قطعہ تاریخ وِصالِ اعلٰی حضرت عظیم البرکت سیدی و ملجائی مرشدی ومولائی عالی جناب مولانا مولوی سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
قطعہ تاریخ وِصالِ اعلٰی حضرت عظیم البرکت سیدی و ملجائی مرشدی ومولائی عالی جناب مولانا مولوی سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
شیخِ زمانہ حضرتِ سید ابوالحسین
جانِ مراد کانِ ہدیٰ شانِ اِہتدا
نورِ نگاہ حضرتِ آلِ رسول کے
اچھے میاں کے لخت جگر آنکھوں کی ضیا
خود عین نور سیدی عینی کے نورِ عین
عشقی کے دل کے چین مرے دَرد کی دوا
میرے بزرگ بھی اسی دَر کے غلام ہیں
میں بھی کمینہ بندہ اسی بارگاہ کا
ما بندۂ قدیم و توئی خواجۂ کریم
پروردۂ تو ایم بیفزائے قدرِ ما
جانِ ظہور اب کوئی اِخفا کا وقت ہے
حائل جو پردہ بیچ میں تھا وہ بھی اُٹھ گیا
اَسرار کا ظہور ہو شانِ ظہور سے
استار سے اٹھائیے اب پردۂ خفا
اعلان سے دکھائیے وہ قادری کمال
اِظہار کیجے شوکت قدرت کا برملا
دروازے کھول دیجیے اِمدادِ غیب کے
کاسے لیے کھڑے ہیں بہت دیر سے گدا
یا سیدی میں کہہ کے پکاروں بلا کے وقت
تم لَا تَخَفْ سناتے ہوئے آؤ سرورا
داتا مرا سوال سنو مجھ کو بھیک دو
منگتا تمہارا تم کو تمہیں سے ہے مانگتا
آیا ہے دُور سے یہی سنتا ہوا فقیر
باڑا بٹے گا حضرتِ نوری کے نور کا
مجھ سا کوئی سقیم نہ تم سا کوئی کریم
میری طلب طلب ہے تمہاری عطا عطا
ِللّٰہ نگاہِ مہر ہو مجھ تیرہ بخت پر
آنکھوں کو نور دِل کو عنایت کرو جلا
دارَین میں علو مراتب کرو عطا
تم مظہر علی ہو علی مظہر علا
خوش باش اے حسنؔ ترے دشمن ملول ہوں
جس کا گدا ہے تو وہ ہے غمخوارِ بے نوا
تاریخ اب وصالِ مقدس کی عرض کر
حاصل ہو پورے شعر سے خاطر کا مدعا
وہ سیدِ وَلا گئے جب بزمِ قدس میں
اچھے میاں نے اُٹھ کے گلے سے لگالیا
۸۴۴ ۲۴ ۱۳ھ