عِلم کا بیان
عِلم کا بیان
اَلرَّحْمٰنُ ۙ﴿1﴾عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ؕ﴿2﴾
ترجمۂ کنزالایمان:رحمن نے اپنے محبوب کوقرآن سکھایا۔) (پ 27،الرحمن:1ـ2)
حمدِ باری تعالیٰ:
تمام تعریفیں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے جو بہت رحیم وکریم، بہت زیادہ احسان فرمانے والا، عزت والا، ہمیشہ رہنے والا، بلند، غنی، قوت والا، سلطان، سب سے اوّل کہ جب زما نہ بھی نہ تھا، سب سے آخر کہ جب کا ئنا ت نہ ہو گی، با قی رہنے والا کہ جب نہ انسان ہوگا، نہ جن، وہ جس نے لوحِ(محفوظ) میں قلم سے مخلوق کی ارواح کے متعلق احکام اور توحید وایمان کی آیات کو لکھا۔
جس نے توفیق کے چراغوں کو اہلِ تصدیق کے دلوں کے لئے جلایا تو انہوں نے وہ جمال دیکھاجس کی مثل کسی انسان کی آنکھ نے نہ دیکھا اور نہ ہی جنوں کو اس کا خیال ہوا۔ اس نے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی اولاد کو نعمتوں والی زمین میں پیدا کیا، پھر ان نعمتوں کو ورثاء کے مابین تقسیم کیا۔ کتنے ہی حقیر افراد کو عزت کاتاج پہنایا اور کتنے ہی معززین کو ذلیل کیا۔ اس نے ایک قوم کوعمدہ عادات وخصائل سے نوازا تو دوسری قوم کو غیر مہذب خصائل والا بنایا۔ جو لوگ غیر مہذب تھے اور جن کے دلوں میں کجی تھی، وہ حد سے تجاوز کرگئے، جبکہ عمدہ خوبیوں والے افراد مہذب اورہدایت یافتہ ہوئے، اور ایک دوسرے کوبھائیوں کی طرح بلاتے ہیں وطن دور بھی ہوں تب بھی خلوصِ دل سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ اور بِن دیکھے ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اوران کے دل ایک دوسرے کے لئے مشتاق رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گناہ اورخسارے کی جگہوں سے بچاتے ہیں، نیکی، ایثار اور فضل واحسان میں ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں، جس طرح خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ نے ان کو اس کا حکم دیا۔چنانچہ اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ۪ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ترجمۂ کنزالا یما ن :اور نیکی اور پر ہیز گا ر ی پر ایک دوسرے کی مدد کر و اور گنا ہ اور زیا دتی پر با ہم مدد نہ دو ۔ (پ۶،المآئدۃ:۲)(۱)
پا ک ہے وہ ذات جو رحمن عَزَّوَجَلَّ ہے، جس نے اپنے محبوب کو قرآن سکھا یا اور اپنی تعظیم کی تعلیم میں بیان کے راز ظاہر کئے، جس نے انسانیت کی جان حضرتِ سیِّدُنا محمدِمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو پیداکیا،انہیں ماکان ومایکون (یعنی جو کچھ ہوچکا اور جو آئندہ ہو گا) کا بیان سکھایا، ان کی تعلیم کے لئے الہام کی لگی ہوئی لائنوں کو افہام کے قلم سے لکھا، اس نے تمام زمانوں کا انتظام
۔۔۔۔۔۔مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”بعض مفسرین نے فرمایا: جس کا حکم دیا گیا اس کا بجالانا بِر،ا ور جس سے منع فرمایا گیا اس کو ترک کرنا تقوٰی، اور جس کا حکم دیا گیا اس کو نہ کرنااثم ( گناہ)، اور جس سے منع کیا گیا اس کا کرنا عُدْوَان (زیادتی) کہلاتا ہے۔”
