علماء حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے وارث اور فقراء دوست ہیں:
علماء حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے وارث اور فقراء دوست ہیں:
سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار بِاذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ ذیشان ہے:”اللہ عزَّوَجَلَّ اس امت کے علماء اورفقراء کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے۔ علماء میرے وارث اور فقراء میرے دوست ہیں ۔”
(فردوس الاخبار للدیلمی،باب الطاء،الحدیث۳۷۵۱،ج۲،ص۴۷،مختصر)
حضرتِ سیِّدُناشفیق زاہدعلیہ رحمۃ اللہ الواحد سے مروی ہے کہ” فقراء نے تین چیزیں اختیار کیں:(۱)۔۔۔۔۔۔راحتِ نفس (۲)۔۔۔۔۔۔دل کی فراغت اور(۳)۔۔۔۔۔۔ہلکاحساب۔اوراغنیاء نے بھی تین چیزیں اختیارکیں:(۱)۔۔۔۔۔۔نفس کی تھکاوٹ (۲)۔۔۔۔۔۔دل کی مشغولیت اور(۳)۔۔۔۔۔۔حساب کی سختی ۔” (احیاء علوم الدین،کتاب الفقر والزھد،بیان فضیلۃ الفقر علی الغنی، ج۴، ص۲۵۱)
ایک بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”فقراء کی فضیلت پر اللہ عزَّوَجَلَّ کا یہ فرمانِ عالیشان دلیل ہے، چنانچہ اللہ عزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا :
(1) وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ
ترجمۂ کنزالایمان :اور نمازقائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔ (پ1،البقرۃ: 43)(۱)
یعنی نماز میرے لئے قائم کرو اور زکوٰ ۃ فقراء کو دو۔ یہاں اللہ عزَّوَجَلَّ نے اپنے حق کے ساتھ فقراء کا حق ملادیا۔
1۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” اس آیت میں نمازو زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نمازوں کو ان کے حقوق کی رعایت اور ارکان کی حفاظت کے ساتھ ادا کرو۔ مسئلہ : جماعت کی ترغیب بھی ہے، حدیث شریف میں ہے: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔”