سنت پر عمل کا جذبہ (حکایت )
حضرتِ سیِّدُنا عبدا لوہّاب شَعرانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی نَقْل کرتے ہیں: ایک بار حضرت ِسیِّدنا ابو بکر شبلی بغدادیعلیہ رحمۃُ اللّٰہِ الہادی کو وُضو کے وَقت مِسواک کی
ضَرورت ہوئی، تلاش کی مگر نہ ملی،لہٰذا ایک دِینار (یعنی ایک سونے کی اشرفی) میں مِسواک خرید کر استعمال فرمائی۔ بعض لوگوں نے کہا : یہ تو آپ نے بَہُت زیادہ خرچ کر ڈالا! کہیں اتنی مہنگی بھی مِسواک لی جاتی ہے؟ فرمایا :بیشک یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مچھّر کے پرکے برابر بھی حیثیَّت نہیں رکھتیں،اگر بروزِ قِیامت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے یہ پوچھ لیا کہ تو نے میرے پیارے حبیب کی سنّت (مِسواک) کیوں تَرْک کی؟ جو مال و دولت میں نے تجھے دیاتھااُس کی حقیقت تو(میرے نزدیک) مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں تھی ،تو آخر ایسی حقیر دولت اِس عظیم سنّت ( مِسواک) کو حاصل کرنے پر کیوں خرچ نہیں کی؟تو میں کیا جواب دوں گا ! (مُلَخَّص ازلواقح الانوارالقدسیۃ، ص۸۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ ہمارے اَسلاف سُنتوں سے کِس قَدر پیار کرتے تھے! حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر شبلی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے ایک دِینار (یعنی سونے کی اشرفی) پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سُنت مِسواک پر قُربان کردیا اورایک ہم ہیں کہ عشقِ رسول کا دعویٰ توکرتے ہیں مگر سنّتوں پر عمل کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا ۔ہمارے اَسلاف رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام تو پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتوں کے ایسے پابند تھے کہ ان کے نزدیک کسی سنّت کا انجانے میں رہ جانا بھی قابلِ کَفَّارہ تھا چنانچہ
سنّت کے قدردان(حکایت )
شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علاّمہ مولانا
ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری رَضَوی دَامَت بَرَکَاتُہُمُ العَالِیَہ اپنی مایہ ناز تالیف فیضانِ سُنّت جلد اوّل میں فرماتے ہیں: ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں ہے، ایک بزرگ نے ایک بار سنّت کے مطابق سیدھی جوتی سے پہننے کا آغاز کرنے کے بجائے بے خیالی میں الٹی جوتی پہلے پہن لی اس سنت کے رہ جانے پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور اس کے عوض انہوں نے گیہوں کی دو بوریاں خیرات کیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ انہیں حضرات کا حصہ تھا۔ کاش! ہمیں بھی اپنے بزرگوں کے طریقوں پر چلنا نصیب ہوجائے۔ (فیضانِ سنّت ، ص ۴۶۲)