Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islamمضامینمقبولیات

تشریح اعضاء وضو

پہلا منہ دھونا

کسی عضو دھونے کے یہ معنیٰ ہے کہ اس عضو کے ہر حصہ پر کم سے کم دو بوند پانی بہہ جائے ، بھیگ جانے سے یا تیل کی طرح چپٹ جانے سے یا ایک آدھ بوند بہہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے ، نہ اس سے وضو یا غسل ادا ہو ، اس امر کا بہت خیال رکھنا چاہئے ، لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور ان کی نماز اکارت جاتی ہے شروع دپیشانی یعنی جہاں سے بال جمنے کی انتہا ہو ٹھوڈی تک طول میں اور عرض میں
ایک کان سے لے کر دوسرے کان تک کو منہ کہتے ہیں ، منہ کے اس حد کے اندر جلد کے ہر حصہ پر ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے ، مسئلہ :۔ جس کے سر کے اگلے حصہ کے بال جھڑ گئے یا جمتے نہیں تو اس ہر وہیں تک منہ دھونا فرض ہے جہاں تک عادتاً بال ہوتے ہیں ، اور اگر عادتاً جہاں تک بال ہوتے ہیں اس سے نیچے تک کسی کو بال جمتے ہوں تو ان زاید بالوں کی جڑ تک دھونا فرض ہے ۔
مسئلہ :۔ اگر مونچھیں بڑھ کر لبوں کو چھپا لے اگر چہ گھنے ہوں ، مونچھوں کو ہٹا کر لبوں کا دھونا فرض ہے ، مثلاً اگر داڑھی کے بال گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے ، اگر گھنے ہوں تو گلے کی طرف دبانے سے جس قدر چہرے کے گرد میں آئیں انکا دھونا ضروری نہیں ہے اور اگر کچھ حصہ میں گھنے اور کچھ حصہ میں چھدری ہوں تو جہاں گھنے ہوں وہاں کا دھونا فرض ہے اور جہاں چھدری ہوں اس جگہ جلد کا دھونا فرض ہے ۔
مسئلہ :۔ لبوں کا وہ حصہ جو عادتاً بند کرنے بعد ظاہر رہتا ہے اس کو دھونا فرض ہے ، اگر کوئی زور سے لب بند کرے کہ اس کا کچھ حصہ چھپ گیا اس پر پانی نہیں پہنچا نہ کلی کہ دھل جاتا تو وضو نہیں ہوا ،ہاں وہ حصہ جو عادتاً منہ بند کرنے میں ظاہر نہیں ہوتا ، اس کا دھونا فرض نہیں ۔
مسئلہ رخسار اور کان کے بیچ میں جو جگہ ہے جسے کنپٹی کہتے ہیں اس کا دھونا فرض ہے ہاں اس جگہ میں جتنے حصہ میں داڑھی کے بال ہوں ، وہاں بالوں کا دھونا فرض ہے اور جہاں بال نہ ہوں ہا گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے ۔

مسئلہ :۔ نتھ یا بلاخ کا سوراخ اگر بند نہ ہوتو اس میں پانی بہانہ فرض ہے ، اگر تنگ ہے پانی ڈال کر نتھ یا بلاخ کو حرکت دے ، ورنہ ضروری نہیں ۔
مسئلہ:۔ آنکھوں کے ڈھیلے اور پٹپوں کی اندرونی سطح کا دھونا ضروری نہیں ہے بلکہ نہ چاہئے کہ بصارت کو مضر ہے ۔
مسئلہ :۔منہ دھوتے وقت آنکھیں زور سے بند کرنا کہ پلک کے متصل ایک خفیف سی لکیر بند ہوگئی اس پر پانی نہ بہا اور عادتاً بند کرنے سے ظاہر نہ ہو وضو ہوجائے گا ، مگر ایسا نہ کرنا چاہئے کیونکہ اگر کچھ زیادہ
دھلنے سے رہ گیا تو وضو نہ ہوگا ۔
مسئلہ :۔ آنکھ کی کویا پر پانی بہانا فرض ہے ، مگر سرمے کا جرم کویا یا پلک میں رہ گیا اور وضو کر لیا اطلاع نہ ہوئی نماز بھی پڑھ لی تو حرج نہیں ، نماز ہوگئی وضو بھی ہوگیا اگر معلوم ہے تو اس کو چھڑانا اور پانی بہانا ضروری ہے ۔
مسئلہ :۔ پلک کا ہر بال پورا دھونا فرض ہے اگر ان میں کوئی سخت چیز کیچڑ وغیرہ جم گئی تو اس کو چھڑانا فرض ہے ۔

