ومان الہ الا الہ واحد
وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا إِلَهٌ وَاحِدٌ
اللہ کریم جل وعلا اپنے پیاروں کو عظمتوں سے ضرور نوازتا ہے لیکن الوہیت ایسی صفت ہرگز نہیں کہ مخلوق میں سے کسی کے لیے ثابت ہو سکے۔ لیکن موجودہ عیسائیت کے اکثر فرقے حضرت سیدنا عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے لیے الوہیت کی صفت مانتے ہیں ، حتی کہ:
آریوسیت (Arianism) جو پادری آریوس (250-336) کے نظریات کے ماننے والوں کا مسیحی فرقہ ہے ، چونکہ آریوسی عقیدہ کے مطابق “حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کامل مخلوق ہیں ، خدا کے جوہر سے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ پیدا ہوتے ، وہ موجود نہیں تھے” اس عقیدہ کی بنیاد پر اس فرقہ کو پہلی نیقیہ کونسل میں بدعتی عقیدہ قرار دے دیا گيا۔
گو اس وقت بھی ایسے مسیحی فرقے موجود ہیں جو سیدنا عیسی علی نبینا وعلیہ السلام کی الوہیت کے قائل نہیں ، جیسے: یہوواہ کے گواہ (Jehovah’s Witnesses)۔ اور توحیدیت (Unitarianism) میں بھی حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو الہ کا درجہ نہیں دیا جاتا ، لیکن ایسے فرقے حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو خدا ماننے والوں کے مقابلے میں انتہائی معمولی حیثیت کے حامل ہیں۔ جبکہ رومی کاتھولک کلیسا ، راسخُ الا عتقاد کلیسا (Orthodox Church) ، اورینٹل راسخ الاعتقادی ، پروٹسٹنٹ کلیسا (Protestantism) میں سے ہر ایک طبیعتِ مسیح سے متعلق تعبیری اختلاف کے باوجود کسی نہ کسی صورت تثلیث کے قائل ضرور ہیں۔
اسکندریہ کے قبطی راسخُ الا عتقاد کلیسا (Coptic Orthodox Church of Alexandria) کی تعبیر کے مطابق :
حضرت عیسی اپنے لاہوت وناسوت دونوں میں ہی کامل تھے ، لیکن اس کے باوجود یہ کہنے کی جرات نہیں کی جاتی کہ آپ: ایک ہی وقت میں خدا اور انسان تھے۔ کیونکہ اس تعبیر میں لاہوت وناسوت میں جدائی کا شائبہ ہے۔ بلکہ یوں کہا جاتا ہے: “مجسم خدا” اور حضرت عیسی کے حق میں لاہوت وناسوت میں جوہر ، اقنوم ، طبیعت میں اتحاد تام مانا جاتا ہے ، اور آپ کے حق میں لاہوت وناسوت میں کسی قسم کا افتراق وانفصال نہیں مانا جاتا۔ بلکہ جب کلمۃ اللہ نے سیدہ مریم کے رحم میں حلول کیا تو ثالوث اقدس کے اقنومِ دوم نے سیدہ مریم کے خون سے انسانی نفس والا ناطق وعاقل انسانی جسم پکڑا اور اس ناسوت کے ساتھ متحد ہو گیا۔ پس سیدہ مریم سے پیدا ہونے والا “مجسم خدا” تھا جو ایک جوہر ، ایک شخص ، ایک اقنوم ، ایک طبیعت ، یا یوں کہیئے کہ: دو طبیعتوں سے ایک طبیعت۔ اور یوں بھی کہا جاتا ہے کہ: اتحاد کی تمامیت سے پہلے دو طبیعتوں کے بارے میں گفتگو کی جا سکتی تھی لیکن اتحاد کے بعد صرف ایک طبیعت ہے جس کے لیے دو طبیعتوں کی صفات وخصائص ہیں۔ لیکن اس اتحاد میں اختلاط ، امتزاج یا تغییر کچھ بھی موجود نہیں۔
(ماخوذ از طبیعۃ المسیح از ایچ ایچ پوپ شنودہ سوم)
اوطاخی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے طبیعتِ واحدہ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اس معنی میں کہ ناسوت مکمل طور پر لاہوت میں فنا ہو گیا ، اس میں مختلط ومنعدم ہو کر رہ گیا۔
(حوالہ)
گوقرآنِ عظیم نے جابجا اس عقیدے کی مذمت فرمائی ، لیکن مسیحی اپنے اس نظریے پر عقلی ونقلی کسی قسم کی دلیل نہ ہونے کے باوجود قرآنِ عظیم کی بات ماننے کے لیے کسی صورت تیار نظر نہیں آتے ، اس لیے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ مسیحیوں کی نظر میں مقدس کتاب ہی سے چند جملے نظرِ قارئین کیے جائیں ، ممکن ہے کہ حق کے متلاشیوں کے لیے چراغِ راہ کا کام دیں اور حق کی وضاحت کا ذریعہ بنیں۔
اس سلسلے میں ہم نے “انجیلِ متی” ، “انجیلِ لوقا” اور “انجیلِ مرقس” جنہیں اناجیلِ متوافقہ بھی کہا جاتا ہے ، ان کی چند عبارات کا انتخاب کیا ، گو اس سلسلے میں سینکڑوں جملے تحریر کیے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت اختصار مطلوب ہے لہذا چند مثالوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
1. انجیلِ متی میں حضرت عیسی علیہ السلام کی آزمائش کے بارے میں کہا جاتا ہے:
پھر روح القدس عیسیٰ کو ریگستان میں لے گیا تاکہ اُسے ابلیس سے آزمایا جائے۔ چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھنے کے بعد اُسے آخرکار بھوک لگی۔ پھر آزمانے والا اُس کے پاس آ کر کہنے لگا، ”اگر تُو اللہ کا فرزند ہے تو اِن پتھروں کو حکم دے کہ روٹی بن جائیں۔“
لیکن عیسیٰ نے انکار کر کے کہا، ”ہرگز نہیں، کیونکہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے کہ انسان کی زندگی صرف روٹی پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ ہر اُس بات پر جو رب کے منہ سے نکلتی ہے۔“
اِس پر ابلیس نے اُسے مُقدّس شہر یروشلم لے جا کر بیت المُقدّس کی سب سے اونچی جگہ پر کھڑا کیا اور کہا،”اگر تُو اللہ کا فرزند ہے تو یہاں سے چھلانگ لگا دے۔ کیونکہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ’وہ تیری خاطر اپنے فرشتوں کو حکم دے گا، اور وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے تاکہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس نہ لگے‘۔“
لیکن عیسیٰ نے جواب دیا، ”کلامِ مُقدّس یہ بھی فرماتا ہے، ’رب اپنے خدا کو نہ آزمانا‘۔“
پھر ابلیس نے اُسے ایک نہایت اونچے پہاڑ پر لے جا کر اُسے دنیا کے تمام ممالک اور اُن کی شان و شوکت دکھائی۔ وہ بولا، ”یہ سب کچھ مَیں تجھے دے دوں گا، شرط یہ ہے کہ تُو گر کر مجھے سجدہ کرے۔“
لیکن عیسیٰ نے تیسری بار انکار کیا اور کہا، ”ابلیس، دفع ہو جا! کیونکہ کلامِ مُقدّس میں یوں لکھا ہے، ’رب اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر‘۔“
اِس پر ابلیس اُسے چھوڑ کر چلا گیا اور فرشتے آ کر اُس کی خدمت کرنے لگے۔
(متی 4: 1-11)
انجیلِ لوقا کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
عیسیٰ دریائے یردن سے واپس آیا۔ وہ روح القدس سے معمور تھا جس نے اُسے ریگستان میں لا کر اُس کی راہنمائی کی۔ وہاں اُسے چالیس دن تک ابلیس سے آزمایا گیا۔ اِس پورے عرصے میں اُس نے کچھ نہ کھایا۔ آخرکار اُسے بھوک لگی۔
پھر ابلیس نے اُس سے کہا، ”اگر تُو اللہ کا فرزند ہے تو اِس پتھر کو حکم دے کہ روٹی بن جائے۔“