اندازے سے کیا، دن رات میں سے ایک کے بعد دوسرے کو رکھا،سورج اور چاند حسا ب سے رکھے، پتھر اور مٹی کے ڈھیر اس کی پاکی بولتے ہیں، شمس وقمر اور نجم وشجر اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں۔ یہ ظاہر نشانیاں ہیں جن کو اہلِ معرفت کی آنکھوں کے لئے آراستہ کیا، اس نے بڑے بڑے عقل والوں کو اپنی قدرت کے بیابان (یعنی جہنم) میں اوندھا گرا دیا۔ پس ڈرنے وا لے مہربانیوں کے قدموں پر کھڑے ہیں، اچھے اوصا ف کے سا تھ متصف ہیں اورعدل و انصا ف قائم کرنے والی ذات اعلان فرما رہی ہے: ”وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶﴾ تر جمۂ کنز الا یمان :اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے، اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔”(پ۲۷،الرحمٰن:۴۶) اور عارفین ہمیشہ وعدے کی تصدیق وتحقیق کی خدمت پر محا فظ ہیں: ”ہَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ﴿ۚ۶۰﴾ ترجمۂ کنزالا یما ن:نیکی کا بدلہ کیا ہے مگر نیکی ۔ (پ۲۷، الرحمٰن:۶0)
جس طرح درخت ٹہنیوں کی وجہ سے زمین پرجھک جاتے ہیں اسی طرح وہ اپنے عبادت خانوں میں سحری کے وقت جھکتے ہیں۔ شوق ان کے دلوں کی سیدھی شاخ کو ہلاتا ہے تو وہ شاخیں بکھر جاتی ہیں، زبان کمزورہوتی ہے، دل عاجزی کااظہار کرتا ہے، آنکھیں بہنے لگتی ہیں ، ان کا اپنے محبوب کے ساتھ خلوت میں ہونا اُن کو دنیاوی نعمتوں سے غافل کر دیتا ہے، ان کا سرورہی ان کے کنگن ہیں، خشوع ہی ان کے تاج ہیں، ان کا خضوع ہی ان کو موتیوں اور مَرجان سے آراستہ کرتاہے، انہوں نے حرص کو بیچ کر قناعت کو لے لیا تو اب بادشاہ کون ہے؟ کیانوشیروان ؟ (نہیں! اس وقت تو اللہ عزَّوَجَلَّ کے محبوب بندے، بادشاہ ہوں گے ) ان کی زندگی کے ایَّام طویل ہو گئے اور محب محبوب کے دیدارکا پیاسا ہوتا ہے۔ جب قیامت میں آئیں گے تو انہیں بشارت دینے والے آقا محمد ِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپناجلوہ دکھائيں گے،اگرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نہ ہوتے توجنت آراستہ نہ کی جاتی۔ اللہ عزَّوَجَلَّ اپنے محبوب بندوں کے متعلق ارشاد فرماتاہے: ”یُبَشِّرُھُمْ رَبُّہُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَرِضْوَانٍ ترجمۂ کنزالا یما ن:ان کا رب انہیں خو شی سنا تا ہے اپنی رحمت اور اپنی رضا کی۔”(پ۱0،التوبۃ: ۲۱)
اے انسان! ذرا بصیرت کی آنکھ سے دیکھ اور دل کے آئینہ کو صاف کر تاکہ تو دلیل دیکھ پائے، تجھے اللہ عزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں سے کیا نسبت ہے؟ سونے والا بیدار رہنے والے کی طرح نہیں ہوسکتا، تیرے اور ان کے درمیان کتنا فرق ہے؟ بزدل کو بہادری سے کیا نسبت ہے؟ تجھ میں وعظ ونصیحت کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکہ تیرا دل خواہشات سے بھرا ہوا ہے، حبیب کی بارگاہ میں شدَّتِ غم سے حیرانی کے عالم میں کھڑے ہونے والے کی طرح کھڑا ہو جا اور اپنی جبینِ نیاز کو ایسے جھکا جیسے شرمسار جھکا کر کھڑے ہوتے ہیں اور سچائی کی کشتی پر سوارہو جا کیونکہ یہ موت طوفان ہے اور خواہشات کے خمار سےنکل آ۔کب تک تو خواہشات کے نشے میں بے ہوش رہے گا؟ کیا تو باقی رہنے والی شئے کو فانی شئے کے عوض بیچ دے گا؟ اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! یہ تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر تو امید کی وادی پر بلند ہو جائے تو ضرور بہادروں اور گھڑسواروں کو دیکھ لے گا ،اگراحباب کی سواریوں
پر تیرا گزر ہو تو ضرور اونٹوں کے حُدی خوانوں(یعنی مخصوص نغموں کے ذریعے اونٹوں کو ہانکنے والوں) کو سنے گا اور اگر تو احباب کے راستے پر ٹھہر جائے تو ضرور سواروں کا مشاہدہ کریگا۔