Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
مسائل و فضائل

موت اورزیارتِ قبوروغیرہ کابیان

موت اورزیارتِ قبوروغیرہ کابیان

حمد ِ باری تعالیٰ:

سب خوبیا ں اس ذا ت کے لئے ہیں جوحمد کی مستحق ہے، اپنی کبریائی میں واحد ہے ،اس کا نہ کوئی ہم پلہ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی حد ہے،بلند ہے، قوی ہے، مددگار ہے، حمید ہے، غنی ہے، غنی کرنے والا ہے، پیدا کرنے اور لوٹانے والاہے، ایسا عطا کرنے وا لاہے جس کی عطا کبھی فنا اور ختم ہونے والی نہیں، ایسا روکنے والا ہے کہ جس سے وہ روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور اپنے ارادے میں کسی کا محتاج نہیں، مخلوق کو پیدا کرکے اَحْسَن طریقے سے راہِ راست پر چلانے والا ہے اور اس نے مخلوق کی صورتوں کو اچھا بنایا اور ان کو جنت میں نعمتوں اور ہمیشہ رہنے کی خوشخبری دی اورعبرت والی آنکھوں سے نوازا اور عذابِ نار اور وعید سے ڈرایا اور شکر کو لازم کیااور اس نے ان کے لئے اپنے مزید فضل کے خزانے کا ذمہ لیا اور ان پر موت کو مسلط کیا پس کوئی بھی اس سے برئ الذمہ نہیں، کتنے ہی لوگوں کوموت نے اپنے دوستوں کی جدائی میں رُلایا؟ کتنوں کو نومولود چھوڑا اور ان سب کو گریہ و زاری میں مشغول کردیا، حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی کو غمزدہ پیدا کیا،نہ غمزدہ لوٹائے گا۔ موت کے سبب مضبوط عمارتیں بربادہو گئیں اور موت نے فنا کے سبب اس گھر کے رہنے والوں پر حکومت کی اور روحوں کے پرندے اپنے گھونسلوں سے اُڑ گئے اور ان کی عیشِ زندگی کو تنگی میں بدل دیا تو اب بے آب وگیاہ زمین میں بادشاہوں، غلاموں، غنیوں اور محتاجوں کی قبریں ایک جیسی ہیں۔
پاک ہے وہ ذات! جس نے موت کے ذریعے مغروروں میں سے ہر ایک کو مسلسل ذلیل کیا اور موت کے ذریعے بڑے بڑے بہادر بادشاہوں کو شکست دی اور ان کو وسیع محلات سے اٹھاکر اندھیری قبروں میں پہنچادیااور ان کی لمبی لمبی امیدوں کو کاٹ کر رکھ دیا، موت نے ان کے آباؤاجداد کو پکڑ لیا۔ اور بچوں کو جھولوں سے اُٹھا کر قبروں کو ان کاگھر بنادیا اور چہروں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا، موت چھوٹے بڑے، امیر فقیر، حاکم محکوم اور باپ اولاد سب کے لئے برابر ہے اور اس نے مردوں عورتوں سب کو فناکردیا اور اب قیامت تک ان کی یادباقی ہے۔
کیا غافل انسان ان کی ہلاکت وبربادی سے عبرت حاصل نہیں کریگا؟ حالانکہ موت نے ان سب کو فنا اور ان کی جمعیت کو تِتَّرْ بِتَّرْ کر دیا۔ انسان کیسے دھوکے میں رہتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ عزَّوَجَلَّ ظالم کو مہلت دیتا ہے مگرجب وہ گرفت فرماتا ہے توکوئی اس سے نہیں بچاسکتا۔ کیا لوگ یہ بات نہیں جانتے ؟اور ان کی جانیں موت سے محفوظ نہیں۔ (جیساکہ فرمانِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہے:)

وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ؕ اِنَّ اَخْذَہٗۤ اَلِیۡمٌ شَدِیۡدٌ ﴿102﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور ایسی ہی پکڑ ہے تیر ے رب کی جب بستیوں کو پکڑتاہے ان کے ظلم پربے شک اس کی پکڑدردناک کرّی(سخت)ہے ۔ (پ۱۲،ھود:۱0۲)

