقدس پر لے جانا ، پھر بارگاہِ نبوت میں سلام عرض کرنا اور حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کرنا:”عمر بن خطاب اپنے دوستو ں کے ساتھ آرام کی اجازت چاہتا ہے ، اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہاں دفن کردینا اور اگر اجازت نہ ملے تو مجھے عام مسلمانوں کے قبر ستان میں دفنادینا ۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رو ح خالقِ حقیقی عزوجل سے جا ملی تو ہم لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد نبو ی شریف علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں لے گئے،اور حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حجرہ مبارکہ سے باہر کھڑے ہو کر اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سلام عرض کیا ،اور حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حجرہ مبارکہ میں دفن کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت عطا فرمادی ، چنانچہ حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحضورنبی پاک، صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلووں میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
؎ وہ عمر جس کے ا عداء پہ شیدا سقر
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھو ں سلام