کپڑوں کی قیمت صدقہ کردی :
کپڑوں کی قیمت صدقہ کردی :
حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہرشبہ والی چیز سے مکمل اجتناب فرماتے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شریک ِ تجارت حضرت سیِّدُناحفص بن عبدالرحمن علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناامام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے ساتھ تجارت کرتے تھے اور مجھے مالِ تجارت بھیجتے ہوئے فرمایاکرتے: ”اے حفص! فلاں کپڑے میں کچھ عیب ہے۔ جب تم اسے فروخت کروتو عیب بیان کر دینا۔ حضرت سیِّدُناحفص نے ایک مرتبہ مالِ تجارت فروخت کیااور بیچتے ہوئے عیب بتانابھول گئے۔ جب امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام کپڑوں کی قیمت صدقہ کر دی ۔ (المرجع السابق،ص۳۵۶)
حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تقویٰ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک بکری چوری ہو گئی تو اندازاً جتنا عرصہ وہ بکری زندہ رہ سکتی تھی اس مُدَّت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی بکری کا گوشت نہ کھایا۔
منقول ہے کہ خلیفۂ وقت (ابو جعفر منصور)نے حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت سیِّدُنا ابن ابی ذئب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی طرف کچھ مال بھیجا تو حضرت سیِّدُناابن ابی ذئب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:”میں خلیفہ کے لئے اس مال پر راضی نہیں تو اپنے لئے کیسے راضی ہوجاؤں؟”اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”اگر مجھے مار ا جائے کہ ان میں سے ایک درہم کو صرف ہاتھ لگا دو پھر بھی مَیں اسے نہ چھوؤں گا۔”
(مناقب الامام الاعظم للامام البزازی الکردری ، الفصل الخامس، جمع المنصور مالکاوابن ابی ذئب والامام ومقالتھم لہ،ج۲، ص۱۶)
منقول ہے کہ خلیفۂ وقت نے حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوا کر دریافت کیا: ”اے ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! آزاد مرد کے لئے کتنی آزاد عورتیں حلال ہیں؟”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،”چار ۔” تو خلیفہ نے اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہو کر کہا:” اے آزاد عورت ! میری بات سن۔”تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً ارشاد فرمایا:”اے خلیفۃ المسلمین! مگر آپ کے لئے صرف ایک حلال ہے۔”تو خلیفہ نے غضبناک ہوکر کہا: ”ابھی تو آپ نے کہاتھا کہ چار حلال ہیں۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اے خلیفۃ المسلمین! اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(3) فَانْکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً
ترجمۂ کنز الایمان :تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چارچار پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو۔(پ4،النسآء:3)
جب میں نے آپ کو اپنی بیوی سے یہ کہتے سنا:” اے آزاد عورت ! میری بات سن۔”تو میں نے جان لیا کہ آپ عدل نہیں
کریں گے۔ لہٰذا میں نے کہہ دیاکہ آپ کے لئے صرف ایک حلال ہے۔”جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے رخصت ہوئے تو خلیفہ کی زوجہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ہزار درہم بھجوائے اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاشکریہ ادا کیا اور تعریف بھی کی لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درہم قبول نہ کئے اور واپس بھیج دیئے اور ساتھ ہی کہلا بھیجاکہ میں نے یہ بات تجھے خوش کرنے کے لئے نہیں کی تھی بلکہ رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے کی تھی پس اس کاثواب بھی اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔
حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خشیَّتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے پیکر اور کثرت سے صدقہ کرنے والے تھے۔
حضرت سیِّدُناخطیب بغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی نقل فرماتے ہیں کہ ”اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اہل و عیال پر کچھ خرچ کرتے تو اسی قدر صدقہ بھی کر دیتے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اسی قیمت کا کپڑا علماء کو بھی خرید کر دیتے اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جب کھانا لگایا جاتا تو جتنا خود کھاتے اتنا ہی چھوڑ دیتے پھر وہ کھانا کسی فقیرکو کھلا دیتے یا گھر میں کسی کو ضرورت ہوتی تو اسے کھلا دیتے۔ رضائے ربُّ الانام عَزَّوَجَلَّ کو ہر چیز پر ترجیح دیتے اور حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے معاملے میں اگرتلوار کا وار بھی کیا جاتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ برداشت کر لیتے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ یہ دو اشعار پڑھا کرتے تھے:
عَطَاءُ ذِی الْعَرْشِ خَیْرٌ مِنْ عَطَائِکُمُوْ وَفَضْلُہٗ وَاسِعٌ یُرْجیٰ وَیُنْتَظَر
تَکْدُرُوْنَ الْعَطَا مِنْکُمْ بِمِنَّتِکُمْوْ وَاللہُ یُعْطِیْ فَلاَ مَنَّ وَلَا کَدَر
