رُسل اُنہیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں انہیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں
رُسل اُنہیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں
انہیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں
فرشتے آج جو دُھومیں مچانے آئے ہیں
انہیں کے آنے کی شادی رَچانے آئے ہیں
فلک کے حور و مَلک گیت گانے آئے ہیں
کہ دو جہاں میں یہ ڈَنکے بجانے آئے ہیں
یہ سیدھا راستہ حق کا بتانے آئے ہیں
یہ حق کے بندوں کو حق سے ملانے آئے ہیں
یہ بھولے بچھڑوں کو رَستے پہ لانے آئے ہیں
یہ بھولے بھٹکوں کو ہادی بنانے آئے ہیں
خدائے پاک کے جلوے دِکھانے آئے ہیں
دِلوں کو نور کے بقعے بنانے آئے ہیں
یہ قید و بندِ اَلم سے چھڑانے آئے ہیں
لو مژدہ ہو کہ رِہائی دِلانے آئے ہیں
چمک سے اپنی جہاں جگمگانے آئے ہیں
مہک سے اپنی یہ کوچے بسانے آئے ہیں
نسیم فیض سے غنچے کھلانے آئے ہیں
کرم کی اپنی بہاریں دکھانے آئے ہیں
یہی تو سوتے ہوؤں کو جگانے آئے ہیں
یہی تو روتے ہوؤں کو ہنسانے آئے ہیں
یہ کفر و شرک کی نیویں ہلانے آئے ہیں
یہ شرک و کفر کی تعمیریں ڈَھانے آئے ہیں
ہزار سال کی روشن شدہ بجھی آتش
یہ کفر و شرک کی آتش بجھانے آئے ہیں
سحر کو نور جو چمکا تو شام تک چمکا
بتادیا کہ جہاں جگمگانے آئے ہیں
انہیں خدا نے کیا اپنے مُلک کا مالک
انہیں کے قبضے میں رب کے خزانے آئے ہیں
جو چاہیں گے جسے چاہیں گے یہ اسے دیں گے
کریم ہیں یہ خزانے لٹانے آئے ہیں
جو گررہے تھے انہیں نائبوںنے تھام لیا
جو گرچکے ہیں یہ اُن کو اُٹھانے آئے ہیں
مسیح پاک نے اَجسامِ مردہ زندہ کیے
یہ جانِ جاں دِل و جاں کو جلانے آئے ہیں
بلاوا آپ کا اب تک دیا کئے نائب
اب آپ بندوں کو اپنے بلانے آئے ہیں
رؤف ایسے ہیں اور یہ رحیم ہیں اتنے
کہ گرتے پڑتوں کو سینے لگانے آئے ہیں
سنو گے’’ لا ‘‘ نہ زبانِ کریم سے نوریؔ
یہ فیض و جود کے دریا بہانے آئے ہیں