دوسرا فرض ہاتھ دھونا

اس حکم مین کہنیاں بھی داخل ہیں ۔
مسئلہ :۔ اگر کہنیوں سے ناخن تک کوئی جگہ ذرا بھر بھی دھونے سے رہ گئی تو وضو نہ ہوگا ۔
مسئلہ :۔ ہر قسم کے جائز ناجائز گہنے ، چھلے ، انگوٹھیاں ، پونچیاں ، کنگن کانچ ، لاکھ وغیرہ کی چوڑیاں ریشم کے لچھے وغیرہ اتنے تنگ ہوں کہ نیچے پانی نہ بہے تو ان سب کو اتار کر دھونا فرض ہے ، اگر صرف ہلا کر دھونے سے پانی بہہ جائے تو حرکت دینا ضروری ہے ، اگر ڈھیلے ہوں کہ بلا حرکت نیچے پانی بہہ جائے گا حرکت دینے کی ضرورت نہیں ۔
مسئلہ :۔ ہاتھوں کی جملہ آٹھوں کھائیاں ، انگلیوں کے کروٹیں ، ناخن کے اندر جو جگہ خالی ہے ، کلائی کا بال ، جڑ سے نوک تک ان سب پر پانی بہہ جانا ضروری ہے ، اگر کچھ بھی رہ گیا تو وضو نہ ہوگا ، مگر ناخنوں کے اندر کا میل معاف ہے ۔
مسئلہ :۔ بجائے پانی کے چھ انگلیاں ہیں تو سب کا دھونا فرض ہے ، اگر ایک مونڈھے سے دو ہاتھ نکلیں تو جو پورا ہے اس کا دھونا فرض ہے ، اور اس کے دوسرے کا دھونا مستحب ہے مگر اس کا وہ حصہ کہ اس ہاتھ کے وضع فرض کے متقل ہے اتنے کا دھونا فرض ہے ۔

تیسرا فرض سر کا مسح کرنا

سر کا مسح چوتھائی فرض ہے ۔
مسئلہ :۔ مسح کرنے کے لئے ہاتھ پر تری ہونا چاہئے خواہ ہاتھ میں تری اعضاء کے دھونے کے بعد رہ گئی ہو یا نئے پانی سے تر کر لیا ہو ۔
مسئلہ :۔ سر پر بال نہ ہوں تو جلد کے چوتھائی حصہ کا مسح کرنا فرض ہے ، اور بال ہوں تو خاص سر کے بالوں کی چوتھائی کا مسح فرض ہے ، اور سرکا مسح اسی کو کہتے ہیں ۔
مسئلہ :۔ عمامہ ، ٹوپی، اور دوپٹہ پر مسح جائز نہیں ، ہاں ٹوپی اور دوپٹہ اتنی باریک ہو کہ تری پھوٹ کر سر کے چوتھائی حصہ کو تر کرے تو مسح ہاجائے گا ۔
مسئلہ :۔ سر کے جو بال لٹک رہے ہوں ان پر مسح کرنے سے مسح نہ ہوگا ۔

