زبان کی حفاظت کے واقعات
زبان کی حفاظت کے واقعات
(4) حضرت سیدنا عمر فاروق رضي اللہ عنہ ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضي اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ آپ اپنی زبان کو پکڑ کر فرمارہے ہیں : ”یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے مصیبتوں میں گرفتار کر رکھا ہے ۔”(تاریخ الخلفاء ، ص ۱۰۰ )
(5) حضرت عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ ایک مرتبہ صفا پر کھڑے ہوکر تلبیہ پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے :”اے زبان ! اچھی بات کہو فائدہ ہوگا اور بری بات سے خاموشی اختیار کرو سلامت رہو گی اس سے پہلے کہ تمہیں ندامت اٹھانی پڑے ۔”
(احیاء العلوم ،کتاب آفات اللسان، ج۳،ص۱۳۵ )
(6) حضرت سیدنا مالک بن صغیم رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا رباح القیسی رضي اللہ عنہ نمازِ عصر کے بعد ہمارے ہاں تشریف لائے اور فرمایا :”اپنے والد محترم
کو باہر بھیجئے۔” میں نے عرض کی :”وہ تو سو رہے ہیں ۔” تو آپ یہ کہتے ہوئے پلٹ گئے کہ ”یہ سونے کا کون سا وقت ہے ؟”میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا ۔ میں نے دیکھا کہ آپ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے فرما رہے ہیں :”ابوالفضول! تم نے یہ کیوں کہا کہ یہ سونے کا کون سا وقت ہے ؟ آخر تجھے یہ فضول بات کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اب تمہیں سزا بھگتنا ہوگی ، میں سال بھر تجھے تکیہ پر سر نہیں رکھنے دوں گا ۔” میں نے دیکھا کہ یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے سیلاب ِ اشک رواں تھا ۔(کیمیائے سعادت ج۲،ص ۸۹۳)
(7) کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ ”حضرت سیدنااحنف رضي الله عنه آپ لوگوں کے سردار کیسے بنے حالانکہ نہ تو وہ عمر میں سب سے بڑے ہیں اور نہ ہی مال ودولت میں؟” تو انہوں نے ارشاد فرمایا : ”انہیں یہ سرداری اپنی زبان پر حکومت کرنے (قابو پانے)کی وجہ سے نصیب ہوئی ہے۔”
(المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر،ج۱ ، ص ۱۴۷)
(8) حضرت سیدنا حسان بن سنان تابعی رضي الله عنه ایک بلند مکان کے پاس سے گزرے تو اس کے مالک سے دریافت کیا :”یہ مکان بنائے تمہیں کتنا عرصہ گزرا ہے ؟” یہ سوال کرنے کے بعد آپ دل میں سخت نادم ہوئے اور اپنے نفس سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے ،”اے مغرور نفس ! تو بے کار وبے مقصد سوالات میں قیمتی وقت کو ضائع کرتا ہے ۔” پھر اس فضول سوال کے کفارے میں آپ نے ایک سال کے روزے رکھے ۔
(منہاج العابدین ، ص ۷۲)
(9) منقول ہے کہ ایک مرتبہ چار ممالک کے بادشاہ کسی جگہ جمع ہوئے تو ایران کے بادشاہ نے کہا:”میں نہ بول کر کبھی نہیں پچھتایا لیکن بولنے کی وجہ سے بارہا
شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔”روم کے بادشاہ نے کہا :”اپنی ان کہی بات کی تردید میرے لئے بہت آسان تھی جبکہ کہی ہوئی بات کی تردید مجھے بے حد دُشوار محسوس ہوئی ۔”چین کے بادشاہ نے کہا :”جب تک میں خاموش رہا میں اپنی بات کا مالک تھا لیکن جب وہ بات کہہ بیٹھا تو وہ میری مالکہ بن گئی ۔” ہند کے بادشاہ نے کہا:”مجھے تو بولنے والے پر حیرت ہے کہ وہ ایسی بات کہتا ہی کیوں ہے ؟کہ جو منہ سے نکل جائے تو نقرضي الله عنهان دے اور اگر نہ نکلے توکچھ نفع نہ دے ۔” (المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر،ج۱ ، ص ۱۴۷)
(10) ایک مرتبہ بادشاہ بہرام کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اسے کسی پرندے کے بولنے کی آواز سنائی دی ۔ اس نے پرندے کی طرف تیر پھینکا جو اسے جالگا اور وہ ہلاک ہوگیا ۔ بہرام نے کہا :”زبان کی حفاظت انسان اور پرندے دونوں کے لئے مفید ہے کہ اگر یہ نہ بولتا تو اس کی جان بچ جاتی ۔”
(المستطرف فی کل فن مستظرف ،الباب الثالث عشر ،ج۱، ص ۱۴۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
یہ تمام واقعات زبان کے سلسلے میں احتیاط پسندی کے آئینہ دار ہیں۔ ہمیں بھی اپنے اکابرین کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے حفاظتِ زبان کے لئے عملی کوشش شروع کردینی چاہے ،اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم