islam
حضرت سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید
س جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان بہت ہی کم ہوایعنی کل چھ مسلمان شہادت سے سرفرازہوئے مگر انصار کا سب سے بڑا بازو ٹوٹ گیایعنی حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار اعظم تھے،اس جنگ میں ایک تیر سے زخمی ہو گئے اور پھر شفا یاب نہ ہو سکے۔(2)
آپ کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی زرہ پہنے ہوئے جوش میں بھرے ہوئے نیزہ لے کر لڑنے کے لئے جا رہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا کہ جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام اکحل ہے وہ کٹ گئی جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں ایک خیمہ گاڑااور ان کا علاج کرنا شروع کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے ان کے زخم کو دو مرتبہ داغا،اسی حالت میں آپ ایک مرتبہ بنی قریظہ تشریف لے گئے اور وہاں یہودیوں کے بارے میں اپنا وہ فیصلہ سنایا جس کا ذکر ”غزوہ قریظہ” کے عنوان کے تحت آئے گااس کے بعد وہ اپنے خیمہ میں واپس تشریف لائے اور اب ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھا لیکن انہوں نے شوق شہادت میں خداوند تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ
یااﷲ!عزوجل تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے جنگ کرنے کی مجھے اتنی زیادہ تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے جنہوں نے تیرے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا،اے اﷲ!عزوجل میرا تویہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہوجب تومجھے تو زندہ رکھ تا کہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جہاد کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو میرے اس زخم کو تو پھاڑ دے اور اسی زخم میں تو مجھے موت عطا فرما دے۔
آپ کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیااور خون بہ کر مسجد نبوی کے اندر بنی غفار کے خیمہ میں پہنچ گیاان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو! یہ کیسا خون ہے جو تمہارے خیمہ سے بہ کر ہماری طرف آ رہا ہے؟ جب لوگوں نے
دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون بہ رہا تھااسی زخم میں ان کی وفات ہو گئی۔(1)(بخاری ج۲ ص۵۹۱ باب مرجع النبی من الاحزاب)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت سے عرش الٰہی ہل گیا اور ان کے جنازہ میں ستر ہزار ملائکہ حاضر ہوئے اور جب ان کی قبر کھودی گئی تو اس میں مشک کی خوشبو آنے لگی۔ (2)(زرقانی ج۲ ص۱۴۳)
عین وفات کے وقت حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے سرہانے تشریف فرما تھے،انہوں نے آنکھ کھول کر آخری بار جمال نبوت کا نظارہ کیا اور کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ۔پھر بہ آواز بلند یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں اور آپ نے تبلیغ رسالت کا حق ادا کر دیا۔(3)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۸۱)
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الخندق…الخ وباب غزوۃ بنی قریظۃ،
ج۳،ص۴۳،۸۹ ملتقطاً وملخصاً