Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

الشہاب الثاقب رجوماََ الشیاطین

ازاعلیٰ حضرت آقائے نعمت پیرسیدمقبول احمدشاہ قادر ی سہروردی علیہ الرحمہ

الشہاب الثاقب رجوماََ الشیاطین

ترجمہ : یہ ہے شعلہ روشن بدمذہب سرکش منکرین پرپتھر برسانے والا
فِیْہِ رِجَال یُحِبّون ان یتطہروواللہ یحب المطہرین ط
اس ضمیر کا مرجع مسجید ہے ۔ (ترجمہ اس مسجد قبی میں ایسے اللہ کے کاس بندے رہتے ہیں جو پاکی کو دوست رکھتے ہیں ۔اللہ پاک زیادہ پاکی کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں ۔یہ آیتہ کریمہ مدنیہــــ ہے ۔ کتب اسول و تفاسیر میں ہے ۔جب مزکور بالا آیتہ کریمہ نازل ہوئی ۔حضرت نبی کریم اہل ِقبا انصاروں کو جمع کیا ۔ااور فرمایا ۔اللہ پاک تمہاری پاکی کی تعریف فرماتے ہیں ۔بتلاؤ تم کس طرح پاکی کرتے ہو۔اانصاروں نے عرض کیا ،یا رسول اللہ،جب ہم پائخانہاور پیشاب کو جاتے توہیں ۔پہلے پتھر کے ٹکڑوں سے پاکی کرتے ہیں ۔پھرپا نی کے ساتھ پاکی کرتے ہیں ۔نبی کریم نے فرما یا یہ طریقہ بہت ہی عمدہ اور اچھا ہے ۔ اسی پر قائم رہو ۔سبحان اللہ کیا کوش نصیب ہیں وہ مسلمان مرد اور وہ مسلمان عورت جویہ دونوں پاکی کرتے ہیں۔اللہ پاک ان کی تعریف میں فرماتاہے۔ اللہ پاک ان سے راضی ہے۔اللہ پاک ان کو دوست رکھتاہے۔اوریہ تمام کفاراورمشرکین کے خلاف کرتے ہیں،کیابدنصیب و ہ مسلمان مرد اوروہ مسلمان عورت جویہ دونوں پاکی نہیں کرتے۔ یاان دونوں پاکیوں میں سے ایک ہی پاکی کرتے ہیں۔اللہ پاک ان کی تعریف نہیں فرماتا،نہ ان سے راضی ہے نہ ان کودوست رکھتاہے،اوریہ تمام کفاراورمشرک اوراھرکے ہنودپائخانہ پھرنے کے بعدپانی کے ساتھ ہی پاکی کرتے ہیں۔ احکام شرعی میں عورتیں مردوں کے تابع ہیں۔تاوقت یہ کہ کوئی دلیل تخصیص کے قائل نہ ہوجائے۔چنانچہ صحیحین ،ابوداؤدوترمذی میں ہے۔

حضرت ام سلیم نے عرض کیا یارسول اللہﷺ اللہ پاک حق سے حیا کرتانہیں۔کیاعورت کوغسل لازم ہے اگراس نے احتلام دیکھا۔نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا۔ہاں اورفرمایا۔اِنَ النِّسَاءَشقائق الرجال۔یعنی  عورتیں مردوں کے جوڑاورٹکڑے ہیں۔ جوحکم مردکوہے وہی حکم عورت کابھی ہے۔یعنی اگرعورت نے احتلام دیکا پھر اپنے کپڑوں پریابدن پر تری دیکھی تواس پر غسل فرض ہے۔ ورنہ غسل فرض نہیں۔  یہی حکم مرد کا بھی ہے مزکورا بالا آیتہ کریمہ میں صیغہ مطھِــــــّر صیغہ مبالغہ ہے ۔یہ چاہتا ہے ۔زیادہ پاکی کو۔زیادہ پاکی تب ہی متصور ہو سکتی ہے ، جبکہ دو طریق سے پاکی ہو ۔ اوـــل پتھر یا ڈھیلوں سے ہو۔ پھر پانی سے ورنہ زیادہ پاکی نا ممکن ہے ۔ مثلاََ اگرکسی کا ہاتھ ان ہا،نا پاک ہو تھوں کی پاکی شر عاََ نہ بڑھ جائیگی ۔اس پاکی سے جو تین مرتبہ دھونے سے حاصل ہوگئ ۔ اور عقل سلیم بھی یہی چاہتی، کہ انسان اپنے ہاتھوں کو نجاست سےآلود ہ نہ کرے ، اور بلا استعمال پتھر اور ڈھیلے کے صرف پانی کے ساتھ استنجا کرنے میں پہلے ہاتھ نجاست سے الودہ ہو جاتے ہیں ۔ جو شرعاََ اور عقلاََ نا جائز ہے ۔
اللہ عزّوجل نے حضرت نبی کریم ﷺ کو پہلے حکم دیا ۔اے بر گزیدہ نبی بﷺ اپنے کپڑوں کو پاک رکھ لیجئے اور پلید ی سے پرہیز کیجئے ۔”رجز ، سے مراد بت ہی نہیں بلکہ بت مراد لینا عقل سے بعید ہے ۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کو اللہ پاک نے بتوں کی پلیدی سے پاک اور منزّہ رکھا ہے ۔ اور ہمیشہ بتوں سے کنارہ کش اور علٰیحدہ تھے ۔ جو ذات مقدس ان تمام چیزوں سے منزّہ اور علٰیحدہ ہے اور اسکو پھر علیٰحدہ ہونے کا حکم دینا تحصیل حاصل جو عقلاََ محال ہے ۔بخلاف نجاست یہ ہر انسان کے ساتھ بحیثیت اس کے مرتبہ کے نجاست ہے ۔گو بحیثیت دیگر کے اورکچھ ہو مگر جب تک یہ نجاست اپنے محل اور معدن میں ہے۔ اس کو
نجاست کا حکم نہیں دیا جاتا ۔ جب اپنے محل سے نکلب گئی ، تو اس کو نجاست کا حکم دیا جاتا ہے ۔ ابن ماجہ شریف کی حدیث مذکوربالا کے خلاف نہیں ، وہ یو ں کہ جب مذکورآیتہ کریم نازل ہوئی نبی کریم ﷺنے انصاروں فرمایا ،تم کیوں کر پاکی کرتے ہو ۔اللہ پاک تمہاری پاکی کی تعریف فرماتے ہیں ۔انساروں نے جواب دیا ۔ہم نماز کے لئے وضو کرتے ہیں ۔ جنابت کے لئے غسل کرتے ہیں، اورپانی کے ساتھ استنجا کرتے ہیں ۔ اس حدیث شریف میں پتھر کے ٹکڑوں سےاستبجا کرنے کی نفی نہیں ۔ بلکہ پاک کرنے کے جز و اعظم کا ذکر ہے ۔ جو ان تینوں پاکیوں کے لئے مفید ہے ۔یہاں پر بھی استنجا پتھر کے ساتھ مقد م جانناضروری ہے ۔جیسے انہوں نےارض کیا ، کہ جنابت کے لئے ہم غسل کرتے ہیں ۔حالانکہ غسل کے لئے پہلے وضو کرنا ضروری ہے۔مگر انہوں نے وضو کا ذکر نہیں کیا ۔ یہاں پر بھی وضو مقدم جاننا ضروری ہے،اور عدم ذکر عدم وجود لازم نہیں ، اور نبی کریم ﷺ کو اللہ پاکنے مکّہ معظہ ہی میں فرمایا تھا۔ کہ پلیدی سے پرہیز کیجئے ۔ مذکور بالا قصہ ہجرت کے بعد کا ہے ، اور استنجا کرنا پانی سے بلا استعمال مَجرو مَدر کے ہاتھ پہلے نجاست سے آ لود ہ ہو جاتے ہیں ۔ نجاست سے بچنا محال ہے ۔ یہ نص قرانی کے خلاف ہے ۔ علاوہ اس کے یہ تینوں پاکی مخصوص بہ اسلام ہیں۔ پانچ وقت کی نمازوں کے لئے وضو کرنا ۔ جنابت کے لئے غسل کرنا ،کسی ملّت و مذہب میں نہیں،سوائے اسلام کے پتھر اور ڈھیلےسے پاکی کرنا پھر پآنی سے پاکی کرنا، یہ بھی مخصوص بہ اسلام ہے اسی واسطے     اللہ پاک نے انصا روں کی تعریف فرمائی ورنہ پائخانہ پھر نے کے بعد اسلامسے پہلے بھی کفار پانی سے پاکی کرتے تھے ، اور اب بھی کفّا ر صرف پانی سے پاکی کرتے ہیں ۔یہ طریقہ قابل تعریف نہیں ، بلکہ مذکور با؛لا طریقہ قابل تعریف ہے ۔ متفق علیہ کی حدیث ان دونوں پاکیوں پر دال ہے ۔ یعنی امام بخاریؒاور امام مسلم ؒ ان دونوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ حضرت انس ـ فرماتے ہیں جب نبی کریم ﷺ خلا جانے کے لئے ارادہ فرماتے تھے ، میں اور ایک غلام پانی کا لوٹا اور ایک برچھی ساتھ لیجاتے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ پانی کے ساتھ استنجا فرماتے تھے۔ برچھی اس لئےلیجاتے تھے۔ تاکہ اس سے کوئی پتھر کا ٹکڑا یا ڈھیلا زمین سے نکالیں۔ پھر نبی کریم ﷺ پہلے اس سے استنجا فرماتے تھے ، پھر پانی سے ، ورنہ برچھی قضائے حاجت کے لئے لیجانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا ۔ مجھ کو امر کیا ، کہ تین پتھر کے ٹکڑے لاؤ مجھ کو دو ٹکڑے ملے تیسرا ڈھونڈا تو نہ ملا۔ پھر میں نے ایک سوکھا لِید کا ٹکڑا پایا۔ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس لے آیا ۔ نبی کریم ﷺ نے یہ پتھر کےدو ٹکڑوںکو لے لیا ۔ اس لید کے ٹکڑے کو پھینک دیا اور فرمایا “ھٰذا رِکسُ،،یہ نجس ہے اور امام بیہقی نے اس حدیث کو روایت کیا ۔ کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نےبیشک میں تمہارے لئے باپ کی طرح ہوں۔ جیسا مہربان باپ اپنی اولاد کو ہر ایک اچھی با ت سکھاتا ہے۔ خواہ دینی ہو یا دنیوی اسی طرح نبی کریمﷺفداہ روحی وروحِابی وامی نے ہر ایک بات کی تعلیم اپنی امّت کے لئے فرمائی ۔ ارشاد ہوتا ،جب تم میں سے پائخانہ پشاب کو جائے ، تو پھر قبلہ کی طرف منہ نہ کرے نہ پیٹھ اور استنجا کرے تین پتھر کے ٹکڑوں سے ۔ استنجا لغت میں ‘’’ازالۃنجو،، کہتے ہیں یعنے شکم سے جو نجاست ان دو راستوں سے خارج ہوئی ہو اس نجاست کو دور کرنے کا نام استنجا ہے،حضرت نبی کریم ﷺ نے ان دو نجا ستوں کوپتھر کے ٹکڑوں سے دور کرنے کا حکم دیا ہے ،پیشاب کو نہیں۔ اس کو لازم ہے اس مدعا پر کوئی حدیث پیش کرے ۔اور یہ بھی بتلائے کہنبی کریم ﷺ یا ص حابہ اسجگہ سے کیونکر اُٹھتے تھے ۔ اگر بلا استعمال پتھر اور ڈھیلے کے اٹھتے تھے،تو کپڑے پیشاب سے آلودہ ہو جاتے ہونگے ۔یہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اگر یہ استعمال پپپتھر وڈھیلے کے اٹھتے تھے تو مدعا ثابت ہوا ۔ بہرصورت مسائل کو تسلیم کرنا پڑےگا نبی کریم ﷺ نے دونوں نجاستوں کوپتھر کے ٹکڑوں سے دور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اسی حدیث کو امام ابو د اؤد۔امام ترمزی ۔ امام نسائی۔ امام ابن ماجہ ۔ امام ابن ۓحبان نے روایت کیا ہے ، ان سبھوںنے اس پر اتفاق کیا۔