لیکن عیسیٰ نے انکار کر کے کہا، ”ہرگز نہیں، کیونکہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے کہ انسان کی زندگی صرف روٹی پر منحصر نہیں ہوتی۔“
اِس پر ابلیس نے اُسے کسی بلند جگہ پر لے جا کر ایک لمحے میں دنیا کے تمام ممالک دکھائے۔ وہ بولا، ”مَیں تجھے اِن ممالک کی شان و شوکت اور اِن پر تمام اختیار دوں گا۔ کیونکہ یہ میرے سپرد کئے گئے ہیں اور جسے چاہوں دے سکتا ہوں۔ لہٰذا یہ سب کچھ تیرا ہی ہو گا۔ شرط یہ ہے کہ تُو مجھے سجدہ کرے۔“
لیکن عیسیٰ نے جواب دیا، ”ہرگز نہیں، کیونکہ کلامِ مُقدّس میں یوں لکھا ہے، ’رب اپنے اللہ کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر‘۔“
پھر ابلیس نے اُسے یروشلم لے جا کر بیت المُقدّس کی سب سے اونچی جگہ پر کھڑا کیا اور کہا، ”اگر تُو اللہ کا فرزند ہے تو یہاں سے چھلانگ لگا دے۔ کیونکہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، ’وہ اپنے فرشتوں کو تیری حفاظت کرنے کا حکم دے گا، اور وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے تاکہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس نہ لگے‘۔“
لیکن عیسیٰ نے تیسری بار انکار کیا اور کہا، ”کلامِ مُقدّس یہ بھی فرماتا ہے، ’رب اپنے اللہ کو نہ آزمانا‘۔“
اِن آزمائشوں کے بعد ابلیس نے عیسیٰ کو کچھ دیر کے لئے چھوڑ دیا۔
(لوقا 4: 1-13)
تبصرہ:
یہ آیات بتا رہی ہیں کہ شیطان نے سیدنا عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو بہکانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگر عیسائیوں کے بقول حضرت عیسی کو خدا مان لیا جائے تو کیا شیطان “خدا کو بہکانے کی کوشش کرتا رہا؟؟؟” کیا شیطان اس قدر طاقت پا چکا ہے کہ وہ رب کریم کی ذاتِ عالیہ پہ طبع آزمائی پہ اتر آئے گا؟ اور پھر عجیب بات نہیں کہ شیطان کہہ رہا ہے “یہ سب کچھ مَیں تجھے دے دوں گا، شرط یہ ہے کہ تُو گر کر مجھے سجدہ کرے۔” کیا ساری کائنات اللہ کی نہیں کہ شیطان ان ممالک کا لالچ دے کر اللہ سے کہے گا کہ مجھے سجدہ کر؟؟؟
اور پھر جواب میں حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام اس کا رد کرتے ہیں اور عہدِ قدیم کے حوالے دیتے ہیں ، کبھی فرماتے ہیں ” انسان کی زندگی صرف روٹی پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ ہر اُس بات پر جو رب کے منہ سے نکلتی ہے” ، کبھی کہتے ہیں: ” کلامِ مُقدّس یہ بھی فرماتا ہے، ’رب اپنے خدا کو نہ آزمانا ” اور کبھی یوں گویا ہوتے ہیں: “کلامِ مُقدّس میں یوں لکھا ہے، ’رب اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر ”
اگر بقولِ نصاری حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام خود خدا ہیں تو جوابی طور پر کس کے منہ سے نکلنے والی بات ، کس کو آزمانے اور کس کو سجدہ کرنے کی بات کر رہے ہیں؟ معمولی سی عقل رکھنے والا بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان جملوں میں حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام اپنی یا اپنی ذات میں حلول شدہ لاہوت کی بات کر رہے ہیں ، بلکہ قطعا یقینا کسی اور ذات کی بات کر رہے ہیں جو در حقیقت اپنے آپ سے الوہیت کی نفی ہے۔ وللہ الواحد الحمد
2. حضرت عیسی عبادت میں مصروف:
