islamنعتیہ ادبی
فیاضؔ بلگوڈی کی نعتیہ شاعری
فیاضؔ بلگوڈی کی نعتیہ شاعری
ڈاکٹرغلام ربانی فداؔ
مولاناقاضی عبدالقادر فیاض بلگوڈی اپنے وقت کے معتبر عالم دین تھے۔ آپ نے مذہبی کتب کی تصنیف فرمائے۔ آپ حضرت شاہ جماعت سے شرف بیعت رکھتے تھے۔ اور دارالعلوم شاہ جماعت کے آر پورم ہاسن کے مہتمم بھی مقرر ہوئے۔ تفصیلی تعارف تلاش وبسیار کے باوجود بھی حاصل نہ ہوسکا۔ ناچیز اسی بہانے ہاسن وبلگوڈ کاسفر بھی کیا ۔
م پ راہی فیاض بلگوڈی رقمطراز ہیں۔
آپ کا پورا نام قاضی عبدالقادر تھا ۔ فیاض تلخص فرمایا ۔ جائے پیدائش کی نسبت سے فیاض بلگوڑی کے نام سے مشہور ہوئے اور’ شاعر ملناڈ ‘ کا خطاب پایا ۔ آپ اس ضلع کے سکلیشپور تعلقہ کے ایک چھوٹے سے قصبے بلگوڑ میں پیدا ہوئے ۔ شہر کی میونسپل ہائی اسکول میں عرصے تک اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور یہاں سے سبکدوش ہوکر اپنے گاؤں لوٹ گئے اور باقی عمر اردو کی زلفیں سنوارنے میں گزار دی ۔
آپ ایک کہنے مشق اور استاد شاعر تھے ۔ آپ نے کم وبیش تمام قدیم اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگر نعت گوئی سے انہیں ایک خاص شغف رہا ۔ حضور ﷺ سے غیر معمولی عشق تھا ۔ حب رسول ﷺ ان کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا ۔ انہوں نے عشق رسول ﷺ ہی کو زندگی کا حصول سمجھا لہٰذا آگے چل کر مستقل طور پر نعت گوئی ہی اپنا وظیفہ بنالیا ۔
آپ نے حج بیت اللہ کے موقع پر مدینہ شریف میں بے شمار نعتیہ کلام تحریر فرمائے۔
فیاض بلگوڈی کرناٹک کے وہ خوش قسمت شاعر جنہیں مدینۃ الرسولﷺ کے محافل میں اپنا کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جنہیں بھارت اور پاکستان کے بیت سے حاجیوں نے انہیں سنا اورآپ کاکلام ٹیپ کر کے لے گیے۔قیام مدینہ کے دوران جو واقعات پیش آئے تھے انہیں اپنے اشعار میں مبہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہیں ۔ اورشہررسول ﷺمیں قطبِ مدینہ حضرت ضیاء الدین مدنی کی صحبت بابرکت حاصل رہی۔
دو مرتبہ حج کی سعادت سے مشرف ہوئے ۔ آپ کو نعتوں اور سلاموں کا مجموعہ ’’ حرم کا تحفہ ‘‘ کے نام سے بہت پہلے ہی زیور طباعت سے آراستہ ہو کر ادبی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکا ہے ۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ اس خطے اور اس ضلع کے پہلے صاحب ِمجموعہ شاعر تھے ، جنہوں نے نعت گوئی کو محض ایک صنف کے نہیں بلکہ ایک فن کی حیثیت سے اختیار کیا تھا ۔ یہی بات ہے کہ ان کی نعتوں میں بلا کی سر شاری اور والہانہ پن پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرا ن کے یہ نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
تو حسیں حسیں گلوں میں توہے نس بہ نس کلی میں
تو جمیل خلوتوں میں کہاں رونما نہیں ہے
مراسر ہو تیرے درپر میں اٹھوں وہاں سے مرکر
بجز اسکے زندگی کا کوئی مدعا نہیں ہے
محمدکے دامن میںدنیا بھی دیں بھی محمد ہیں قندیل راہ یقیں بھی
زمیں آسماں اس کی عظمت کے قائل
محمد کے دربان روح امیں بھی
پلادے ساقیا بھر بھر کے پیمانہ محمد کا
زمانے بھر میں کہلاؤں میں مستانہ محمد کا
لڑکپن ہی سے انہیں نعت خوانی کاشوق رہا ،ابتدا میں حضرت محسن کاکوروی ، امیر مینائی ، امجدحیدرآبادی زائرحرم حمیدصدیقی اور ماہرالقادری کوبہت پڑھا ہے اوراس دورمیں بارہ ربیع الاول کوانہیں نعت خوانی کی مجلسوں میں شریک ہونے اوراپنی لحنِ داؤڈی سے محفلوں کومسحورکرنے موقعہ ملتارہاوراسی زمانہ کی بات ہے کہ طبیعت شعرکہنے کی طرف مائل ہوئی۔
فیاض اس نصیب پہ رشک آئے پھر نہ کیوں
عشقِ رسول نے تجھے شاعر بنا دیا
عرب کو لے کر میں کیا کروں گا عدن کولے کرمیںکیا کروں گا
نہیں ہے خود رغبتِ چمن جب چمن کو لے کرمیںکیا کروں گا
کمال جب ہے کلامِ فیاضؔ سے ہو بیدار روحِ ملت
مرے محبو کے خشک دادِ سخن کو لے کر میں کیا کروں گا
فیاض بلگوڈی کی نعتیہ شاعری