حضرت نبی کریم ﷺ ‘”کَانَ یَا مَرُوا بِ ثَلا ثِ اَحجَارِِ یعنے نبی کریم ﷺ ہمیشقہ تین پتھروں کے ٹکڑوں سے استنجا کرنے کے لئے ، امر فرماتے تھے بعض کے نزدیک جب  کَانَ داخل ہو فعل مضارع
پر دوام استمرار کا فائدہ کرتا ہے ۔ اسی حدیث سے سنی شافعی کے نزدیک طاق ڈھیلےاور پتھروں سےاستنجا کرنا سنّت ہے ۔ سنّی حنفیوںکے نزدیک مخرج سے نجاست کو اچھی طرح پاک کرنا ۔طاق کوئی شرط نہیں مگر مگر طاق کا لحاظ کرنا بہتر ہے ۔ عرب میں پتھروں کی کثرت ہے ۔اس لئے پتھروں کے ساتھ پاکی کرنے کا حکم ہوا ۔ ڈھیلا پاک کرنے میں زیادہ مفید ہے ۔بہ نسبت پتھروں کے لھٰذا ڈھیلے کے ساتھ پاکی کرنا زیادہ بہتر ہے ۔مذکورہ بالا “حدیث” میں صرف پترھر کے ساتھ پاکی کرنے کا ذکرہے ۔ظاہر ہے کہپتھر نجاست کو مخرج اسے چھی طرح زائل نہیں کرتا ۔ کچھ ضرور باقی رہتی ہے ۔ اللہ پاک نبی کریم ﷺ کو پہلے حکم دے چکے تھے ، کہ پلیدی سے پرہیز کیجئے ۔ نبی کریم ﷺ یا صحابہ قلیل نجاست ہمراہ لیکر ہر گز نی رہ سکتے تھے ۔ کیونکہ یہ نص قرآنی کے خلاف ہے ضرور نبی کریم ﷺ اور صحابہ بعد استعمال پتھر کےپانی کے ساتھ پاکی کرتے تھے ۔ گو امام بہیقی کے اس روایت میں مذکور نہیں ۔ آور اللہ پاک زیادہ پاکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ یا صحابہ اس کے خلاف نہیں کرتے تھے ۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ پیشاب سے فارغ ہوتے ہی پانی سے پپپپاکی کی یہ ایک دال کا واقعہ ہے ۔ یہ تخصیص کا احتمال رکھتا ہے ،اور مخصوص بہ رسول ﷺ ہے ۔ یہ کسی عذر پپر مبنی ہے ۔ یہ سبب تخصیص کے حجت کے قابل نہیں ۔ اگر اس کو تاویل نہ کیا جائے ، تو نص قرآنی اور نبی کلریم ﷺ کے قول اور فعل کے خلاف ہے۔ اور یہ حدیث ۔ حدیث استبراءکے خلاف بھی ہے۔ جو آگے اتا ہے ۔ یا ضرور اس میں کوئی طعن باطنی موجود ہے۔ لہٰذا یہ حدیث دلیل نہیں بن سکتی ، پیشاب یا پا ئخانے کے وقت قبلہ کی طرف پیٹ یا پیٹھ کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔ ہمیشہ اسی طرح بیتھنے والاسخت مجرم  گناہ گار و فاسق ہے ۔ اس کی شہادت مقبول نہیں۔ گھروں میں جو عورتیں بچوں کو قبلہ کی طرف منہ کرکیے بٹھاتے  ہیں۔ ان بچوں کے ماں باپ گنہگارہوجاتےہیں۔لڑکے غٰرملف معصوم ہیں۔ہاں لڑکیوں کوسونا ،چاندی ریشم وغیر ہ یہ سب جائز ہیں۔اگرکوئی مرد سونے کی انگھوٹی ہاتھ میں ڈال کر یا سونے کی گھڑیال ہاتھ میں باندھ کر یا ریشم کے کپڑے پہن کر نمازپڑہیگا ۔ سخت مجرم گنہ گار فاسق ہوگا ۔ اِ س یہ یہ نماز مکروہ تحریمہ ہے۔ جس کا وہ دوبارہ  پڑھنا واجب ہے اگر کسی نے شیر وانی یا کوٹ میں سونے کی گھڑیال لٹکائی یہ جائز ہے ، بشرط یکہ سنکل اس کی سونے اورچاندی کی نہ ہو/۔کیونکہ مقصود بلذات شیروانی پہننا ہے ۔ یہ اس کے تابع ہے ۔ اصل کو اوتبار ہے ۔ تابع کو نہیں ،بخلاف ہاتھ کی انگوٹھیوغیرہ ، اس کا استعمال بالذات ہے۔لہٰذا ناجائز ہے ۔عورتوں کو ان سب چیزوں میں نماز جائز ہے ۔ ان کو یہ سب جائز ہے اگر کسی کپڑے میں تانا ریشم بانا غیر ریشم اس کپڑے کا استعمال مردوں کو جائز ہے ، اگر انگوٹھی کا حلقہ چاندی ہو، نگینہ سونا ہو یا سونے کی گھڑیال کسی جائز چیز میں رکھ کر ہاتھ کو باندھ لیں تو یہ دونوں جائز ہیں۔
بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ تشریف لے جارہے تھے ، دو قبروں کو دیکھا اور فرمایا کہ ان دونوں قبروں کی میت بہت عذاب میں مبتلا ہے اور فرمیا ان دونوں نے کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ یعنی لوگ ان کاموں کو معمولی کام سمجھتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ ایک چغلخور تھا ، دوسرا پیشاب سے نہیں بچتا تھا ۔
نبی کریم ﷺ نے ایک کھجور کی شاخ توڑی ۔ اس شاخ کے دو حصے کر کے ان دونوں قبروں پر گاڑدی اور فرمایا کہ جب تک یہ شاخ تازہ رہے گی ان میتوں کو تخفیف عذاب ہوگا ۔ اسی حدیث پر علماء کے یہ مسائل مبنی ہیں ، قبر کے پاس سبز تازہ درخت لگانا اور قبر کوئی سبز تازہ چیز رکھنا خصوصاََ پھول وغیرہ خشو دار چیزیں رکھنا ۔ (اور ان کی تسبیح تحلیل سے میت کا دل بہلتا رہتا ہے، اسی واسطے منع آیا کہ قبروں پر سے ہرا گھاس نہ کاٹیں )مستحسن اوربہتر ہے جب تک یہ چیز تازہ رہینگے ،صاحب قبرکے واسطےاللہ پاک سے طلب مغفرت کرتےرہینگے اورخوشبو کو فرشتے اور روحیں پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے کفن کو معطر بناتےہیں ،اور مسجدوں کو معطر رکھتے ہیں ۔ بدبودار چیزوں سے روح اورفرشتےنفر ت کرتےہیںلہٰذا قبرستان میں پائخانہ پیشاب کرنا حراہے۔فرمایا نبی کریم ﷺ نے جو چیز زندہ کو تکلیف دیتی ہے وہی چیز مردہ کو تکلیف دیتی ہے،اور فرمایا نبی کریم ﷺنے قبر پر بیٹھنے سے آگ پر بیٹھنا اچھا ہے ۔کیونکہ صاحب قبر کو تکلیٖف ہوتی ہے ۔
مسلمانوں کو لازم ہے کہ قبرستانوں کی حفاظت کریں،

