سچا تاجر
سچا تاجر
(سید انعام رضا عطاری مدنی)
اپنے اور اپنے بال بچوں کی کفالت کے لیے بقدرِ ضرورت حلال روزی کمانا فرض ہے۔ حلال روزی کمانے کے بہت سے ذَرائع ہیں جن میں سے ایک بہترین ذَرِیعہ ”تجارت“ ہے۔ تجارت کرنا جہاں ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی سُنَّت ہے وہاں کمائی کا ایک بہترین ذَرِیعہ بھی ہے۔ ”رب تعالیٰ نے رِزق کے دس حصّے کئے نو حصّے تاجر کو دیئے اور ایک حصّہ ساری دُنیا کو۔“(اسلامی زندگی،ص149)
”تجارت “ اچھی کمائی اور دُنیا و آخرت کی بھلائی کا سبب اسی صورت میں بن سکتی ہے جبکہ تاجر سچائی اور دیانت داری سے کام لے جیسا کہ سرورِذیشان،رحمتِ عالَمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:بیشک سب سے اچھی کمائی ان تاجروں کی ہے جو بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں، امین بنائے جائیں توخیانت نہ کریں، وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہ کریں، (دوسروں سے) کوئی چیز خریدیں تو اس کی مذمت نہ کریں، (اپنی چیز)جب فروخت کریں تو اس کی بیجا تعریف نہ کریں اور جب ان پر قرض ہو تو ( اس کی ادائیگی میں ) ٹال مٹول نہ کریں اور ان کا کسی پر قرض ہو تو اس پر (وصولی میں)تنگی نہ کریں۔ (شعب الایمان،ج 4،ص221،حدیث: 4854)
اگر کوئی تاجر جھوٹ ،خیانت اور دھوکا دہی سے اِجتناب کرتے ہوئے سچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کرے تو دُنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت کی سرخروئی بھی اس کا مقدر بن سکتی ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:سچا اور امانت دارتاجر (قیامت کے دن ) اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔(ترمذی،ج3،ص5، حدیث:1213)
اِس حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الْاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:اس سے معلوم ہوا کہ دِیگر پیشوں سے تجارت اعلیٰ پیشہ ہے،پھر تجارت میں غلّہ کی،پھر کپڑے کی،پھر عطر کی تجارت افضل ہے۔ ضروریاتِ زندگی اور ضروریاتِ دِینی کی تجارت، دوسری تجارتوں سے بہتر، پھر سچا تاجر مسلمان ،بڑا ہی خوش نصیب ہے کہ اسے نبیوں،ولیوں کے ساتھ حشر نصیب ہوتا ہے۔ مگر یہ ہمراہی ایسی ہوگی جیسے خُدَّام کو آقا کے ساتھ ہمراہی ہوتی ہے یہ مطلب نہیں کہ یہ تاجر نبی بن جائے گا، اچھا تاجر تاجور ہے بُرا تاجر فاجر ہے۔(مراٰۃ المناجیح ،ج4،ص244)
ایک اور حدیثِ پاک میں اِرشاد فرمایا :سچا تاجر قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہو گا۔ (کنزالعمال،ج2،ص5،جزء:4 ، حدیث: 9214)لہٰذا تُجَّار کو چاہیے کہ اِن فضائل و برکات کو پانے اور رِزقِ حلال کمانے کے لیے سچائی اور دیانت داری سے کام لیں اور اپنا مال فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسم کا ہرگز اِرتکاب نہ کریں کہ”جھوٹی قسم سے سودا فَروخت ہوجاتا ہے مگر بَرَکت مِٹ جاتی ہے۔“(کَنْزُالْعُمّال ،ج8،ص297،جزء:16،حدیث:46376)
اپنے مال کی بیجا تعریف بھی نہ کریں بلکہ اگر اس میں کوئی عیب یا خامی ہو تو اسے گاہک کے سامنے بیان کر دیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں شریعت و سنَّت کے مطابق حلال روزی کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم