Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
مسائل و فضائل

گناہوں کی نحوست

گناہوں کی نحوست:

حضرتِ سیِّدُنا منصور بن عما ر علیہ رحمۃاللہ الغفار ارشاد فرماتے ہیں:” میراایک دینی بھا ئی تھاجوکہ میرا بہت معتقد تھا۔ وہ ہردُکھ سُکھ میں مجھ سے ملاقات کرتا۔ میں اس کو انتہائی عبادت گزار، تہجدگزار، اور گریہ وزاری کرنے والا سمجھتا تھا۔ میں نے کچھ دنوں تک اسے نہ پایا اور مجھے بتایا گیاکہ وہ تو بے حد کمزور ہو گیا ہے۔ میں نے اس کے گھر کے متعلق دریافت کرکے اس کے دروازے پر دَسْتک دی تو اس کی بیٹی آئی اور پوچھا: ”کس سے ملناچاہتے ہیں؟” میں نے کہا: ”فلاں سے۔” وہ میرے آنے کی اجازت طلب کرنے اندر گئی، پھر لوٹ کرآئی اور کہنے لگی: ”آپ اندر آجائيں۔” میں نے داخل ہوکردیکھا کہ وہ گھر کے وسط میں بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ چہرہ سیاہ، آنکھیں نیلی اورہونٹ موٹے ہو چکے ہیں۔ میں نے اسے ڈرتے ڈرتے کہا: ”اے میرے بھائی! لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کی کثرت کرو۔” اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور بڑی مشکل سے میری طرف دیکھا، پھر اس پر غشی طاری ہو گئی۔ میں نے دوسری مرتبہ یہی تلقین کی تو اس نے مجھے بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا لیکن دوبارہ اس پر غشی طاری ہو گئی۔
جب میں نے تیسری مر تبہ کلمہ پڑھنے کی تلقین کی اور کہا کہ ”اگر تو نے یہ کلمہ نہ پڑھا تو میں تجھے غسل دوں گا، نہ کفن اور نہ ہی تیرا نمازِ جنازہ پڑھوں گا۔”یہ سن کر اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہنے لگا: ”اے میرے بھا ئی! اے منصور! اس کلمہ کے اور میرے درمیا ن رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے۔” میں نے کہا: ”لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم” کہاں گئیں وہ نمازیں، وہ روزے، تہجد اور راتوں کا قیام؟” تواس نے مجھے حسرت سے بتایا: ”اے میرے بھا ئی! یہ سب اللہ عزَّوَجَلَّ کی رضاکے لئے نہیں تھے، بلکہ میں یہ عبادتیں اس لئے کیا کرتا تھاتاکہ لوگ مجھے نمازی، روزے دار، اور تہجدگزار کہیں اور میں لوگوں کو دکھانے کے لئے ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلّ کیا کرتا تھا۔ جب میں تنہائی میں ہوتا تو دروازہ بند کر لیتا، برہنہ ہو کر شراب پیتا،اور نافرمانیوں سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا مقابلہ کرتا۔ ایک عرصہ تک میں اسی طرح کرتا رہا پھر ایسابیمار ہوا کہ بچنے کی امید نہ رہی، میں نے اپنی اسی بیٹی سے کہا کہ قرآنِ پاک لے کر آؤ، اس نے ایسا ہی کیا، میں مصحف شریف کے ایک ایک حرف کو پڑھتا رہا یہاں تک کہ جب سورۂ یٰس تک پہنچا تو مصحف شریف کو بلند کرکے بارگاہ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: ”اے اللہ عزَّوَجَلَّ! اس قرآنِ عظیم کے صدقے مجھے شفا عطا فرما، میں آئندہ گناہ نہیں کروں گا۔” اللہ عزَّوَجَلَّ نے مجھ سے بیماری کودورکر دیا۔ جب میں شفا یا ب ہوا،تو دوبارہ لہو ولعب اور لذات و خواہشات میں پڑ گیا۔ شیطان لعین نے مجھے وہ عہد بھلا دیا جو میرے رب عَزَّوَجَلَّ کے اور میرے درمیان ہواتھا ، عرصۂ دراز تک گناہ کرتا رہا،پھر اچانک اسی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس میں میں نے موت کے سائے دیکھے تو گھر والوں سے کہا کہ مجھے میری عادت کے مطابق وسط ِمکا ن میں نکال دیں۔ میں نے مصحف شریف منگوا کر پڑھااور بلند کرکے عرض کی: ”یااللہ عزَّوَجَلَّ!
اس کی عظمت کا واسطہ جو اس مصحف شریف میں ہے، مجھے اس مرض سے نجات عطا فرما۔”
اللہ عزَّوَجَلَّ نے میری دعاقبول فرمائی اور دوبارہ اس بیماری سے مجھے شفا عطافرمادی۔ لیکن میں پھر اسی طرح نفسانی خواہشات اور نافرمانیوں میں پڑگیا یہا ں تک کہ اب اس مرض میں مبتلا یہاں پڑاہوں، میں نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ اس دفعہ بھی مجھے وسط ِ مکان میں نکال دو جیسا کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب میں مصحف شریف منگوا کر پڑھنے لگا توایک حرف بھی نہ پڑھ سکا۔ میں سمجھ گیا کہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مجھ پر سخت ناراض ہے، میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر عرض کی: ”یااللہ عزَّوَجَلَّ! اس مصحف شریف کی عظمت کا صدقہ! مجھ سے اس مرض کو زائل فرمادے ۔” تو میں نے ہاتف ِ غیبی کی آواز سنی مگر اُسے دیکھ نہ سکا۔ یہ آواز اشعار کی صورت میں تھی، جن کا مفہوم یہ ہے:
”جب توبیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے اور جب تندرست ہوتا ہے تو پھر گناہ کرنے لگ جاتا ہے۔ توجب تک تکلیف میں مبتلا رہتا ہے توروتارہتا ہے اور جب قوت حاصل کر لیتا ہے تو بُرے کام کرنے لگتا ہے۔ کتنی ہی مصیبتوں اور آزمائشوں میں تو مبتلا ہوا مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے ان سب سے نجات عطا فرمائی۔ اس کے منع کرنے اور روکنے کے باوجود تو گناہوں میں مستغرق رہا اور عرصۂ دراز تک اس سے غافل رہا۔ کیا تجھے موت کا خوف نہ تھا؟ تو عقل اور سمجھ رکھنے کے باوجود گناہوں پر ڈٹا رہا۔ اورتجھ پر جو اللہ عزَّوَجَلَّ کا فضل وکرم تھا، توُ نے اسے بھلا دیا اورکبھی بھی تجھ پر نہ کپکپی طاری ہوئی، نہ ہی خوف لاحق ہوا۔ کتنی مرتبہ تو نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ عہد کیا لیکن پھر توڑ دیا، بلکہ ہر بھلی اور اچھی بات کو تو بھول چکا ہے۔ اس جہانِ فانی سے منتقل ہونے سے پہلے پہلے جان لے کہ تمہارا ٹھکانہ قبر ہے، جو ہر لمحہ تجھے موت کی آمد کی خبر سنا رہی ہے۔”
حضرتِ سیِّدُنا منصور بن عما ر علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں: ”اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! میں اس سے اس حال میں جدا ہوا کہ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اورابھی گھر کے دروازے تک بھی نہ پہنچا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ وہ شخص انتقا ل کر چکا ہے۔ ہم اللہ عزَّوَجَلَّ سے حُسنِ خا تمہ کی دعا کرتے ہیں کیونکہ بہت سے روزے دار اور راتوں کو قیام کرنے والے برے خاتمے سے دوچار ہو گئے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!