حیوانوں اور جانورں کو اندر آ نے سے روک دیں۔کیونکہ یہ حیوان قبروں پرگزرنے سے مردوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔مردے ہماری باتوںکو سنتے ہیںخوشبھی ہوتے ہیں  غمگن بھی ہوتے ۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے، کہ حضرت ِ عائشہ صدیقہفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک رات ہمارے حجرئہ خاص میں رونق افروز تھے ۔ آخر رات میں مَیں نے آپ کو وہاںنہیں پایا۔ پھر مَیں بقیع کی طرف گئی ، وہاں نبی کریم ﷺ میتوں کو مخاطب کرکے یوں ارشاد فرماتے تھے۔

اے ہمیشہ کے گھروں کے رہنے والوں مسلمانوں ۔
پیشاب انسان کا ہو یا حیوان کا چھوٹھے کا ہو یا بڑے کا  نجاستِ غلیظہ ہو یا نجاستِ خفیفہ سب سے پرہیز کرنا ضروری  اور وجب ہے۔ خصوصاََ مرد اپنے قضیب سے اچھی طرح پیشاب کے قطرے خارج کرے ۔
پھر کہتا ہوں؛
یہ حدیث استبراء کے حدیث کےخلاف ہے۔استبراء کرنا واجب ہوا ۔ ترکِعاجب ھرام ہے ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ترکِاستبراء جائز مبا ح ہے۔جب مباح اور حرام میں تعرض ہوجائے تو حرام کو ترجیح ہے۔ اور استبرا کی حدیث قولی ہے ۔ اور یہ حدیث فعلی ہے ، قول کو ترجیح ہے فعل پر ،کیونکہ یہ ایک وقت کا واقعہ ہے یہ یہ کسی عزر پر موقوف ہیں ۔ بلا عذر اسکو دلیل بنانا ناجائز ہے۔ترک استبراء کےلئے وعید شدید وارد ہے ۔لہذاترک استبراء  کی حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ۔اور میں وابیوں کو مشورہ دیتا ہوں ، اس حدیث پر عمل کریں جو مذکور بالا حدیث سے آسان ہے۔وہ یہ ہے، ابن ماجہ شریف میں ہے اَتیٰ بسا طتَ قومِِ قبالَ قائماََ
ان کے ہاتھ پہلے ناجاست سے آلود ہو جاتے ہیں ۔ان کے لئے سکت عذابِ قبر ہوگا ۔یہ لوگ ہیشاب کے بعد بلا استبراء پانی کے ساتھ استنجا کرتے ہیں۔ وضو کے درمیان یا وضو کے بعد اصلی قضب پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے پیشاب کے قطرے خارج ہوجاتے ہیں ۔ ان کی اِزار ناپاک اور وضو فاسد ہو جاتا ہے ۔ اب یہ بلا وضو نماز پڑھتے ہیں۔ علماء کے نزدیک بلا وضو نماز پڑھنے والا کافر ہے ۔سب علما ءکے نزدیک اشد مجرم گنہگار فاسق ہے ۔ جس نے ان کے پیچھے نماز ڑھی ہو یا پڑھ رہا ہو اس کو ان تمام نمازوں کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے۔ کیوںنکہ امام کی نماز فاسد ہونے کے سبب سے مقدی لکی نماز بھی فاسد ہو جاتی ہے۔ مگر ادھر کے وہابی بے قصور ہیں ۔ بہ سبب بے علمی کے قصور اس کا ہے جس نے ان کو گمراہ کیا۔ بعض لوگوں نے چند تقریریں شکم پروری کے لئے یاد کر رکھی ہیں۔ لوگوں کو تقریریں سناتے رہتے ہیں ۔ اور تقریر کے درمیان مسائل شرعی بھی بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس بے علم مقرر کو مسائل شرعی بیان کرنا جائز نہیں۔ تاوقتیکہ ان مسائل کو تحقیق کے ساتھ پڑھا نہ ہو ۔ یا کسی مستند عالم سے یاد کیا نہ ہو۔
مشہور قصہ ہے کہ کو فہ میں ایک آدمی لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا تھا ۔حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا آپ نے اس کو پو چھا کہ تم حلال و حرام سےاور ناسخ و منسو خ سے واقف ہو۔ عرض کیا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایاکہ لوگوں کو امر بالمعروف نہی عن ا لمنکرنہ کیا کرو۔  مبادا کہیں حلال کو حراماور حرام کو حلال نا سخ کو منسوخ ، منسوخ کو ناسخ نا جائز کو جا ئز اور جائز کو نا جائزکہہ بیٹھوگے ۔ لوگ تمہاری باتوں پر عمل کریںگے ۔ تو گمراہ ہو جائیںگے۔تم پہلے ان تمام باتوں کو سیکھو۔پھر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو ۔ حضر ت نبی کریمﷺکا ارشاد ہےکہ آخری زمانے میں علم و دین اٹھ جائےگا ۔ جاہل عالم دین بن بیٹھیں گے ۔ فَقَد ضَلُّو یعنی یہ جاہل علم دین سے بے خبر مسائل شرعی بیان کرنے والے مقرر اور سننے والے دونوںگمراہ ہوجائیں گے ۔ کیونکہ یہ جاہل بیان کرنے والاجو کچھ کہے گا اپنے طرف سے ہوگا ۔ یہ سب قرآن و حدیث کے خلاف ہوگا۔ سننے والے کم علم اس پر عمل کریںگے تو دونوں گمراہ ہو جائیںگے۔ یہی وجہ ہے کہ وہابیہ نے بے علم مقررین کی تقریر پر عمل کیا۔ اور اپنے ایمان و عمل دونوں ضائع کیا۔  اسی حدیث سے معلوم ہوا کہ علم دین سے بے خبر لوگوں کی تقریر سننا حرام ہے۔ کیونکہ یہ علم دین سے بے خبر بیان کرنے والا اپنی زبان سے کوئی ایساکلمہ نکالیگا جو کفر ہوگا۔ مگر یہ جانتا نہیں کہ کفر ہے یہ سبب بے علمی کے سامعین خاموشی کے ساتھ سنتے ہیں ۔ دونوں اس گناہ کبیرہ میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ لہٰذاعلم دین سے بے خبر لو گوں کی تقریریں سننے سے پر ہیز کرنا واجب ہے ۔آج کل ایسے مقریرین جو عِلم
دین  سے نا بلد ہیں لوگوں کوتقریریں سناتے رہتے ہیں ۔ ایسے لو گورام ہے ۔ اس فرقے میں سے اگر کوئی شد ھ بدھ سے واقف ہو ۔ اس کو وضو کرتے دیکھو وہ اپنے وضو سے فارغ ہو جا ئے تو اپنی اِزار پر پانی چھڑکے گا ۔تو اس وقت جان لو کہ اسکا1 پیشاب کا قطرہ نکل گیا۔اسکا وضو فاسد ہوا ایسے وضو ہی نماز پڑھےگا۔ حدیث شریف میں آیا ۔وہمی بیمار کو دفع وہم کےلئے وضو سے فارغ ہو کر اپنی اِزار پر پانی چھڑک دے تاکہاس تری کو پانی تری سمجھ کر نماز میں اتمینان ہو۔ ورنہ پیشاب نکلنے سے وضو جاتا رہےگا۔ اب پانی چھڑکنے سے ہر گز فائدہ نہ ہوگا ۔جیسے سونے کے ساتھ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
فرمایا نبی کریم ﷺنے وضو کرنا واجب نہیںہوتا مگر اس شخص کو جو کروٹ سوجائے کروٹ پر سونے سے مفاصل ڈھیلے ہو جاتے ہیں ۔فرمایا نبی کریم ﷺ نے انالوضولایحب الا علی من نامہ مضطجعََافا نہ اذا اضطجع ۔

استراحت مفا صلہ نیند کے ساتھ وضو ٹوٹنا بھی تسمیہ سبب بہ اسم سبب اصلی وضو ٹوٹتا ہے ۔ ہوا نکلنے سےیہ نیند اسکی قائم مقام ہے

حضرت نبی کریم ﷺاس سے مستثنی ہیں سونے سے وضو نہ ٹوٹنا  مخصوصبہ نبی ﷺہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا
میرے دونوں آنکھیں سوتے ہیں اور میرا دل نہیں سوتا نبیکریم ﷺاکثر راتوں میں عبادت میں مصروف رہتے تھے تول قیام کے سبب پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدقہ ٘عرض کرتی ہیں یا رسول اللہ آپ کے اگلے پچھلے لغزشوں کو اللہ پک نے معاف فرمایا۔ آپپ اس قدر تکلیف کیوں برداشت کرتے ہیں۔
آپ جواب دیتے ہیں ۔ اے عائشہ میں اس مولی تعالی کا شاکر بندہ بننا چا ہتا ہو ں، جس نے مجھکو فضل کبیر عطا فرمایا پھر صبح کی ازان ہو جاتی تھی ۔نبی کریم ﷺسنت کے دو رکعت پڑھنے کے بعد آرام فرماتے تھے ۔ جب اقامت ہو جاتی تھی نبی کریمﷺنماز پڑھاتےتھے ۔
مسئلہ؛نبی کریمﷺنے فرمایا  جب تک نہ مجھ کودیکھو آ تے ہوئے تمہیں اٹھنا نہیں۔امام کوا ور مقتدیوں کو لازم ہے سب بیٹھے رہیںموذن کےحی علی الصلوۃ ختم کرتے ہی حی علی الفلاح کے ابتدا ء پامام اور مقتدی سب  اٹھیں اس سے پہلے سے کھڑے ہو کر اقامت سنا سب کو مکروہ ہے ( عالمگیری)ا زیادہ لکھنے کی گنجا ئش نہیں۔اس کی تفصیل دیکھنا منظور ہو تو کتب فتاؤں کو دیکھ لو ۔ مگر ی مسلوب العقل ہونے سے اس کو نہی سمجھتے اگرکسی کو ہمیشہ پیشاب جاری ہونےکی بیماری ہو وہ اسی حال میںنماز پڑھےگا۔ کپڑے پاک کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ دھونے کے بعدپھر نا پاک ہوجاتے ہیں ۔ جب یہ عذر ہوجاتا ہے ۔ تب یہ کپڑے وغیرہ پاک کریں ۔ ہگرہر وقت کی نماز کے لئے نیا وضو کر لے ۔اگر کہیںپتھریا ڈیلا استنجا کےلئے نہ ملا یاپانی نہ ملا یا دونو نہ ملے یہ تو مجبوری ہے۔ اس وقت تیمم کرکے نماز ادا کرلے۔ خواہ بے غسل ہو یا بیوضو۔
حضور نبی کریم ﷺکو سونے سے وضو نہیں جاتا تھا۔ نبی  نبی کریم ﷺکے ساتھ بہت سے چیزیں مخصوص ہیں۔کسی اُمتی کو وہ کرنا ہر گز جائز نہیں ان مخصوص چیزوں میں سے یہ بھی ہے۔ آپ کو سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ آپ کا دل جاگتا تھا ۔ آنکھیں سوتے تھے۔ مگر اُمت کو یہ حُکم دیا جو کوئی کروٹ سو جائے وہ وضوکرے۔ ناظرین!تبرائی وہابیوں کے طرز عمل پر غور کریں۔ نبی کریم ﷺکا طریقہ یہ تھا ساری رات عبادت میں گزارنا ،پیروں پر ورم آنا۔ اس سنت کو تبرائی سنت نہیں جانتے۔صرف صبح کے سنت نمازپڑھنے کے بعد سوجانا سنت جانتے ہیں۔نبی کریم ﷺنے فرمایا۔ کروٹ سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس طرح سونے سےوہابیوں کا وضو ٹوٹ گیا۔اب یہ تبرائی بے وضو فرض نماز پڑھتے ہیں۔بے وضو نماز پڑھنے والا کافر ہو جاتاہے۔دیکھو کتب فتاویٰ کو کیونکہ انہوں نے فرض وضو کی توحین کی اس فرض وضو کو حقیر سمجھا۔ یہ تبرائی بہ سبب استہزا اور استہانت اس فرض وضو کے یہ لوگ کافر ہوئے ہیںانکی تمام عبادت اکارت اور ضائع ہوجاتی ہے۔ مگر یہ اپنے بے علمی اورجہالت کے سبب سے اسکو سمجھتے نہیںضرورت کے وقت ناجائز بقدر ضرورت جائز ہوجاتا ہےپانہ کے ساتھ استنجاء کرنے کے وقت قلیل نجاست سے ہاتھ آلودہ ہو جائے۔ تو یہ معاف ہے۔ کیونکہ اسنے طاقت کے مطابق کوشش کی پھر ایسا ہوا۔ اور
نجاست بچنا محال اور حرج ہے۔ حرج دین میں مدفوع ہے۔اللہ سبحانہتعالیٰکا ارشاد ہے کہ اللہ کو یہ منظور نہیں ۔ تمکو حرج و تنگی میں ڈالدے ۔ لیکن اللہ کو یہ منظور ہے تمکو پاک کرے۔ اور خوب پاک کرنے کا طریقہ بتلائےاور تمہارے اوپر اپنا انعام پورا کرے۔ تاکہ تم شکر گذار ہو۔ نماز کی شرطوں میں کپڑوں اور بدن کا پاک ہونا۔ ضروری ہے۔ استنجاء بدن کی پاکی میں دخل ہے۔ آج کل کے بعضے مسلمان دین کین ہر امر میں سستی کرتے ہیں۔ خصوصاََ استنجاء کرنے میں ان کا طریقہ بعینہ نہود کا طریقہ ہے۔ لہٰذا استنجاء کے چند فضائل لکھنا مقصود  بالذات تھا۔ مناسب مقام کے کچھ باتوں کا اضافہ ہوا۔ ہدویت ہافتوں کو ان سے ضرور فائدہ ہوگا ۔ گمراہوں کے لئے دفتروں کے دفتر کافی نہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں کو زنگ کھ گئی۔ یہ رسالہ دیکھ کر انکی ضد اور ہٹ کی بیماری بڑھتی چلی جائیگی وہ اپنی اصلاح ہر گز نہ کرائیںگے۔
ما یریداللہ لیجعل علیکم من حرج ولا کن یرید یطھرکم  نعمۃ علیکم لعلکم تشکرون
ایک سوال کا جواب : کسی سائل نے عرض کیا۔ یہاں پر ایک بزرگ نماز کے بعد فاتحہ پڑھنے کو جائز کہتے اور مصحافہ کرنے کو ناجائز،
جواباََ عرض ھے:  یہ دونو ںفعل مستحسن ہے۔ تبرائی ، وہابی،گلوبی وہابی، ان دونو کے نزدیک ناجائز ہےآپ کا یہ بزرگ وہابی معلوم نہوا۔ یہ تلگھاٹی وہابی ہے یا پہاڑی وہابی ، گالباََ یہ جنگلی پہاڑی وہابی ہوگا۔ اس سے سند دریافت کروکہ کیوں مصحافہ کرنا ناجائز ہوا۔ جواز کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ، علمائے محققین کے نزدیک اصلی شئ میں اباحت جواز ہے ما ترید من عشاعرہ دونوںکے نزدیک اصلی شئ می اباحت اور جواز ہے یعنی جہاں پر ْرآن مجید یا حدیث رسولﷺمیں منع آیا ہے وہ منع ہے، جہاں منع نہیں وہ اباحت اصلی پر ہے ۔ عرف عام میں سورہ فاتحہ اور چند سورتوں کو یا چند آیتوں کو بہ نیت ایصال ثواب پڑھنے کو فاتحہ کہتے ہیں۔ فاتحہ اور قرآن دونوں لازم وملزوم ہیں۔ نعوذ باللہ فاتحہ اور قرآن پڑھنے کو نا جائز کہنا اور اس کو بدعت کہنا اس منع کرنے والے مسلمان کے لئے اسلام میں جگہ نہیں ۔ حضرت نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جب وہ مسلمان آپس میں مصافحہ کرتے ہیں جدا ہونے سے پہلےاللہ پاک ان گناہوں سے پاک کرتا ہے ۔ اور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہےکہ آپس می مصافحہ کرو تاکہ تمہارے دلوں کے اندر جو کینہ ہو حسد ہو وہ نکل جائےگا ۔ ایسی نعمت سے جو ہمارے بدنوں کو گناہوں سے پاک کرے اور ایسی نعمت سے جو ہمارے سینوں کو کینہ اور بغض سے صاف کرے ایسی نعمتوں سے رکنے والا سوائے مذکور بالا شیخ جی اور کوئی نہ ہوگا قرآن شریف کی تلاوت کرنا اور مصافحہ کرنا جب جبکرے تب سنت ہی ادا ہوگا ۔ مصا فحہ کرنا جیسا مردوں کے لئے سنت ہے ویسا ہی عورتوں کے لئے بھی سنت ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ یہ سنت عورتوں میں کہیں مروج نہیں۔ یہ سنت عورتوں کے حق میں مردہ ہوگئی۔ اب عورتیں اس سنت سے دور اور مزکور بالا عظیم سے محروم ہوگئے۔ اگر کوئی مسلمان اس سنت کو عرتوں میں جاری کرائے اور عورتیں اس پر عمل کریں ۔ دونو کو سو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا ۔ یعنی ایک عورت مسلمان جب دوسری عور ت مسلمان کیساتھ ملجائے ، دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔
 بخاری شریف میں دونوں ہاتھوں سے مصا فح کرنے کا ایک باب مستقل موجود ہے۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا بلا عذر جائز نہیں ۔  ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا ، طریقہ نصاری ٰ اور وہابیہ کا ہے۔  وہابی کہتے ہیں ۔ حدیث میں لفظ “ید”آیا ہے ۔ ید ایک ہاتھ کو کہتے ہیں تم ان سے دریافت کرو کہ ید سے کو نسا ہاتھ مراد ہے۔ دایاں ہاتھ یا بایاں ہاتھ ۔ تم جو ایک ہی دائیں ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہو اس کو حدیث سے ثابت کرو۔ یہ فرقہ فہم و فراست سے دور ہے ۔ لفظ ید اسم جنس ہے۔ اس کا اطلاق دونو ہاتھوں پر آتا ہے ۔ایک مسلمان مرد جب دوسرے مسلمان مردع کیساتھ مصافحہ کرے مصافحہ کرتے وقت یوں پڑھیں تقبل اللہ منا و منکم یعنے اللہ پاک ہماری اور تمہاری یہ خوشی اور مصافحہ قبول فرمائے اس جملہ کا اسےعمال اکثرعید کے روز ہوتا ہے یا یوں کہے کہ غفر اللہ لنا و لکم یعنے اللہ پاک ہمارے اور تمہارے گناہوں کو بخشدے ۔ ایک مسلمان عورت دوسری مسلمان عورت سے مصافحہ کرے تو مصافحہ کے وقت یوںکہے  تقبل اللہ من و منکنَیا یوں کہے غفر اللہ لنا و لکن معنی وہی مذکور بالا کا ہے
فرقہ وہابیہ کا ایمان ہے ۔مسلمانوں کے ہر کام میں خلاف کریں ۔ نبی کریم ﷺ کے زمانہ اقدس میں ایک جماعت تھی ،جومسلمانوں کےساتھ نماز پڑتی تھی، اور جہاد میں شر یک بھی رہا کرتی تھی۔ یہ صرف اپنا بچاؤ اورد نیوی اغراض حاصل کرنے کے لئے کرتی تھی۔ خود کو مسلمان ہی کہلاتی تھی، حقیقت میں یہ جماعت مسلمان نہ تھی ، اس جماعت نےایک مسجد بھی بنوائی تھی، ارادہ کیا کیا تھا کہ نبی کریم ﷺ کو دعوت دے کر اس میں نماز پڑھوائیںگے ۔اس جماعت میں اکثر یہود اور مشرک تھے،اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی یہ لوگ آپ کے پاس آکر قسم کھائیںگے ہم کو یہ مسجد بنانے میں کوئی غرج نہیں ، صرف نیک غرض ہےان پدرمی مسلمانوں کےیعنی ہم اس مسجد میں نماز پڑھیںگے ۔ قرآن۔حدیث اور اسلام کی اشاعت کریںگے ، اور دھوپ اور بارش میں یہاں پرآرام کریں گے، آپ اس مسجد میں نمز کے لئے ہرگز قیام نہ کیجئے آپ کی نماز ہرگز اس میں جائزنہیں یہ مسجد مسلمانوں کےلئے ضرر پہنچانےپھوٹ اور تفرقہ ڈالنے کےلئےبنائی گئی ہے۔جو مسجد مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کے لئے بنائی جائے اس میں ہر گز نماز جائز نہیں ۔پھر حضور ﷺ نے اس مسجد کو منہدم کر دیا اور حکم دیا اس جگہ کوڑا کرکٹ پھینکا کرو اور پائخانہ پیشاب کےلئے جگہ بناؤ ۔   (تفسیر حسینی)
مسلمانوں! اس پرغور کرو صریحاََ نفس قرآنی ہے مذکورہ بالا جماعت کی شا نے صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں صدور پایابعض نے اہل بیت کے محبت کی آڑ لے کر مسلمانوں کو ضرر پہنچایا۔ العیاز باللہ صحابہ کو سب شتم’’ گا لیاں‘‘ دینا شرو ع کیا  یہ رافضی ہوئے بعض نے صحابہ کی محبت آڑ لیکر اہل بیت کو نعوذ باللہ گالیاں دینا شروع کیا ، مولےٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ بغاوت کی ان کے مقابلہ کے لئے خروج کیا یہ خارجی ہوئے۔ انہی کے ذریت سے محمد بن عبدالوہاب نجدی ہے۔ مذکور بالا شاخ نےجب ہندوستان میں وہابی کا جنم لیا تو مسلمانوں کو بے حد ضررپہنچایا۔ مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور تفرقہ ڈال دیا۔ مسلمانوں کو کورٹ چڑھایا۔مسلمانوں کی مسجدوں کو بند کروایا ۔ جہاں پر اس فرقے کے دو تین گھر ہوئے ایک دیڑھ اینٹ کی مسجد علٰیحدہ قائم کر دئے۔ حدیثوں پر عمل کرنے کی آڑ لیکر دنیا کے مسلمانوں کو کافر مشرک کہے کیونکہ تقلید مجتہدین اس طائفہ تالفہ کے نزیک کفر وشرک ہے ۔ اس فرقہ کی شرارت سے ریاست میسور بھی نہ بچ سکی۔ یہاں پر بھی بہت جگہوں میں مسلمانوں کو ضرر پہنچایا۔ مسلمانوں کو کورٹ چڑھایا۔ چنانچہ جب میںریاست میسور میں داخل ہوا تو اس وقت کسی چراغ چاٹو وہابی کا مقدمہ کورٹ میںدائر تھا۔ مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور تفرقہ ڈالنے کے سبب سے کسی سنی نے اس کی داڑھی کتروادی تھی۔ اس نے اپنی داڑھی کی قیمت دس روپے لگا کر کورٹ میں مقدمہ دائرکیا تھا۔غرض نہ رافضی اہل بیت کے محب نہ خارجی صحابہ کے محب نہ وہابی حدیثوں کے عامل یہ دعویٰ ان کا زبانی ہے ، لوگوں کو دھوکا دینے کےلئے پیش کرتے ہیں ۔اگر اس میں کسی کو شبہ ہو تو وہابیہ سے دریافت کرے کہ تم ہمیشہ سینہ پر ہاتھ باندھ کرنماز پڑھتے ہو ۔ ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھنے کےلئے کوئی حدیث پیش کرو ۔مگر کوئی وہابی قیامت تک کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کرسکے گا پھرانکی ضد دیکھو اس پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیںنہ اس دعوی ٰکو۔
وہابیہ کے حسب حال ایک حکایت یاد آئی۔ ایک ملا جی کسی رئیس کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے،ایک روز نائی گاؤں سے ملاقات

