Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

حضور اقدس ﷺ کا عدل

    خداعزوجل کے مقدس رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام جہان میں سب سے زیادہ امین سب سے بڑھ کرعادل اور پاک دامن وراست باز تھے۔ یہ وہ روشن حقیقت ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بڑے بڑے دشمنوں نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ چنانچہ اعلان نبوت سے قبل تمام اہل مکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ”صادق الوعد” اور ”امین” کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے۔ حضرت ربیع بن خثیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مکہ والوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اعلیٰ درجہ کے امین اور عادل ہیں اسی لئے اعلان نبوت سے پہلے اہل مکہ اپنے مقدمات اور جھگڑوں کا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فیصلہ کرایا کرتے تھے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام فیصلوں کو انتہائی احترام کے ساتھ بلا چون و چرا تسلیم کر لیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ امین کا فیصلہ ہے۔ (2)
                 (شفاء شریف جلد۱ ص۷۸،۷۹)
    حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کس قدر بلند مرتبہ عادل تھے اس بارے میں بخاری شریف کی ایک روایت سب سے بڑھ کر شاہد عدل ہے۔ قبیلہ قریش کے خاندان بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسلام میں چور کی یہ سزا ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ پہنچوں سے کاٹ ڈالا جائے۔ قبیلہ قریش کو اس واقعہ سے بڑی فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر ہمارے قبیلہ کی اس عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا تو یہ ہماری خاندانی شرافت پر ایسا بدنما داغ ہو گا جو کبھی مٹ نہ سکے گا اورہم لوگ تمام عرب کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہو جائیں گے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ بارگاہ رسالت میں کوئی زبردست سفارش پیش کر دی جائے تا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس عورت کا ہاتھ نہ کاٹیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو جو نگاہ نبوت میں انتہائی محبوب تھے دباؤ ڈال کر اس بات کے لئے آمادہ کر لیا کہ وہ دربار اقدس میں سفارش پیش کریں۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے اشراف قریش کے اصرار سے متأثر ہو کر بارگاہِ رسالت میں سفارش عرض کر دی یہ سن کر پیشانی نبوت پر جلال کے آثار نمودار ہوگئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہایت ہی غضب ناک لہجہ میں فرمایا کہ اَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللہِ کہ اے اسامہ! تو اﷲ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش کرتاہے؟ پھر اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور اس خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ یَااَ یُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا ضَلَّ مَنْ قَبْلَکُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَاِذَا سَرَقَ الضَّعِیْفُ فِیْھِمْ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَاَیْمُ اللہِ لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَّمَدٌ یَدَھَا (1)(بخاری جلد۲ ص۱۰۰۳ باب کراہیتہ الشفاعت فی الحدود)
اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس و جہ سے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے خدا کی قسم !اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا محمد اس کا ہاتھ کاٹ لے گا۔( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!