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔عرش کے مالک کی عطا تمہاری عطا سے بہتر ہے۔ اور اس کا فضل وکرم وسیع ہے جس کی اُمید اور انتظار کیا جاتا ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔تم اپنی عطا کو احسان جتلانے سے ملا دیتے ہو جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ احسان جتلائے اور گدلا کئے بغیر عطا فرماتا ہے۔
حضرت سیِّدُنامحمد بن حسین لیثی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کوفہ آیا اور اہلِ کوفہ سے وہاں کے سب سے بڑے عابد کے متعلق دریافت کیاتو مجھے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بتایا گیا۔پھر میں دوبارہ بڑھاپے میں یہاں آیا اور سب سے بڑے فقیہہ کے بارے میں پوچھا تو مجھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی نام بتایا گیا۔”
(تاریخ بغداد، الرقم۷۲۹۷، النعمان بن ثابت ابوحنیفۃ التیمی،ما ذکر من عبادۃ ابی حنیفۃ وورعہ، ج۱۳، ص۳۵۱۔ ۳۵۶۔ ۳۵۷، بتغیرٍ)
مشہور زاہد ومُتَّقی حضرت سیِّدُنامسعربن کدام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجتماعِ پاک میں حاضر ہواتو میں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نمازِ فجر میں پایا پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازِ ظہر تک محفلِ علم میں تشریف فرما رہے، نمازِ ظہر پڑھ کر عصر تک محفل جاری رہی، نمازِ عصر پڑھ لی تو مغرب تک بیٹھے رہے، نمازِ مغرب کے بعد عشاء تک پھر بیٹھ گئے۔ میں نے دل میں کہا کہ اس شخص کی مصروفیت یہ ہے تو عبادت کے لئے کب فارغ ہوتاہوگا، آج رات میں ضرور دیکھ بھال کروں گا۔ چنانچہ، میں نے نگرانی شروع کر دی۔ جب سب لوگ رُخصت ہوگئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں تشریف لے گئے اور طلوعِ فجر
تک نماز ادا کرتے رہے پھر گھر تشریف لائے ۔کپڑے پہن کر مسجد کی طرف چل دیئے۔ دوسرے دن اور رات بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہی معمول رہا۔ میں نے تہیَّہ کر لیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت میں ہی رہوں گا یہاں تک کہ میں مر جاؤں یاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو جائے۔” حضرت سیِّدُنا ابن ابی معاذ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت سیِّدُنامسعر رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مسجد میں حالتِ سجدہ میں ہوا۔ (المرجع السابق،ج۱۳، ص۳۵۴)
حضرت سیِّدُناقاسم بن معن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی:” بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْہٰی وَ اَمَرُّ ﴿۴۶﴾ ترجمۂ کنز الایمان:بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور قیامت نہایت کڑی اور سخت کڑوی ۔”(پ۲۷،القمر:۴۶) اور طلوعِ فجر تک یہی آیتِ طیبہ دُہراتے رہے اورگریہ وزاری کرتے رہے ۔
(سیر اعلام النبلاء، الرقم۹۹۴، ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت، ج۶، ص۵۳۵۔ تاریخ بغداد، الرقم۷۲۹۷، ما ذکر من عبادۃ ابی حنیفۃ۔۔۔۔۔۔الخ، ج۱۳، ص۳۵۲۔ ۳۵۶)
حضرت سیِّدُناحفص بن عبدالرحمن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیس سال تک ساری رات ایک رکعت میں قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے رہے۔ حضرت سیِّدُنا اسد بن عمرو رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِفجرپڑھی۔ رات کے وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آہ وبُکا کی اتنی شدیدآواز سنائی دیتی کہ پڑوسیوں کو آپ پر ترس آ جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ جس جگہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی اس مقام پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھ ہزار مرتبہ قرآنِ کریم ختم کیا۔ حضرت سیِّدُناابن ابی زائد علیہ رحمۃاللہ الواحد فرماتے ہیں کہ میں نے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نمازِ عشاء ادا کی۔ نماز کے بعد لوگ چلے گئے اور میں مسجد میں ہی ٹھہر گیا۔ میرا ارادہ تھاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک مسئلہ دریافت کروں گالیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد میں میری موجودگی کا علم نہ ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کر دی او ر اس آیتِ کریمہ پر پہنچے فَمَنَّ اللہُ عَلَیۡنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾ ترجمۂ کنز الایمان :تواللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں لُو کے عذاب سے بچا لیا۔” (پ۲۷، الطور: ۲۷)تو طلوعِ فجر تک اِسے دُہراتے رہے۔ منقول ہے کہ ایک رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں کسی قاریئ قرآن کویہ آیتِ مبارکہ تلاوت کرتے ہوئے سنا، اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا ۙ﴿۱﴾ ترجمۂ کنز الایمان :جب زمین تھر تھرا دی جائے جیسااس کا تھرتھرانا ٹھہرا ہے ۔”(پ۳0،الزلزال:۱) تو شدَّتِ خوف سے فجر تک اپنی داڑھی مبارک ہاتھ میں پکڑے یہی کہتے رہے: ” ہمیں ذرہ بھر گناہ کی بھی سزا دی جائے گی ۔”
(تاریخ بغداد، ص۳۵۲تا۳۵۵، بتغیرٍقلیلٍ)