کوآیا ۔ دور سے دیکھ کر کہنے لگا ۔ کیا ملا جی آرام سے بیٹھے ہو، اپنے گھر کی خبر تو لیجئے ملا جی گھبرا کر کہنے لگے۔ ارے خیر تو ہے!!!نائی۔۔۔۔۔کیا کہوںکلیجہ منہ کو آتا ہے اگر آپ کو اختلاج قلب کا دورا نہ پڑجائے۔ اپنے جگہ کو مضبوط تھام رکھیں تو کہہ دوں۔ آپکی بی بی رانڈ ہوگئی۔۔۔۔ ملا جی کو یہ خبر سنتے ہی غشی کی حالت طاری ہوگئی۔ذرا اوسان درست کرکے رئیس کے ہاں دوڑ گئے ۔ رو کر کہنے لگے ۔ میں گھر کوجاتاہوں۔ میری بی بی رانڈ ہوگئی۔یہ کہتے ہوئے پچھاڑ کر برانڈے سے نیچے گر پڑے۔ پھر حاس درست کرکے رئیس کے پاس روکر کہنے لگے ۔ میں گھر کو جاتا ہوں۔ میری بی بی رانڈ ہوگئی ۔ رئیس کہنے لگا ۔ ملا جی آپ تو زندہ موجود ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آپکی بی بی کیسے رانڈ ہوگئی۔کیا آپکی بی بی کو دو چار خصم تھے؟اگر وہ مرگئے توآپکو تو خوش ہونا چاہئے۔کیونکہ آپ کے رقیب مر گئے وہ بی بی آپ ہی کی رہی گی ملا جی دیر تک سوچنے کے بعدکہنے لگے۔تھی تو وہ میری ہی بی بی مگر گھر سے آیا ہے معتبر نائی۔ اس نے مجھ کو خبر دی کہ تمہاری بی بی رانڈ ہوگئی۔کیا میں اور وہ نائی جھوٹ کہتا ؟ ۔۔ اتنے میں ملاجی ۔دیکھو حضور اب آپ کو یقین آگیا؟۔رئیس کہنے لگا۔ ملاجی آپ زندہ موجود آپکی بی بی رانڈ ہونے کا کیا معنیٰ؟۔۔ ملاجی نے یہی رٹ لگائی ۔ میں گھر کو جاتا ہوں ۔میری بی بی رانڈ ہوگئی ۔ گھر سے آیا ہے معتبر نائی ۔۔ رئیس نے ملاجی کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی مگر ملا جی نے ایک با ت کو بھی تسلیم نہیں کیا ۔ صرف زبان پر یہی رٹ جاری تھی ۔میں گھر جاتا ہوں میری بی بی رانڈ ہوگئی۔ گھر سے آیا ہے معتبر نائی ۔۔۔(سنی)  بعینہ یہی مثال وہابیہ کی ہے۔میں نے انکو تقریر و تحریر سے بار ہا سمجھایا ۔ نبی کریم ﷺسے سینہ پر ہاتھ باندھنا اور اونچی آوازمیں آمین ۔رفع یدین ساری عمر شریف میں حالت امامت میں ایک مرتبہ کرنا ثابت ہے۔ قطع نظر اس کے  جرع تضعیف و تنیخ سے تمہارا امام حالت امامت میں ایک افعال مذکور ہمیشہ کرتا ہے۔ ہمیشہ کرنے کے لئے کوئی حدیث نہیں۔ تم مقتدی ہوکر منفرد ہو کر افعال مذکور کرنے کے لئے کوئی حدیث ہی نہیں۔تم امام۔ مقتدی۔ منفرد سب افعال ہمیشہ کرتے ہو۔
جب تم قیام میں رہتے ہو، دونوں قدموں کے درمیان کس قدر فاصلہ رکھتے ہو؟ نماز میں آنکھیں بند کرنے سے حدیث شریف میں منع آیا ہے۔تم جب  قیام میں رہتے ہو کدھر دیکھتے ہو؟جب رکوع میں رہتے ہو کدھر دیکھتے ہو؟ جب قومہ میں رہتے ہو کدھر دیکھتے ہو؟ جب سجدے میں رہتے و کدھر دیکھتے ہو ؟یہ سب تم پانچ وقت کی نماز میں ضرورکرتے ہواور تم یہ بھی کہتے ہو ، جو چیزحدیث سے ثابت نہیں وہ ناجا ئز وحرام ۔بدعت شنیع ہے۔ مذکوہء بالا یہ سب چیزیں حدیث سے ثابت نہیں ، یہ تمام کرنے کے لئے کوئی حدیث ہی نہیں۔ میری سمجھ میں یہ  بات آتی نہیں کہ تم عمل بالحدیث اہل حدیث کیوں کر ہو؟
وہابیہ بزبان حال وقال بے شک آپ کی بات بالکل بجا اورصحیح ہے۔ہمارے پاس افعال مذکوریعنی سینہ پرہاتھ باندھ کرنمازپڑھنا،آمین پکار کرکہنا، رکوع کوجاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا،یہ سب افعال ہمیشہ کرنے کے لئے کوئی حدیث ہی نہیں۔ باقی افعال کے لئے کوئی حدیث رسولﷺہی نہیں۔مگرپنجاب ہندوستان سے آیاہے معتبرنائی۔اس نے ہم کوخبردی کہ تم سب مردعورت ،اما،مقتدی،منفردسینہ پر ہاتھ باندھنارفع یدین کرنا آمین پکار کرکہنایہ افعال ہمیشہ کرنے سے عمل بالحدیث اہل حدیث ہو۔ان کی داڑھی ناف کے نیچے لٹک رہی تھی۔بایں ریش درازی کے کیا اس نے جھوٹ کہا ہے؟
سنی:۔یہ مقولہ مشہورہے کہ بڑی داڑھی والابیوقوف ہوتاہے۔لمبی داڑھی سے مراد چارانگل والا بیوقوف ہوتاہے۔لمبی داڑھی سے مراد جوچارانگل سے زائد ہو۔اس نے تم کو پرندے تصور کرکے اپنی لمبی داڑھی میں پھنسادیا۔س نے تمہاری اچھی حجامت کی۔تمہارے پیسے بھی کھاگیااورتمہاراایمان بھی بربادکردیا۔اگرآپ کواس میں شک ہے تواپنی داڑھی مٹھی میں لے کردیکھئے کہ آپ کی کتنی لمبی داڑھی ہے۔ پھراپنے دعویٰ پہ غورکیجئے آپ نے اس کے(نائی)کہنے کے مطابق اپنے آپ کو عمل بالحدیث اہل حدیث کہاہے۔آپ نے فعل مذکورہمیشہ کرنے لئے حدیث طلب کیجئے۔اب آپ کویقین آگیالمبی داڑھی والابیوقوف ہوتاہے۔
وہابی:۔منصف آدمی آپ کی بات ضرورقبول کرے گا۔مگرہم متعصب اورضدی ہیں۔ہم آپ کی بات ہرگزنہیں مانیں گے۔کیونکہ پنجاب سے آیاہے معتبرنائی۔اس نے ہم کوخبردی تم افعال