کہاں ہيں شہروں اور مضبوط قلعوں والے؟ کہاں ہیں معانی اور فنون والے؟کہاں ہیں وہ مضبوط قلعے جن کے رہنے والے مضبوط تھے؟ کہاں ہیں سابقہ امتیں؟ کہاں ہیں اونچے اُونچے محلات میں رہنے والے؟ اُن پرموت کا وعدہ سچ ہوا پس اگر تو ان کی قبروں کوبغور دیکھے تو ضرور ان کے انجام سے تعجب کریگا کہ ابھی ان کے احوال بوسیدہ نہ ہوئے تھے کہ قبر نے ان کے جوڑ جوڑ کو بکھیر کررکھ دیااور اب حالت یہ ہے کہ نہ ان میں سے آزاد پہچانے جاتے ہیں، نہ غلام۔ بہرحال وہ اُنسِیَّت اور قرب حاصل کرنے کے بعد قبر کی تاریکی میں بدحال پڑے ہیں۔ حالانکہ موت خوش رہنے والوں، بدنصیبوں، قریب اور دور والوں کو پکڑ کر انہیں نصیحت کرتی رہی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان سے خبردار کرتی رہی: وَ جَآءَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنْہُ تَحِیۡدُ ﴿۱۹﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور آئی موت کی سختی حق کے ساتھ یہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔ (پ۲۶،قۤ:۱۹)
امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمربن خطا ب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم دس آدمی سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عث ِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہوئے، ایک انصاری نے عرض کی: ”یارسول اللہ عزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلَّم ! لوگوں میں سب سے عقلمند کون ہے؟” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا اور اس کے لئے سب سے اچھی تیاری کرنے والا، یہی لوگ عقلمند ہیں جو دُنیا کی بھلائی اورآخرت کی عزت لے گئے۔”

(مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا،الحدیث۳،ص۵۔۶۔رواہ ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما۔سنن ابن ماجۃ،ابوابالزھد،باب ذکر الموت والا ستعداد لہ ، الحدیث ۴۲۵۹ ، ص ۲۷۳۵ ۔رواہ ابن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما)

( صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعا ، باب من احب لقاء اللہ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث ۲۶۸۴ ، ص ۱۱۴۵)

حضرتِ سیِّدُنا اَنس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضورنبی پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ حق بیان ہے: ”تم میں سے کوئی کسی ایسی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے جو اُس پر اُتری۔” مزید ارشاد

فرمایا: ”اگر تمنا کرنا ہی ہے تو یوں کہے: ”اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مَاکَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِّیْ وَتَوَفَّنِیْ مَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِّیْ یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! جب تک زندگی میرے لئے بہتر ہو مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لئے بہتر ہو تو مجھے موت عطا فرما دے۔”(آمین)

(المرجع السابق، باب کراھۃ تمنی الموت ۔۔۔۔۔۔ نزل بہ، الحدیث۸0 ۲۶، ص ۱۱۴۵)

میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائی!زیا دہ سے زیا دہ عملِ صالح کر، اور اس موت کے پیالے سے ڈر جس کو توضرور چکھنے والا ہے، اور ایسی عیش وعشرت کو ترک کردے جس سے تو لازمی طور پرجد اہونے والا ہے، اے موت کو بھولنے والے! موت نے تو بڑے بڑے پہلوانوں کو پَچھاڑ دیا ہے، اِن سے عبرت حاصل کر جو تجھ سے پہلے موت کا جام پی چکے ہیں۔

؎ ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے نام ور بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ”میت اپنی قبر میں ایسے ہے جیسے غرق ہونے والا مددکا طالب، وہ اپنے بیٹے، بھا ئی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظرہوتی ہے۔ جب اُسے دعا پہنچتی ہے تو وہ اُسے دُنیا ومافیہا (یعنی دنیا اورجو کچھ اس میں ہے)سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔”

(شعب الایمان للبیھقی،باب فی الصلاۃ علی من مات ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۹۲۹۵، ج۷،ص۱۶،بدون”ابنہ”)

نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جب میت کو قبر میں رکھا جا تا ہے تو قبر کہتی ہے: ”اے ابن آدم! تیرے لئے خرابی ہے، تجھے کس چیزنے مجھ سے دھوکے میں رکھا؟ کیا تجھے علم نہ تھا کہ میں ازمائش کا گھر ہوں؟ تاریکی، تنہائی اور کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، جب تو میرے پاس سے گزرتا تھا تو کس چیز نے تجھے میرے متعلق فریب میں مبتلا رکھا؟” اگر مردہ نیک ہو تو ایک جواب دینے والا اس کی طرف سے جواب دیتا ہے: ”کیا تو دیکھتی نہیں کہ یہ بھلا ئی کا حکم دیتا اور برائی سے منع کرتا تھا۔” تو قبر کہتی ہے: ”تب تومیں اس کی خاطر سرسبز وشاداب باغ بن جاتی ہوں، اس کاجسم نور بن جاتا ہے اور اس کی روح اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتی ہے۔”

(المعجم الکبیر، الحدیث۹۴۲،ج۲۲،ص۳۷۷)

حضرتِ سیِّدُنا اسما عیل بن محمدعلیہ رحمۃاللہ الصمد حضرتِ سیِّدُنا کعبُ الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اَکرم، نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ غیب نشان ہے: جب کوئی شخص قبرستان سے گزرتا ہے تو قبر والے اس کو پکار کر کہتے ہیں: ”اے غافل انسان! اگر تُو وہ جانتا جو ہم جانتے ہیں تو تیر ا گوشت اور جسم یوں پگھل جا تا جیسے برف آگ پرپگھلتی ہے۔”
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ ذیشان ہے: ”جو قبر

کی زیارت کرنا چاہے اسے چاہے کہ اس کی زیارت کرے، لیکن وہاں اچھی بات کے علاوہ کچھ نہ کہے، کیونکہ میت کو بھی ان چیزوں سے اذِیَّت ہوتی ہے جن سے زندہ کو اذیت ہوتی ہے۔”

(السنن الکبرٰی للنسائی،کتاب الجنائز،باب زیارۃ القبور،الحدیث۲۱۶0،ج۱،ص۶۵۴مختصر)

حضرتِ سیِّدُنا ابن عبا س رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے مروی ہے کہ ”کوئی بھی شخص جب اپنے کسی جاننے والے مؤمن بھا ئی کی قبر پر سے گزرتا ہے اور اسے سلا م کرتا ہے تو وہ اُسے پہچا نتا اور سلا م کا جواب دیتا ہے۔”

(تفسیر ابن کثیر، سورۃ الروم،تحت الآیۃ۵۲،ج۶،ص۲۹۱)

خلیفہ سلیما ن بن عبدالملک نے حضرتِ سیِّدُنا ابوحازم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا: ”اے ابوحازم! ہم موت کو کیوں ناپسند کرتے ہیں؟” توآپ نے ارشادفرمایا:”اس لئے کہ تم نے دنیا کو آباداور آخرت کوبربادکر دیاہے ،اور تم آبادی سے بربادی کی طرف منتقل ہونے کوناپسند کر تے ہو۔”پھرپوچھنے لگا: ”اے ابوحازم! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے حا ضری کیسے ہو گی؟” توآپ نے ارشاد فرمایا: ”اے امیرالمؤمنین! نیک آدمی گمشدہ شخص کی طرح ہے جو اپنے گھروالوں کے پاس خوشی خوشی آتا ہے اور گنہگار شخص بھاگے ہوئے غلام کی طرح ہے جواپنے آقا کے پاس خوف زدہ اور غمزَدہ آتاہے۔”
حضرتِ سیِّدُنا ابوسلیمان دارانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرما تے ہیں کہ میں نے عبادت گزار خاتون اُمِّ ہارون رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا سے پوچھا: ”کیا آپ مرنا پسندکرتی ہیں؟”توانہوں نے فرمایا: ”نہیں۔” میں نے پوچھا: ”وہ کیوں؟” تو کہنے لگیں: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر میں مخلوق کی نافرمانی کروں تواس سے ملنا پسند نہیں کرتی تو خالق عَزَّوَجَلَّ (کی نافرمانی کرکے اُس) سے ملنا کیسے پسند کروں گی۔”

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!