مسلمان اور عربی زبان
( از : حافظ عبد الطیف ، پیش امام ، چکمگلور )
( ایڈیٹر کو نامہ نگاروں کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ، تحصیل علم ضروری ہے ، کسی زبان میں کیوں نہ ہو۔ ’ ادارہ ‘ )
انا انزلناہ قراٰناً عربیاً لعلکم تعقلون ۔ ( سورئہ یوسف)
( تحقیق ہم نے اتارا اس کو قرآن عربی زبان میں تاکہ تم سمجھو)
دنیا میں تقریباً چار ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں ، بعضوں نے زبانوں کو بھی مراتب دیئے اور ان کی اہمیت کو حسب مراتب تسلیم کیا اور بعض زبانو ں کو بعض پر فوقیت دی اور بعض کا سیکھنا لازمی قرار دیا گیا ،
چنانچہ آج کل کے سیاسی زمروں میں ’ زبان ‘ بھی ایک اہم زیر بحث مسئلہ رہا اور بلحاظ اہمیت ملکی زبان ، دفتری زبان ، صابائی زبان ، تجارتی زبان ، مقامی زبان ، تانوی زبان ، لازمی زبان ، مرکزی زبان، وغیرہ مختلف پہلو اختیار کئے ،
اور زمانہ دراز سے چند کے متعلق بحثیں اور حجتیں ہورہی ہیں ، لیکن آج تک کسی ملک میں کوئی واحد زبان عام زبان قرار نہ پاسکی ۔
ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی کافی تعداد بستی ہے اور انہوں نے بھی مندرجہ بالا زیر بحث مسائل پر غور و خوض کیا اور اپنی اپنی دنیوی ضرورتوں کے مطابق بعض بعض زبانوں کو بعض پر اہمیت
دیتے ہوئے نہایت شوق و ذوق مختلف زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کی مثل مشہور ہے ، ’’ الناس علی دین ملوکھم ‘‘ یعنی لوگ اہنے حاکم کے دین پر ہوتے ہیں ، چنانچہ جب ملک پر جب افغانوں اور مغلوں کا تسلط رہا تو لوگ اپنے حاکموں کی زبان یعنی فارسی سے محبت کرنے لگے اور اس زبان کو تمام زبانوں سے اہم سمجھا، چونکہ ان حاکموں کا دور حکومت ہندوستان پر صدیوں رہا ان کی زبان کا اثر بھی دیر پا رہا ، مذکورہ دور اور موجودہ دور کے درمیان تقریباً دو صدی کا وقفہ ہونے کے باوجود کسی فارسی الفاظ سرکاری دفاتر اور عوام کی زبان ابھی تک رائج ہیں ، اور ان کا استعمال باعث فخر سمجھا جاتا ہے ، مسلمانوں میں نماز کے بعد کی چند دعائیں آج بھی فارسی میں کہی جاتی ہیں اور بعض ادیب و مقررین دوران گفتگو و تقریر میں گلستاں ، بوستاں وغیرہ کے اشعار و محاورات استعمال کر کے اپنے آپ کو نہایت لائق و فائق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
مغلوں کے دور حکومت کے بعد ہندوستان پر جب یوروپیو ں کا اقتدار بڑھا تو عوام کو انگریزی زبان اور انگریزی تہذیب سے وابستگی ہوگئی ، اور انگریزی دفتری زبان تسلیم کیا ، اور انگریزی تعلیم یافتہ کو اعلیٰ درجہ کا مذہب سمجھنے لگے ، اور اکثر مسلمان جنٹل مین بھی یوں فخریہ کہنے لگے کہ مجھے اردو ی اعربی بہت کم آتی ہے ، جب انگریزوں کا اقتدار بھی ہندوستان سے اٹھ گیا تو پھر تہذیب و تمدن نے پلٹا کھایا اور زبان بھی ایک اہم زیر بحث موضوع ہے ، بعضوں نے ہندی کو اہمیت دی کیونکہ یہ مرکزی زبان ہے ، بعضوں نے اردو کی تبلیغ پر کمر باندھا کیوں کہ یہ تمام زبانوں کا معجون ہے ، بعضوں نے اپنی اپنی صوبائی زبان کو اور بعضوں نے اپنی مادری زبان کو دوسری زبانوں پر ترجیح دی اور سب اپنی اپنی زبان کو مرکزی زبان بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔
لیکن افسوس کہ ان مرکزی زبان ، صوبائی زبان ، قومی زبان ، مداری زبان وغیرہ کے پرستاروں کو آج تک یہ خیال تک نہ پیدا ہوا کہ ایک ایسی زبان بھی ہے جس کو ہمارے پیارے دین اور پیارے مذہب سے گہرا تعلق ہے ، یعنی یہ وہ زبان ہے جس پر ہماری آخرت منحصر ہے ، اور جس پر ہمارے تمدن تہذیب اور سیاست کی بنیاد قائم ہے ۔
Post Views: 621