مذکور ہمیشہ کرنے سے عمل بالحدیث اہل حدیث ہو۔
سنی:۔یہ تواس نائی کی تقلیدٹھہری۔کیاتم نائی کے مقلدہو۔؟ جب تمہارے نذدیک اہل اسلام کے مجتہدوں کی تقلید کرنا کفر شرک ہے۔نائی کی تقلید کفرشرک کیوں نہیں ؟تم افعال مذکورکرنے کے لئے اس حدیث طلب کرو۔
وہابی:۔آپ کی غرض ہے کہ ہم افعال مذکور چھڑانا۔ہم آپ کی بات ہرگزنہ مانیں گے۔ کیوں کہ ہم باربارکہہ چکے ہیں کہ ہندوستان پنجاب سے آیاہے معتبرنائی۔ اس نے ہم کو خبردی کہ تم سب افعال مذکور ہمیشہ کرنے سے عمل بالحدیث اہل حدیث ہو۔ اس سے بڑھ کرآپ کے سامنے کیا ثبو ت پیش کرسکیں گے۔؟ ہمارے پاس یہی نائی کاقول بہت بڑا ثبوت ہے۔
سنی:۔خدااس نائی کوغارت کرے جس نے ملاجی کی طرح وہابیہ کوگمراہ کیا۔میں نے وہابیہ کی اصلاح کی تھی تو جس چیزکوحرام اوربدعت کہتے ہواسی کوخود کرتے ہو۔اسی کوتم خودکھاتے ہو۔یہ عقیدہ تم کوقعرجہنم کوپہنچادے گا۔اس عقیدہ فاسدہ سے توبہ کروبازآجاؤ۔ان کو(وہابیہ کو )لازم میراشکرگزاررہیں۔مگرانہوں نے برعکس اس کے کفر اورسب وشتم کرناشروع کیا۔فاللہ المشتکیٰ۔دنیائے اسلام میں یہودضدی اورعہدشکن مشہورہیں مگروہابیہ ان سے بھی بڑھ گئے۔میرے سامنے کئی جگہ وہابیہ نے اپنے عقائدفاسدہ سے توبہ کی جب میں وہاں سے نکل گیاتوپھروہ مرتدکے مرتد ہی رہے۔کیونکہ یہ لوگ میرے سامنے کوئی بات ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ اس شخص کے پاس روزروشن کی طرح ظاہر ہے۔جس نےمیرے اشتہاروں کودیکھااورسمجھااورمامبھلی میں بھی ایک اجمل وہابی خارجی صورت یہودی سیرت یہاں کے چندمسلمانوں کے سامنے اپنے عقائدفاسدہ سے توبہ کی اورمسجد کے اندرنماز پڑھی اس پردعوت کے دروازے بندتھے۔جب اس پردعوت کے دروازے کھل گئے پھروہ کتے کاکتاہی رہ گیا۔یہ چندفریق جو اس وقت مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں، یہ صرف اپنا بچا ؤاور دنیاوی غرض کے لئے کرتے ہیں ۔دلوں میں مسلمانوں کے لئے حسداوربغض رکھتے ہیں۔ یہ فریق بہت ہی م ہیں۔انکومجبوراََ سنی مسلمانوں کا ساتھ دینا پڑتا ہے ۔اگر سنی مسلانوں سے علٰیحدہ ہوجائیں توغیر مسلم ان کو نوچ کربوٹی کردینگے ۔ چند نادان لیدی کےلیڈروں نے مذہب کو بالائے طاق کھ کر کتوں کو بلیوں چوہوں کو اکھٹا کرکےذلیل و خوار ہوگئے ۔ اللہ پاک کی قدرت کو دیکھو اب لیدی کا نام لینا بہت بڑا جرم ہے۔ اب گیدر عجز و نیاز کی رسی گلے میں ڈال کر اور ہاتھ جوڑ کر آقاء مجاز کے حضور میں چلاتے ہوئے لیدی سے توبہ ۔ میری توبہ ہائے میری توبہ مگر ان کے فریاد کی شنوائی نہیں۔ ان کا آقاء مجاز ایسا بے رحم واقع ہوا ہے وہ ان کی توبہ قبول کرتا ہی نہیں۔اس نے ان کے اپر توبہ کے دروازے بند کردیا۔
چرا کار کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
بلکہ وہ ان کو بزبان قال و ھال سے یہ جواب دے رہا ہے
من خوب می شناسم پیران پارسارا

