صدقۂ فطرکے فضائل
صدقۂ فطرکے فضائل
حمد ِباری تعالیٰ:
سب خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جواطاعت گزاروں کوپورا پورا اجروثواب عطافرماتاہے،اوررات کی تاریکیوں کو پیدا فرماتاہے جنہیں صبح کی روشنی ختم کردیتی ہے،اس کاعلم چوری چھپے کی نگاہوں اور سینوں میں پوشیدہ باتوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ انسانوں کووہ سکھاتا ہے جووہ نہیں جانتے، اس بات سے بلندتراورپاک ہے کہ نفس کے خیالات اورغوروفکرکے اندیشے اس کا ادراک کریں،سب کورزق تقسیم کرتا ہے یہاں تک کہ بِل میں چیونٹی کو،گھونسلے میں پرندے کے بچے کوبھی نہیں بھولتا، وہ اس سے بالا تر ہے کہ گردشِ زمانہ کی وجہ سے پیداہونے والے حوادثات اس تک پہنچ سکیں،اوروہ اس چیزسے پاک ہے کہ انتہائی پوشیدہ اور ظاہر باتیں اس پرمخفی رہیں، اس کے احسانات سروں کے تاج اورسینوں کے ہارہیں۔ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتاہے:
ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:وہی ہے کہ تمہیں خشکی اورتری میں چلاتاہے۔(پ11، یونس:22)
اللہ عَزَّوَجَلَّ جنگلات میں ریت کے ذروں اوربے آب وگیاہ ویران جنگلوں میں چیونٹیوں کی تعداد جانتاہے ،وہ ایمان و کفرکی تقدیرکو جیسے چاہتا ہے جاری فرماتا ہے، اپنے ارادے سے غنی کوفقیراورفقیرکوغنی کرتاہے،اپنی مشیئت سے بولنے والے کو قوتِ گویائی سے محروم کرتاہے، سننے کی قوت کوزائل کرتااورعطا کرتاہے، وہ ایسادیکھنے والاہے کہ خشکی میں رینگنے والا چھوٹا بڑا کوئی بھی کیڑا اس سے پوشیدہ نہیں،وہ ایساسننے والاہے کہ کسی مجبورکی دل میں مانگی ہوئی دعابھی اس سے پوشیدہ نہیں،وہ قادرِ مطلق ہے کہ کسی معاوِن ومددگار کی اُسے حاجت نہیں جواس کی مددکرے، وہ جیسے چاہتاہے بندوں کی تقدیر بناتا ہے،سہولت وصعوبت کے ذرائع جیسے چاہتاہے لوگوں میں تقسیم فرماتاہے، اپنی سلطنت کے سمندروں میں بھی رزق پہنچاتاہے اور اگر نہ چاہے تونہ پہنچائے، اس نے حصولِ رزق کی طرف معتدل بیان اور صحیح وضاحت کے ساتھ ہماری رہنمائی فرمائی، روزوں اورصبر کے مہینے کے ساتھ ساری امتوں میں ہمیں خاص فرمایا، اس مہینے کی برکت سے گنہگاروں کے گناہوں کو اس طرح دھو دیاجیسے بارش کے پانی سے کپڑے دُھل جاتے ہیں۔
تمام خوبیوں کا مالک وہی ہے جس نے ہمیں یہ مبارک مہینہ پورا کرنے کی توفیق اورعیدالفطر کی نعمت عطا فرمائی، میں اس کی بے انتہاء حمد کرتا ہوں اوراس کاشکر بجا لاتاہوں جس کی مددپانے والے بے حدوبے شمارہیں،میں اس پرایسابھروسہ کرتاہوں جیسا غلام اپنے آقا پر کرتاہے،اپنے اِعتقاد میں مخلص شخص کی طرح گواہی دیتاہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ،وہ یکتا ہے ،اس کاکوئی شریک نہیں ،اور گواہی دیتاہوں کہ حضرت سیِّدُنامحمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اس کے خاص بندے اور
رسول ہیں۔ جنہوں نے اپنے مقدّس ہاتھ کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری فرما دیئے،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی آل، اولاد، صحابۂ کرام،ازواج مطہرات علیہم الرضوان اوران کی اِتباع کرنے والے ہر امتی پر اس وقت تک رحمتِ کاملہ نازل ہوتی رہے جب باپ بیٹے سے بھاگ رہاہوگا،اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم پر خوب سلام ہو جو زمانے کے ختم ہونے سے ختم نہ ہوبلکہ ہرنئے زمانے میں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم پر نیا سلام ہو۔
حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضورنبئ کریم ، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی حیاتِ ظاہری میں ایک صاع کھانا یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور صدقۂ فطر نکالتے تھے۔” (جامع الترمذی ،ابواب الزکاۃ ، باب ماجاء فی صدقۃ الفطر، الحدیث ۶۷۳، ص۱۷۱۳)
حضرت سیِّدُناعمرو بن شعیب رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے اوروہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌ عَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے مکہ کی شاہراہوں پرایک اعلان کرنے والا بھیجا (اس نے اعلان کیا) ” سن لو! بے شک صدقۂ فطر دو مُد گندم یاایک صاع کھانا ہر مسلمان مردو عورت ،آزادو غلام ،چھوٹے بڑے پر واجب ہے۔” (المرجع السابق، الحدیث۶۷۴)
حضرت سیِّدُنا اِبنِ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ہرمرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجو ریا ایک صاع جَو صدقۂ فطر واجب فرمایا۔
(صحیح البخاری، ابواب صدقۃ الفطر، باب صدقۃ الفطر علی الحر والمملوک،الحدیث۱۵۱۱،ص۱۱۹)