دشمن ہے گلے کا ہار آقا
دشمن ہے گلے کا ہار آقا
دشمن ہے گلے کا ہار آقا
لٹتی ہے مری بہار آقا
تم دل کے لیے قرار آقا
تم راحتِ جانِ زار آقا
تم عرش کے تاجدار مولی
تم فرش کے باوَقار آقا
دامن دامن ہوائے دامن
گلشن گلشن بہار آقا
بندے ہیں گنہگار بندے
آقا ہے کرم شعار آقا
اس شان کے ہم نے کیا کسی نے
دیکھے نہیں زِینہار آقا
بندوں کا اَلم نے دل دکھایا
اور ہوگئے بے قرار آقا
آرام سے سوئیں ہم کمینے
جاگا کریں باوَقار آقا
ایسا تو کہیں سنا نہ دیکھا
بندوں کا اُٹھائیں بار آقا
جن کی کوئی بات تک نہ پوچھے
ان پر تمھیں آئے پیار آقا
پاکیزہ دلوں کی زینتِ اِیماں
ایمان کے تم سنگار آقا
صدقہ جو بٹے کہیں سلاطیں
ہم بھی ہیں امیدوار آقا
چکرا گئی ناؤ بے کسوں کی
آنا مِرے غمگسار آقا
اللّٰہ نے تم کو دے دیا ہے
ہر چیز کا اختیار آقا
ہے خاک پہ نقشِ پا تمہارا
آئینۂ بے غبار آقا
عالم میں ہیں سب بنی کے ساتھی
بگڑی کے تمہیں ہو یار آقا
سرکار کے تاجدار بندے
سرکار ہیں تاجدار آقا
دے بھیک اگر جمالِ رنگیں
جنت ہو مرا مزار آقا
آنکھوں کے کھنڈر بھی اب بسا دو
دل کا تو ہوا وقار آقا
ایمان کی تاک میں ہے دشمن
آؤ دَمِ اِحتضار آقا
ہو شمعِ شبِ سیاہ بختاں
تیرا رُخِ نور بار آقا
تو رحمت بے حساب کو دیکھ
جرموں کا نہ لے شمار آقا
دیدار کی بھیک کب بٹے گی
منگتا ہے امیدوار آقا
بندوں کی ہنسی خوشی میں گزرے
اس غم میں ہوں اَشکبار آقا
آتی ہے مدد بلا سے پہلے
کرتے نہیں انتظار آقا
سایہ میں تمہارے دونوں عالم
تم سایۂ کردگار آقا
جب فوجِ اَلم کرے چڑھائی
ہو اَوجِ کرم حصار آقا
ہر مِلکِ خدا کے سچے مالک
ہر مُلک کے شہریار آقا
مانا کہ میں ہوں ذلیل بندہ
آقا تو ہے با وقار آقا
ٹوٹے ہوئے دل کو دو سہارا
اب غم کی نہیں سہار آقا
ملتی ہے تمہیں سے داد دل کی
سنتے ہو تمہیں پکار آقا
تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا
اللّٰہ کرے وقار آقا
اللّٰہ کے لاکھوں کارخانے
سب کا تمہیں اختیار آقا
کیا بات تمہارے نقش پا کی
ہے تاجِ سرِ وقار آقا
خود بھیک دو خود کہو بھلا ہو
اس دَین کے میں نثار آقا
وہ شکل ہے وہ ادا تمہاری
اللّٰہ کو آئے پیار آقا
جو مجھ سے مجھے چھپائے رکھے
وہ جلوہ کر آشکار آقا
جو کہتے ہیں بے زباں تمہارے
گونگوں کی سنو پکار آقا
وہ دیکھ لے کربلا میں جس نے
دیکھے نہ ہوں جاں نثار آقا
آرام سے شش جہت میں گزرے
غم دل سے نہ ہو دو چار آقا
ہو جانِ حسنؔ نثار تجھ پر
ہو جاؤں تِرے نثار آقا