بہر رنگ ِ کہ خو اہی جامہ می پوش
من انداہء قدت را می شناسم
مسلمانوں کو بد مذہب بد عتیوں کے ساتھ ملنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اللہ پاک نے سنی مسلمانوں کی تعداد دنیا کے اندر سب سے زیادہ بنادیا ہے ۔گو ایک ،جگہ میں نہیں ۔ متفرق ہیں ۔ مگر۔ اعتصام حب اللہ ۔ نے ان کو مجتمع کیا ، خواہ کہیں بھی ہو ۔ اللہ عزوجل پہلے اعلان فرما چکا ہے۔
اے مسلمانوں !تم ہمت نہ ہارو اور سست اور غمگین نہ ہو جاؤ تم ہمیشہ ہر قوم پر غالب رہو گے بشرطیکہ تم مسلمان ہو ۔ مسلمان رہو۔ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی ترقی منحصر ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکاموں کو پوری طرح پابند کریں۔جس نے مذکور احکاموں کی پابندی کی ۔ اس میں شجاعت بہادری جوانمردی پائی جاتی ہے ۔ ان کی نظروں میں دنیا و ما فیہاہیچ ہے۔ مسلمانوں کو لازم ہے ، ان بد مذہب بدعتیوں کے مسجدوں ،مدرسوں اور تبلیغی اداروں کو مالی مدد کرنا ایسا ہے جیسے یہود ونصاریٰ کے عبادت گاہوں اور تبلیغی اداروں کی مدد کرنا ہے ۔ کیونکہ یہود و نصارااپنے دین کی ترقی چا ہتے ہیں ۔ جس نے ان کو مال مال دے کر مدد کیا اس نے اپنے دین کی تخریب اور برباد کرنے کی کوشش کی ۔ ا نہوں نے اپنےلئے جہنم خریدا۔ شریعت نے جہاں پر مال خرچ کرنے کی اجزت دی ہو۔ وہاں ثواب ہوگا۔ جہاں پر اجازت نہیں وہاں

ہرگز ثواب نہ ہوگا۔ ثواب حاصل کرنے کے لئے اول حلال مال ہونا شرط ہے۔ حرام مال خرچ کرنے میںہرگز ثواب نہ ہو گایاحلال مال کسی کے پاس رکھ دیااس نیت سے کہ اس میں جوسودآجائے تواس میں سے لوگوں کی مدد کروں گا۔اس میں بھی ہرگزثواب نہ ہوگا۔کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسولﷺ نے سودخوار کوسود کے حساب لکھنے والے کواوراس کے شاہدوں پرلعنت بھیجاہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سودخوار اللہ اوراس کے رسولﷺ کے ساتھ لڑتااورجھگڑتاہے جس نے اللہ اوراس کے رسولﷺ کے ساتھ لڑائی کی ۔اس کے لئے جہنم ہے۔نبی کریم ﷺکاارشادہے کہ ایک درہم سودکاکھانا چھتیس زناؤںسے بدترگناہ ہے۔نبی کریمﷺ کاارشاد ہے جس گوشت پوشت ہڈی یعنی جس نے حرام مال سے پرورش پائی اس کے لئے جہنم ہے۔ نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے سود کے سترجُزوہیں ۔ادنیٰ جز وسودکایہ ہے کہ وہ اپنے ماں کاساتھ جماع کرتاہے۔یہ وعیدشدیداس لئے ہے کہ سودکھانااللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔اگرکوئی سودخوارکوکہیں کہ یہ اپنی ماں کے ساتھ زناکررہاہے توکہنے والا حق بجانب ہوگا۔اس کے ثبوت کے لئے نبی کریم ﷺ کاارشاد مبارک شاہدوعدل ہے، پھراس مال میں ثواب کیسا؟؟؟ اس کی مثال ایسی ہے مثلاً ایک مسلمان نے ساری عمر گائے بیل،بیکری پالیااوران کو اچھی طرح موٹے فربے بنادیاآخروقت ان سب کوسمندرمیں پھینک دیا۔ظاہراس کو اس میں کوئی فائدہ نہیں ۔اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑامجرم وگنہگارہوگا۔کیوںکہ اس نے اپنے مال کو ضائع کیا۔مگردریائی جانوروں کو ضرورفائدہ ہوگاکیونکہ ان کو اچھی غذا ملی۔ یہی مثال اس مسلمان کی ہے جس نے ساری عمرمحنت وتکلیف اٹھاکردولت حاصل کی اور آخروقت اس کو خیال آیا قوم کی بہتری کا۔
اس دولت کاایک حصہ کسی دکاندار کے پاس رکھا تاکہ اس میں جوسود آجائے تو اس سے قوم کی خدمت ہوجائے۔ ظاہر اس مالدار مسلمان کو اس سے ہرگز کسی طرح کافائدہ نہ ہو گاکیونکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺ نے سودکوحرام کردیا۔بلکہ اپنے لئے عالم برزخ اورعالم آخرت میں عذاب ہی خریدا۔ البتہ جن کو یہ سود کے پیسے مل جائیں گے وہ خوب موٹے تازے ہوجائیں گے۔ ان کی گمراہی میں اضافہ ہوجائے گا۔ کیونکہ حرام مال کھانے سے گمراہی بڑھ جاتی ہے ۔نہ  ان کو کوئی مذہبی بات معلوم نہ کوئی مذہبی بات پرعمل۔ صورت مؤنث کی سیرت مخنث کی ۔چال چلن نصاری کا ۔جاہل مسلمانوں نے اس کو ترقی نام رکھاہے۔
زن را بے ریش زیباست

مرد را زیب  برریش
حررہ را درپردہ زیباست

قحبہ را بے پردہ زیب
عورتوں کی صورت بنانے والے نصاری چال چلن والےمذہب سے بے خبربے عمل لاکھوں مسلمانوں کے قتل کے سبب بنے۔جب سے اسلام پیداہوا مسلمانوں پراس قدر ظلم اورقتل کبھی ہواہی نہیں۔اس کاسبب یہ نااہل بنے۔ان زنانی صورت نصاری سیرت مسلمانوں کے خاں ساز سیاست دانی نے کروڑہائے مسلمانوں کو غلام بے دام بنادیا۔یہ زنانی صورت والے لوگ مسلمانوں کی تنظیم اوراصلاح کرنے کو پھررہے یں بھلاان سے تو پوچھو۔ ارے  بے حیاتیراہی گھربے انتظام  ویران ہے توپہلے اپنی اوراپنے گھرکی اصلاح وتنظیم کر۔پھرلوگوں کی اصلاح کرنا۔تیری اس زنانی صورت پرتیری اس نصرانی سیرت وچال چلن پر تیری اس مذہب سے بے خبری پر،تیری  بداعمالی پراسلام ماتم کررہاہے۔ تجھے شرم نہیں آتی تواسلام کانام لے رہاہے۔اسلام مسلمانوں کے ہمیشہ دینی ودنیاوی ترقی چاہتاہے بشرطیکہ مسلمان مسلمان رہے۔اگرکسی مسلمان نے اسلام کا قاعدہ وقانون چھوڑ کرترقی کی یعنی غلامیت کاکوئی بڑا درجہ حاصل کیا۔مثلاً وزیراعظم بنایاخودمختاربادشاہ بنایاکسی مسلمان نے حلال وحرام کے درمیان امتیازکئے بغیر چندکوڑیوں کامالک بنا لکھ پتی اورکروڑپتی کہلایا۔ ایسے مسلمان کی نہ اللہ کوضرورت ہے نہ اللہ کے رسولﷺ کو نہ کامل مسلمان کو۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے چھوڑ ان منکرین کو اپنے حال پر تاکہ خوب کھائیں اور پئیں اورخوب چین کریں۔ان کوخیالی منصوبوں نے غفلت میں ڈال رکھاہے

عنقریب ان کواس کی حقیقت معلوم ہوجائےاوراس دن کے لئے منتظررہو۔جب تم سے سوال ہوگا یہ مال کس طرح حاصل کیا تھا؟ یعنی جائزطریقے سے یا ناجائزطریقے سے۔پھریہ مال کہاں خرچ کیاتھا؟ یعنی جائز کاموں میں یاناجائزکاموں میں۔اس دن نہ مال کام آئے گا نہ اولادنہ یہ غلامیت کابڑادرجہ۔
فارتقب انھم مرتقبون
(اس مضمون کوبسبب عوارض خارجی طباعت ملتوی ہوگئی تھی۔اللہ تعالیٰ نے طباعت کاوقت لایاضروری باتوں  کااضافہ ہواہے۔مسلمانوں کے نورایمان کو مضبوط بنادے گا۔اور فاسق بدعتی اوربدمذہبوں کونیست ونابودکردے گا)
الا لا یعلم القوام انا
(نوٹ : یہاں ایک عربی شعر تھاجس کی طباعت صاف نہ ہونے کی وجہ سے واضح نظرنہ آرہاتھا۔ناچیز(غ ر فدا)نے اسے حذف کیا۔)٭٭٭٭

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!