چوتھا فرض ، پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا

مسئلہ :۔ پاؤں کو ٹخنوں سمیت ایک بار دھونا فرض ہے ۔

مسئلہ :۔ گہنے اور چھلے پاؤں کے وہی حکم رکھتے ہیں جو ہاتھوں کے بیان میں گذرا ۔

مسئلہ :۔ بعض لوگ کسی بیماری کی وجہ پاؤ ں کے انگوٹھوں میں اس قدر کھینچ کر دھاگا باندھ دیتے ہیں کہ پانی کا بہنا تو درکنار دھاگے کے نیچے بھی تری نہیں پہنچتی ، ان کو اس سے بچنا لازمی ہے کہ اس صورت میں وضو نہیں ہوتا ۔
مسئلہ :۔ کھائیاں انگلیوں کی کروٹیں ، تلوے ، ایڑیاں کاپین سب دھونا فرض ہے ، ان پر پانی بہہ جانا شرط ہے یعنی فرض ہے ۔
مسئلہ :۔ جس اعضاء کا دھونا فرض ہے ان پر پانی بہہ جانا شرط ہے خواہ قصداً ہو یا بلا قصد۔
مسئلہ :۔ جس چیز کی آدمی کو عموماً خصوصاً ضرورت پڑتی ہے ، اس کی نگاہ داشت اور احتیاط میں حرج ہوتاہے ، ناخنوں کے اندر یا اوپر یا اور کسی دھونے کی جگہ پر اس کے لگے رہنے سے اگر چہ مدار ہو ، اگر اس کے نیچے چیز سخت کیوں نہ ہو وضو ہوجائے گا ، مثلاً رنگ ریز کے ہاتھوں پر رنگ کا جرم ، عورتوں کے لئے مہندی کا جرم ، گوندھنے والی کے لئے آٹے کا جرم ، لکھنیوالے کے ہاتھ پر روشنائی کا جرم ، مزدور کے لئے غارا ، مٹی کا ، عوام کے کویا اور پلک  میں سرمہ کا جرم ، اسی طرح مٹی ، غبار ، مکھی ، مچھر کی بیٹ وغیرہ کا
جرم رہنے سے کچھ حرج نہیں ۔
مسئلہ :۔ کسی جگہ چھالاہو اور سوکھ بھی گیاہو ، مگر اس پر سے کھال ابھی جدا نہیں ہوئی ہو تو کھال جدا کر کے پانی بہانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسی چھالے کی کھال پر پانی بہا دینا کافی ہے ، پھر اگر اس کو جدا کر دیا گیا تو اس پر پانی بہا دینا ضروری نہیں ۔
اب مناسب معلوم ہوتاہے کہ فضائل وضو کے متعلق چند احادیث نبوی ذکر کئے جائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن میری امت اس حالت میں بلائی جائے گی کہ منہ ، ہاتھ اور پاؤں آثار وضو سے چمکتے ہوں گے ، تو جس سے ہودکے چمک زیادہ کریں ( بخاری ، مسلم )یعنی ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا فرض ہے ،
مگر چمک زیادہ کرنے کے لئے آدھی بازو تک دھونا مستحب ہے اور پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا فرض ہے ، مگر چمک زیادہ کرنے کے لئے آدھی پنڈلی تک دھونا مستحب ہے ، صحابی کرام سے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس کے سبب اللہ تبارک و تعالیٰ خطائیں مٹا دے، اور درجات بلند کرے ، صحابہ کرام نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم ، نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے فرمایا: جس وقت وضو کرنا ناگوار ہوتاہے اس وقت وضو کامل کرنا اور مسجدوں کی طرف قدموں کی کثرت کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ، اس کا ثواب ایسا ہے جیسا کفار کے سرحد پر حمایت بلا و اسلام کے لئے گھوڑا باندھنے کا ہے یعنی جہاد کا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم فرماتے ہیں : کہ مسلمان بندہ جب وضو کرتا ہے تو کلّی کرنے سے منہ کے گناہ گر جاتے ہیں ، جب ناک میں پانی ڈال کر صاف کیا تو ناک کے گناہ نکل گئے ، اور جب منہ دھوتا ہے تو منہ کے گناہ نکل جاتے ہیں ،
یہاں تک کہ اس کے بھوؤں سے بھی نکل گئے ، پھر جب ہاتھ دھوئے تو ہاتھوں کے گناہ نکل گئے ، یہاں تک کہ ناخنوں سے بھی نکل گئے ، اور جب سر کا مسح کیا سر کے گنا نکل گئے ، یہاں تک کہ کانوں سے بھی نکل گئے ، جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے خطائیں نکلیں ، یہاں تک کہ ناخنوں سے بھی نکلیں ، پھر اس کا مسجد کوجانا اور نماز پڑھنا اس پر زیادہ ہے ۔ ( موطا اور نسائی )۔
بزاز نے روایت کی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام ہمران کو حکم دیا وضو کے
لئے پانی لانے کا اور سردی کے رات میں باہر جانا چاہتے تھے ،
ہمران کہتے ہیں میں پانی لایا ، انہوں نے منہ اور ہاتھ دھوئے ، میں نے کہا اللہ آپ کو کفایت کرے رات بہت ٹھنڈی ہے ، اس پر انہوں نے ارشاد فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو بندہ وضو کامل کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتاہے ، طبرانی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے جو سخت سردی میں کامل وضو کرتاہے اس کے لئے دگنا ثواب ہے ،
مسلم شریف میں ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے جو مسلمان وضو کرے اور اچھا وضو کرے ، پھر کھڑا ہو اور باطن اور ظاہر سے متوجہ ہو کر دو رکعت نماز پڑھے ، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ، اس نماز کانام ہے ،’’ تحیۃ الوضو ‘‘ کہتے ہیں اس کے کم رکعتیں دو ، چار اور چھ سے زیادہ بھی آیا ہے ، مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جوکوئی وضو کرے اور کامل وضو کرے پھر پڑھے ،
