islam
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک معزز صحابی تھے انہوں نے قریش کو ایک خط اس مضمون کا لکھدیا کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کی تیاریاں کررہے ہیں، لہٰذا تم لوگ ہوشیار ہوجاؤ۔ اس خط کو انہوں نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا تھا۔ آپ نے اپنے اس علم غیب کی بدولت یہ جان لیا کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کارروائی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی و حضرت زبیر و حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فوراً ہی روانہ فرمایا کہ تم لوگ ”روضۂ خاخ” میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک عورت ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے۔ اس سے وہ خط چھین کر میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب کباررضی اللہ تعالیٰ عنہم تیزرفتار گھوڑوں پر سوار ہوکر ”روضۂ خاخ” میں پہنچے اور عورت کو پالیا۔ جب اس سے خط طلب کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم!رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتے، نہ ہم لوگ جھوٹے ہیں لہٰذا تو خط نکال کر ہمیں دے دے ورنہ ہم تجھ کو ننگی کرکے تلاشی لیں گے۔ جب عورت مجبور ہوگئی تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر دے دیا۔ جب یہ لوگ خط لے کر بارگاہ رسالت میں پہنچے تو آپ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے
حاطب!یہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں نہ میں نے اپنا دین بدلا ہے نہ مرتد ہوا ہوں میرے اس خط کے لکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مکہ میں میرے بیوی بچے ہیں۔ مگر مکہ میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے جو میرے بیوی بچوں کی خبرگیری و نگہداشت کرے میرے سوا دوسرے تمام مہاجرین کے عزیزواقارب مکہ میں موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں نے یہ خط لکھ کر قریش پر ایک اپنا احسان رکھ دیا ہے تاکہ میں ان کی ہمدردی حاصل کرلوں اور وہ میرے اہل و عیال کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں۔ یارسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ضروران کافروں کو شکست دے گا اور میرے اس خط سے کفار کو ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس بیان کو سن کر ان کے عذرکو قبول فرما لیا مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خط کو دیکھ کر اس قدر طیش میں آگئے کہ آپے سے باہر ہوگئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ!(عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی غیظ و غضب میں بھر گئے۔ لیکن رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جبینِ رحمت پر اک ذرا شکن بھی نہیں آئی اور آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تمہیں خبر نہیں کہ حاطب اہل بدر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے فرمادیا ہے کہ ”تم جو چاہو کرو۔ تم سے کوئی مواخذہ نہیں” یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ یہ کہہ کر بالکل خاموش ہوگئے کہ” اللہ اور اس کے رسول کو ہم سب سے زیادہ علم ہے” اسی موقع پر قرآن کی یہ آیت
نازل ہوئی کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ (1)
اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمن کافروں کو دوست نہ بناؤ۔(ممتحنہ)
بہرحال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاف فرما دیا۔ (2)(بخاری ج ۲ ص ۶۱۲غزوۂ الفتح)