انجیلِ متی میں ہے:
اُس وقت عیسیٰ نے کہا، ”اے باپ، آسمان و زمین کے مالک! مَیں تیری تمجید کرتا ہوں کہ تُو نے یہ باتیں داناؤں اور عقل مندوں سے چھپا کر چھوٹے بچوں پر ظاہر کر دی ہیں۔ (متی 11: 25)
انجیلِ لوقا میں ہے:
اُن ہی دنوں میں عیسیٰ نکل کر دعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ دعا کرتے کرتے پوری رات گزر گئی۔
(لوقا 6: 12)
اسی میں ہے:
اُسی وقت عیسیٰ روح القدس میں خوشی منانے لگا۔ اُس نے کہا، ”اے باپ، آسمان و زمین کے مالک! مَیں تیری تمجید کرتا ہوں کہ تُو نے یہ بات داناؤں اور عقل مندوں سے چھپا کر چھوٹے بچوں پر ظاہر کر دی ہے۔ ہاں میرے باپ، کیونکہ یہی تجھے پسند آیا۔
(لوقا 10: 21)
انجیلِ مرقس میں ہے:
اُنہیں خیرباد کہنے کے بعد وہ دعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔
(مرقس 6: 46)
تبصرہ:
کوئی بھی شخص “خدا” کا تصور کرے اور پھر سوچے کہ خدا نماز پڑھ رہا ہے یا دعا کر رہا ہے۔۔۔ اسی حالت میں ساری ساری رات گزر جاتی ہے۔۔۔ یہ سوچ کر ہی انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جائے گا کہ یہ نماز کس کے لیے پڑھی جا رہی ہے یا دعا کس سے کی جا رہی ہے؟؟؟ اگر بقولِ نصاری حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام خدا تھے تو کیا اپنے آپ سے دعائیں مانگ رہے تھے؟؟؟
بلا شبہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ونماز اپنے لیے نہ تھی بلکہ اس ذاتِ عالیہ کے لیے تھی جو اس کائنات کا خالق ومالک واحد قہار جل وعلا ہے۔
3. حضرت عیسی کا گستاخ قابلِ معافی جبکہ روح القدس کا گستاخ قابلِ معافی نہیں!!!
انجیلِ متی میں ہے:
جو ابنِ آدم کے خلاف بات کرے اُسے معاف کیا جا سکے گا ، لیکن جو روح القدس کے خلاف بات کرے اُسے نہ اِس جہان میں اور نہ آنے والے جہان میں معاف کیا جائے گا۔
(متی 12: 32)
انیلِت مرقس کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ لوگوں کے تمام گناہ اور کفر کی باتیں معاف کی جا سکیں گی، خواہ وہ کتنا ہی کفر کیوں نہ بکیں۔ لیکن جو روح القدس کے خلاف کفر بکے اُسے ابد تک معافی نہیں ملے گی۔ وہ ایک ابدی گناہ کا قصوروار ٹھہرے گا۔“ عیسیٰ نے یہ اِس لئے کہا کیونکہ عالِم کہہ رہے تھے کہ وہ کسی بدروح کی گرفت میں ہے۔ (مرقس 3: 28-30)
انجیلِ لوقا کے الفاظ بھی انجیلِ متی جیسے ہی ہیں:
اور جو بھی ابنِ آدم کے خلاف بات کرے اُسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو روح القدس کے خلاف کفر بکے اُسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
(لوقا 12- 10)
تبصرہ:
عیسائیوں کے نزدیک روح القدس بھی خدا ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ حضرت عیسی کی گستاخی قابلِ معافی جبکہ جنابِ روح القدس کی گستاخی ناقابلِ معافی؟ کیا یہ کھلے لفظوں میں اعلان نہیں کہ جنابِ روح القدس اور حضرت عیسی الگ الگ شخصیات اور ان کے الگ الگ منصب وحیثیتیں ہیں؟ لہذا جو جنابِ روح القدس کی گستاخی کا مرتکب ہو گا اس کی سزا جنابِ روح القدس کے منصب کے لحاظ سے ہو گی اور جو حضرت عیسی کی گستاخی کرے گا اس کی سزا حضرت عیسی کے منصب کے اعتبار سے ہو گی۔۔۔!!!