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھدن محمد عبد ورسولہ ۔
یعنی ، اشھد ، گواہی دے رہا ہوں میں ، لا الٰہ ، کوئی معبودنہیں ، عبادت کے لائق ، الا اللہ ، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ، وحدہٗ ، اکیلا ہے ، لاشریک لہٗ ، اس کا کوئی شریک نہیں ، وشھدان محمد عبدہٗ ورسولہٗ ، اور گواہی دے رہا ہوں میں محمد صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ کا بندہ اور اس کے رسول ہیں ، یعنی بھیجا ہوا ، اس کے کئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئے جاتے ہیں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ،
ترمذی شریف میں ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے جو شخص وضو پر وضو کرے ، اس کے لئے دس نیکیاں لکھے جائیں گے ابن خزیمہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم ایک دن صبح کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا : اے بلال کس عمل کے سبب سے جنت میں تو مجھ سے آگے آگے جارہا تھا ؟ میں رات جنت میں گیا تیرے پاؤں کی آہٹ اپنے آگے پائی ،
بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم میں جب اذان کہتا ہوں تو اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھ لیتا ، اور میرا جب وضو ٹوٹتاہے تو وضو کر لیتا ، حضور صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے فرمایا : اسی سبب سے ، دارتقطنی اور بیہقی میں ہے ،
حضور صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے فرمایا جس نے بسم اللہ کہہ کر وضو کیا ، سر سے
پاؤں تک اس کا سارا بدن پاک ہوگیا ، اور جس نے بغیر بسم اللہ کہے وضو کیا اس کااتنا ہی بدن پاک ہوگا جتنے پر پانی بہایا گیا ۔
ترمذی شریف میں ہے م نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے فرمایا: جس نے بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا ، یعنی وہ وضو کامل نہیں ، مذکورہ بالا حدیث اس کی وجہ ذکر ہوچکی ، مسلم شریف میں ہے ، فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے جب کوئی نیند سے بیدار ہوتو وضو کرے ، اور تین بار ناک صاف کرے کہ شیطان اس کے نتھے پر رات گذارتا ہے ،
طبرانی میں ہے کہ فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری امت پر شاق گذرے گا تو میں ہر وضو لے ساتھ مسواک کرنے اک امر فرمادیتاہے ، یعنی فرض کردیتا ، اور بعض روایتوں میں لفظ فرض بھی آیا ہے ، طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم کسی نماز کے لئے تشریف نہیں لے جاتے تاوقت کہ مسواک نہ کرتے ۔مسند امام احمد حنبل میں ہے ، کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے کہ مسواک کا التزام رکھو کہ وہ سبب ہے منہ کی صفائی کا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کا ، ابو نعیم میں ہے کہ فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے کہ دو رکعتیں جو مسواک کرکے پڑھیں افضل ہے بے مسواک کے ستّر رکعتوں سے ، اور ایک روایت میں ہے ، جونماز مسوال کرکے پڑھی جائے ، وہ اس نماز سے کہ بے مسواک پڑھی گئی ستّر حصے افضل ہے ، مشکوٰۃ شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ دس چیزیں فطرت سے ہیں یعنی ان کا حکم ہر شریعت سابقہ میں تھا ، مونچھوں کو کترانا داڑھی بڑھانا ، کلی کرنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا ، ناخن تراشنا انگلیوں کی چھینیں دھونا ، بغلوں کے بال دور کرنا ، مؤز زیر ناف مونڈھنا ، استنجا کرنا ،
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ فریاما نبی کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے جب بندہ مسواک کرلیتا پھر نماز کو کھڑا ہوتا تو فرشتہ اس کے پیچھے کھڑا ہوتا ، اس کی قرأت سنتا پھر اس کے قریب ہوتا یہاں تک کہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ، مشائخ کرام فرماتے ہیں جو شخص مسواک کا عادی ہومرتے وقت اس کو کلمہ شریف پڑھنا نصیب ہوگا ، اور جوافیون کھاتا ہو، مرتے وقت اس کو کلمۂ شریف پڑھنا نصیب نہ ہوگا ۔

نوٹ
ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ مرد ہو یا عورت کہ ان مسائل کو یاد کریں ، وضو کے فرائض بیان ہوچکے ہیں ، اب آئندہ سنت وغیرہ کا بیان ہوگا، فرض کی تعریف یاد کریں کہ فرض کس کو کہتے ہیں اور ان کی تعداد بھی تاکہ عبادت کامل ہاجائے ، اور پورے مسلمان بن جائیں ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!