کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں ہمیشہ نقش رہے رُوئے یار آنکھوں میں
کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے رُوئے یار آنکھوں میں
نہ کیسے یہ گل و غنچے ہوں خوار آنکھوں میں
بسے ہوئے ہیں مَدینے کے خار آنکھوں میں
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
ہوا ہے جلوہ نما گل عذار آنکھوں میں
خزاں کے دَور میں پھولی بہار آنکھوں میں
سرور و نور ہو دل میں بہار آنکھوں میں
جو خواب میں کبھی آئے نگار آنکھوں میں
وہ نور دے مرے پروردَگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں
نظر ہو قدموں پر ان کے نثار آنکھوں میں
بنائیں اپنا ہوں وہ رہ گزار آنکھوں میں
نہ اک نگاہ ہی صدقہ ہو دل بھی قرباں ہو
کرم کرے تو وہ ناقہ سوار آنکھوں میں
بصر کے ساتھ بصیرت بھی خوب روشن ہو
لگاؤں خاکِ قدم بار بار آنکھوں میں
تمہارے قدموں پہ موتی نثار ہونے کو
ہیں بے شمار مری اَشکبار آنکھوں میں
نظر نہ آیا قرارِ دِلِ حزیں اب تک
نگاہ رہتی ہے یوں بے قرار آنکھوں میں
انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مَدینے کے خار آنکھوں میں
عجب نہیں کہ لکھا لوح کا نظر آئے
جو نقشِ پا کا لگاؤں غبار آنکھوں میں
ملے جو خاکِ قدم ان کی مجھ کو قسمت سے
لگاؤں سرمہ نہ پھر زِینہار آنکھوں میں
مَدینہ جانِ چمن اور خزاں سے اَیمن ہے
لگائے خاک وہاں کی ہزار آنکھوں میں
کھلے ہیں دِیدئہ عشاق خوابِ مرگ میں بھی
کہ اس نگار کا ہے اِنتظار آنکھوں میں
خزاں کا دَور ہوا دُور وہ جہاں آئے
ہوئی ہے قدموںسے ان کے بہار آنکھوں میں
یہ اِشتیاق تری دِید کا ہے جانِ جہاں
دَم آگیا ہے دَمِ اِحتضار آنکھوں میں
یہ آسمان کے تارے یہ نرگس شہلا
ترا ہی جلوہ ہے ان بے شمار آنکھوں میں
یہ دَم ہمارا کوئی دَم کا اَور مہماں ہے
کرم سے لیجئے دَم بھر قرار آنکھوں میں
وہ سبز سبز نظر آرہا ہے گنبد سبز
قرار آگیا یوں بے قرار آنکھوں میں
بہارِ دنیا ہے فانی نظر نہ کر اس پر
ہے کوئی دَم کی یہ ساری بہار آنکھوں میں
یہ گل یہ غنچے یہ گلشن کے بیل اور بوٹے
انہیں کے دَم کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
یہ حالِ زَار ہے فرقت میں تیرے مُضطَر کا
کہ اَشک آتے ہیں بے اختیار آنکھوں میں
وہی مجھے نظر آئیں جدھر نگاہ کروں
انہیں کا جلوہ رہے آشکار آنکھوں میں
یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھوں میں نہ آجائے
کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں
نہ ایسے پھول کھلے ہیں کبھی نہ آگے کھلیں
بہاروں میں ہے عرب کی بہار آنکھوں میں
قریب ہے رَگِ گردن سے پر جدا ہے وہ
نہ یار دِل میں مکیں ہے نہ یار آنکھوں میں
یہ قرب اور یہ دُوری خدا کی قدرت ہے
کہ ہوگا خلد میں دیدارِ یار آنکھوں میں
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصوّر نے
کہ آج کھینچ دی تصویر یار آنکھوں میں
فرشتو پوچھتے ہو مجھ سے کس کی اُمت ہو
لو دیکھ لو یہ ہے تصویر یار آنکھوں میں
نہ صرف آنکھیں ہی روشن ہوں دِل بھی بینا ہو
اگر وہ آئیں کبھی ایک بار آنکھوں میں
ہزار آنکھیں ہیں تاروں کی اِک گل مہتاب
یہ ایک پھول ہے جیسے ہزار آنکھوں میں
یوں ہی ہیں ماہِ رِسالت بھی سب نبیوں میں
کرور آنکھوں نہیں بے شمار آنکھوں میں
یہ کیا سوال ہے مجھ سے کہ کس کا بندہ ہے
میں جس کا بندہ ہوں ہے نور بار آنکھوں میں
ہے آشکار نظر میں جہاں کی نیرنگی
جما ہے نقشۂ لیل و نہار آنکھوں میں
جما ہوا ہے تصور میں روضۂ والا
بسے ہوئے ہیں وہ لیل و نہار آنکھوں میں
نہار چہرئہ والا تو گیسو ہیں وَ اللَّیْل
بہم ہوئے ہیں یہ لیل و نہار آنکھوں میں
پیا ہے جامِ محبت جو آپ نے نوریؔ
ہمیشہ اس کا رہے گا خمار آنکھوں میں