4. پطرس کی فہمائش:
انجیلِ متی میں ہے:
اِس پر پطرس اُسے ایک طرف لے جا کر سمجھانے لگا۔ ”اے خداوند، اللہ نہ کرے کہ یہ کبھی بھی آپ کے ساتھ ہو۔“
عیسیٰ نے مُڑ کر پطرس سے کہا، ”شیطان، میرے سامنے سے ہٹ جا! تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے، کیونکہ تُو اللہ کی سوچ نہیں رکھتا بلکہ انسان کی۔“ (متی 16: 22-23)
انجیلِ مرقس میں ہے:
اُس نے اُنہیں یہ بات صاف صاف بتائی۔ اِس پر پطرس اُسے ایک طرف لے جا کر سمجھانے لگا۔ عیسیٰ مُڑ کر شاگردوں کی طرف دیکھنے لگا۔ اُس نے پطرس کو ڈانٹا، ”شیطان، میرے سامنے سے ہٹ جا! تُو اللہ کی سوچ نہیں رکھتا بلکہ انسان کی۔“
(مرقس 8: 32-33)
تبصرہ:
اگر پطرس کی نگاہ میں حضرت عیسی خدا تھے تو کیا پطرس حضرت عیسی کو سمجھانے کی جرات کر سکتے تھے؟ کیا کوئی ایمان دار اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ کسی بات کی خدا تعالی جل وعلا کو سمجھ نہ ہو اور ایک عام انسان اسے سمجھائے؟
نیز جواب میں حضرت عیسی کا فرمانا: ” تُو اللہ کی سوچ نہیں رکھتا” ، یہاں حضرت عیسی کس اللہ کی بات کر رہے ہیں جس کی رضا جوئی کے لیے وہ خود کوشاں ہیں؟ کیا اپنے آپ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ یا اپنے اندر حلول کیے ہوئے لاہوت کی طرف؟ معمولی سی عقل رکھنے والا بھی یقینِ کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہاں حضرت عیسی کا اشارہ اللہ واحد قہار جل وعلا کی جانب ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔۔۔ پھر عیسائی کس بنیاد پر حضرت عیسی کے لیے الوہیت کا دعوی کر سکتے ہیں؟
5. نیک صرف اللہ ہے:
ایک شخص نے دورانِ سوال حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو “نیک” کہہ دیا تو حضرت عیسی نے اسے ایسا کہنے سے روکا۔ انجیلِ لوقا کی عبارت ملاحظہ ہو:
کسی راہنما نے اُس سے پوچھا، ”نیک اُستاد، مَیں کیا کروں تاکہ میراث میں ابدی زندگی پاؤں؟“
عیسیٰ نے جواب دیا، ”تُو مجھے نیک کیوں کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں سوائے ایک کے اور وہ ہے اللہ۔ 20تُو شریعت کے احکام سے تو واقف ہے کہ زنا نہ کرنا، قتل نہ کرنا، چوری نہ کرنا، جھوٹی گواہی نہ دینا، اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔“
(لوقا 18: 18-20)
انجیلِ مرقس کے عبارت کچھ اس طرح ہے:
جب عیسیٰ روانہ ہونے لگا تو ایک آدمی دوڑ کر اُس کے پاس آیا اور اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر پوچھا، ”نیک اُستاد، مَیں کیا کروں تاکہ ابدی زندگی میراث میں پاؤں؟“
عیسیٰ نے پوچھا، ”تُو مجھے نیک کیوں کہتا ہے؟ کوئی نیک نہیں سوائے ایک کے اور وہ ہے اللہ۔ تُو شریعت کے احکام سے تو واقف ہے۔ قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا، چوری نہ کرنا، جھوٹی گواہی نہ دینا، دھوکا نہ دینا، اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔“
