اپنی جان پر ظلم کرنے والے نوجوان کی توبہ
حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھم علیہ الرحمۃ کی خدمت میں ایک نوجوان حاضر ہوا اور کہنے لگا ،”میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے ، مجھے کچھ نصیحت ارشادفرمائیں جو مجھے گناہوں کو چھوڑنے میں معاون ہو۔”آپ نے ارشاد فرمایا کہ،”اگر تم پانچ خصلتوں کو اپنا لو تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہ دیں گے اور ان کی لذت ختم ہوجائے گی ۔” اس نے آمادگی کا اظہار کیا تو آپ علیہ الرحمۃنے فرمایا،
”پہلی بات یہ ہے کہ جب تم گناہ کا ارادہ کرو تو اللہ تعالیٰ کا رزق مت کھاؤ۔” وہ نوجوان بولا،”پھر میں کھاؤں گا کہاں سے ؟ کیونکہ دنیا میں تو ہر شے اللہ عزوجل کی عطا کردہ ہے ۔” آپ نے فرمایا،”کیا یہ اچھا لگے گا کہ تم رب تعالیٰ کا رزق بھی کھاؤ اور اس کی نافرمانی بھی کرو ؟” اس نوجوان نے کہا ،”نہیں اور کیا ،دوسری بات بیان فرمائيے۔”
آپ نے فرمایا،”دوسری بات یہ ہے کہ جب تم کوئی گناہ کرنے لگو تو اللہ عزوجل کے ملک سے باہر نکل جاؤ۔” وہ کہنے لگا ،”یہ تو پہلی بات سے بھی مشکل ہے کہ مشرق سے مغرب تک اللہ عزوجل ہی کی مملکت ہے ۔” آپ نے ارشاد فرمایا،”تو کیا یہ مناسب ہے کہ جس کا رزق کھاؤ یا جس کے ملک میں رہو ، اس کی نافرمانی بھی کرو؟” نوجوان نے نفی میں سر ہلایا اورکہا،”تیسری بات بیان فرمائیں۔”
آپ نے ارشاد فرمایا،”تیسری بات یہ ہے کہ جب تم کوئی گناہ کرو تو ایسی جگہ کرو جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو ۔” اس نے کہا،”حضور! یہ کیسے ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ تو ہر بات کا جاننے والا ہے کوئی اس سے کیسے چھپ سکتا ہے ؟” تو آپ نے فرمایا ،” تو کیا یہ اچھا لگے گا کہ تم اس کا رزق بھی کھاؤ، اس کی مملکت میں بھی رہو اور پھر اسی کے سامنے اس کی نافرمانی بھی کرو ؟” نوجوان نے کہا،” نہیں، چوتھی بات بیان فرمائیں۔”
آپ نے فرمایا،”چوتھی بات یہ ہے کہ جب ملک الموت ں تمہاری روح قبض کرنے تشریف لائیں تو ان سے کہنا ،”کچھ دیر کے لئے ٹھہر جائیں تاکہ میں توبہ کر کے چند اچھے اعمال کرلوں ۔”اس نے کہا ،”یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اس مطالبے کو مان لیں ۔”تو آپ نے ارشاد فرمایا،”جب تم جانتے ہوکہ موت یقینی ہے اور اس سے بچنا ممکن نہیں تو چھٹکارے کی توقع کیسے کر سکتے ہو؟” اس نے عرض کی ،”پانچویں بات ارشاد فرمائیں ۔”
آپ نے فرمایا،”پانچویں بات یہ ہے کہ جب زبانیہ آئے اور تجھے جہنم کی طرف لے جایا جائے تو مت جانا ۔” اس نے عرض کی ،”وہ نہیں مانیں گے اور نہ مجھے چھوڑیں گے ۔”تو آپ نے ارشاد فرمایا،”تو پھر تم نجات کی امید کیسے رکھ سکتے ہو؟”
وہ نوجوان پکار اٹھا ،”مجھے یہ نصیحت کافی ہے ، اب میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں ۔”اس کے بعد وہ نوجوان مرتے دم تک عبادت میں مشغول رہا۔ (کتاب التوابین ، تو بۃ شاب مسر ف علی نفسہ ، ص ۲۸۵)