ایک مہینہ میں چار حج:
ایک مہینہ میں چار حج:
حضرتِ سیِّدُنا امام اوزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا مَیْسَرَہ بن حسین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ایک دن قبرستان کے راستے سے گزرے، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی نظرکمزورتھی جس کی وجہ سے ایک شخص آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا ہا تھ پکڑ کر آگے آگے جا رہا تھا یہا ں تک کہ قبرستان آگیا۔ اس شخص نے عرض کی: ”اے میسرہ! یہ قبرستان ہے ۔” توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے کہا: ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ
یَآ اَھْلَ الْقُبُوْرِ! اَنْتُمْ لَنَاسَلَفٌ وَّنَحْنُ لَکُمْ خَلَفٌ فَرَحِمَنَااللہُ وَاِیَّاکُمْ وَغَفَرَ لَنَا وَلَکُمْ وَبَارَکَ لَنَاوَلَکُمْ فِی الْقُدُوْمِ عَلَیْہِ اِذَا صِرْنَا اِلٰی مَا صِرْتُمْ اِلَیْہِ
یعنی اے قبر والو! تم پر سلا متی ہو، تم ہمارے اگلے ہو اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ ہم یہاں آئیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم پر اورتم پررحم فرمائے، ہماری اور تمہاری بخشش فرمائے اور اپنی برکت سے نوازے جب ہم بھی وہاں پہنچیں جہاں تم پہنچے ہو۔”
حضرتِ سیِّدُنا امام اوزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”اللہ عزَّوَجَلَّ نے قبر والوں میں سے ایک شخص کی روح لوٹا دی تو اس نے فصیح زبان میں جواب دیتے ہوئے کہا: ” اے دنیا والو! تمہیں مبارک ہو! تم ایک ماہ میں چار مرتبہ حج کر تے ہو۔”حضرتِ سیِّدُنا میسرہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دریافت فرمایا: ”اللہ عزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے، چار مرتبہ کیسے؟” توجواب ملا: ”نماز ِجمعہ اداکرنا، کیا تم نہیں جانتے کہ یہ حجِ مقبول ہے۔”
پھر حضرتِ سیِّدُنا میسرہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا: اللہ عزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرما ئے، مجھے اس عمل کے متعلق بتاؤ جو تم نے دنیا میں کیا ہو اور اس نے تم کو نفع دیاہو؟” تواس نے جواب دیا: ”بخشش کی دعا کرنا دُنیا والوں کے لئے آخرت میں سب سے زیا دہ نفع بخش ہے۔” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے پھر اس سے پوچھا: کس چیز نے تمہیں ہمارے سلا م کا جواب دینے سے روک رکھا ہے؟” تو اس نے جواب دیا: ” سلا م کاجواب دیناایک نیکی ہے اوراب ہم نیکیاں نہیں کرسکتے، نہ تو ہماری نیکیاں بڑھتی ہيں اور نہ ہی برائیاں کم ہوتی ہيں۔ اور ہم تمہاری اس دُعا سے خوش ہوتے ہیں: ”رَحِمَ اللہُ فُلَانًا اَلْمُتَوَفّٰی یعنی اللہ عزَّوَجَلَّ فلاں مرنے والے پر رحم فرمائے۔” اللہ عزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے! نیک اعمال میں جلدی کرواوربرے اعمال سے اجتناب کرو اور فنا ہونے والی عمارت سے نئی تعمیر ہونے وا لی عمارت کی طرف پلٹنے کی تیاری کرو گویا تم موت کا پیا لہ پینے والے ہو کیونکہ موت کا جام ہر مرد وعورت پر گردش کرتا رہتا ہے۔”
حضرتِ سیِّدَتُنا عا ئشہ اَنْدَلُسِیَّہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا ایک نیک صفت اور صالحہ خاتون تھیں، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا فرما تی ہیں: ”میرا بیٹا انتقال کر گیا اور میں ہفتے میں ایک بار اس کی (قبر کی)زیارت (۱)کرنے جاتی۔ جب میں اس کی قبر کے قریب پہنچتی تو اس کے پڑوسی مُردوں کو کہتے ہوئے سنتی: ”اے فلا ں! یہ تیری ماں ہے، تیرے پاس آئی ہے۔” میں اپنے بیٹے کی قبر کو دیکھتی تو ایسا لگتا جیسے وہ ہنس رہا ہو، میں اس سے بہت خوش ہوتی۔”
1۔۔۔۔۔۔عورتوں کی قبروں پر حاضری کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے ،حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فتاوی رضویہ شریف کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:”اور اسلم یہ ہے کہ عورتیں مطلقاًمنع کی جائیں کہ اپنوں کی قبور کی زیارت میں تو وہی جزع وفزع ہے اور صالحین کی قبور پریا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی کہ عورتوں میں یہ دونوں باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔” (بہارِ شریعت،ج۱،حص ۴،ص،۸۹)