(مرقس 10: 17-19)
انجیلِ متی کے الفاظ قدرے مختلف ہیں:
پھر ایک آدمی عیسیٰ کے پاس آیا۔ اُس نے کہا، ”اُستاد، مَیں کون سا نیک کام کروں تاکہ ابدی زندگی مل جائے؟“
عیسیٰ نے جواب دیا، ”تُو مجھے نیکی کے بارے میں کیوں پوچھ رہا ہے؟ صرف ایک ہی نیک ہے۔ لیکن اگر تُو ابدی زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو احکام کے مطابق زندگی گزار۔“
آدمی نے پوچھا، ”کون سے احکام؟“
عیسیٰ نے جواب دیا، ”قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا، چوری نہ کرنا، جھوٹی گواہی نہ دینا،
(متی 19: 16-18)
تبصرہ:
جب سائل نے حضرت عیسی کو نیک کہا تو آپ نے اسے روک دیا اور فرمایا “نیک صرف اللہ واحد ہے” ، اگر بقولِ نصاری حضرت عیسی خدا ہیں تو اب “نیک” کہنے سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ اب تو “نیک” کا اطلاق ہونا چاہیے تھا!!!
اور فقط یہی نہیں ، بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی اس گفتگو میں حضرت عیسی کو خدا کہنے والوں کے لیے سخت تنبیہ بھی موجود ہے ، کیونکہ جب آپ علیہ السلام اللہ کریم جل وعلا کی صفات میں سے ایک صفت کی اپنی طرف نسبت کی اجازت نہیں دیتے تو کیا اللہ کی ذات کے ساتھ متحد کہنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟
6. میں کچھ نہیں کر سکتا:
یعقوب ویوحنا نے حضرت عیسی علیہ السلام سے ملکوت میں ایک خاص مقام کا سوال کیا تو جواب میں حضرت عیسی نے اپنے عجز کا اظہار فرمایا۔ انجیلِ متی میں ہے:
پھر زبدی کے بیٹوں یعقوب اور یوحنا کی ماں اپنے بیٹوں کو ساتھ لے کر عیسیٰ کے پاس آئی اور سجدہ کر کے کہا، ”آپ سے ایک گزارش ہے۔“
عیسیٰ نے پوچھا، ”تُو کیا چاہتی ہے؟“
اُس نے جواب دیا، ”اپنی بادشاہی میں میرے اِن بیٹوں میں سے ایک کو اپنے دائیں ہاتھ بیٹھنے دیں اور دوسرے کو بائیں ہاتھ۔“
عیسیٰ نے کہا، ”تم کو نہیں معلوم کہ کیا مانگ رہے ہو۔ کیا تم وہ پیالہ پی سکتے ہو جو مَیں پینے کو ہوں؟“
”جی، ہم پی سکتے ہیں،“ اُنہوں نے جواب دیا۔
پھر عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”تم میرا پیالہ تو ضرور پیو گے، لیکن یہ فیصلہ کرنا میرا کام نہیں کہ کون میرے دائیں ہاتھ بیٹھے گا اور کون بائیں ہاتھ۔ میرے باپ نے یہ مقام اُن ہی کے لئے تیار کیا ہے جن کو اُس نے خود مقرر کیا ہے۔“
(متی 20: 20-23)
انجیلِ مرقس میں ہے:
پھر زبدی کے بیٹے یعقوب اور یوحنا اُس کے پاس آئے۔ وہ کہنے لگے، ”اُستاد، آپ سے ایک گزارش ہے۔“
اُس نے پوچھا، ”تم کیا چاہتے ہو کہ مَیں تمہارے لئے کروں؟“
اُنہوں نے جواب دیا، ”جب آپ اپنے جلالی تخت پر بیٹھیں گے تو ہم میں سے ایک کو اپنے دائیں ہاتھ بیٹھنے دیں اور دوسرے کو بائیں ہاتھ۔“
عیسیٰ نے کہا، ”تم کو نہیں معلوم کہ کیا مانگ رہے ہو۔ کیا تم وہ پیالہ پی سکتے ہو جو مَیں پینے کو ہوں یا وہ بپتسمہ لے سکتے ہو جو مَیں لینے کو ہوں؟“
اُنہوں نے جواب دیا، ”جی، ہم کر سکتے ہیں۔“ پھر عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”تم ضرور وہ پیالہ پیو گے جو مَیں پینے کو ہوں اور وہ بپتسمہ لو گے جو مَیں لینے کو ہوں۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا میرا کام نہیں کہ کون میرے دائیں ہاتھ بیٹھے گا اور کون بائیں ہاتھ۔ اللہ نے یہ مقام صرف اُن ہی کے لئے تیار کیا ہے جن کو اُس نے خود مقرر کیا ہے۔“
(مرقس 10: 35-40)
تبصرہ:
اگر بقولِ نصاری حضرت عیسی خدا ہیں تو یعقوب ویوحنا کے جواب میں یہ اظہارِ عجز کیسا؟ اگر آپ خدا ہوتے تو جب وہ دونوں شرط پوری کرنے اور ذکر کردہ پیالہ پینے کو تیار ہو گئے تو حضرت عیسی انہیں وہ مقامِ مخصوص عطا فرما دیتے۔ لیکن حضرت عیسی جانتے تھے کہ وہ مقام اللہ کریم واحد قہار کے دستِ قدرت میں ہے ، وہ جسے دے اسی کو مل سکتا ہے ، اس لیے جواب میں فرمایا: “اللہ نے یہ مقام صرف اُن ہی کے لئے تیار کیا ہے جن کو اُس نے خود مقرر کیا ہے” کیا اب بھی کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ حضرت عیسی صرف نبی نہیں بلکہ خدا تھے؟؟؟
7. دل وجان سے اللہ سے محبت:
حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام سے سب سے بہتر عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جو جواب دیا ، اسے انجیلِ متی میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا:
جب فریسیوں نے سنا کہ عیسیٰ نے صدوقیوں کو لاجواب کر دیا ہے تو وہ جمع ہوئے۔ اُن میں سے ایک نے جو شریعت کا عالِم تھا اُسے پھنسانے کے لئے سوال کیا،”اُستاد، شریعت میں سب سے بڑا حکم کون سا ہے؟“
عیسیٰ نے جواب دیا، ”’رب اپنے خدا سے اپنے پورے دل، اپنی پوری جان اور اپنے پورے ذہن سے پیار کرنا۔‘ یہ اوّل اور سب سے بڑا حکم ہے۔ اور دوسرا حکم اِس کے برابر یہ ہے، ’اپنے پڑوسی سے ویسی محبت رکھنا جیسی تُو اپنے آپ سے رکھتا ہے۔‘ تمام شریعت اور نبیوں کی تعلیمات اِن دو احکام پر مبنی ہیں۔“
(متی 22: 34-40)
انجیلِ مرقس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
اِتنے میں شریعت کا ایک عالِم اُن کے پاس آیا۔ اُس نے اُنہیں بحث کرتے ہوئے سنا تھا اور جان لیا کہ عیسیٰ نے اچھا جواب دیا، اِس لئے اُس نے پوچھا، ”تمام احکام میں سے کون سا حکم سب سے اہم ہے؟“
عیسیٰ نے جواب دیا، ”اوّل حکم یہ ہے: ’سن اے اسرائیل! رب ہمارا خدا ایک ہی رب ہے۔ رب اپنے خدا سے اپنے پورے دل، اپنی پوری جان، اپنے پورے ذہن اور اپنی پوری طاقت سے پیار کرنا۔‘ دوسرا حکم یہ ہے: ’اپنے پڑوسی سے ویسی محبت رکھنا جیسی تُو اپنے آپ سے رکھتا ہے۔‘ دیگر کوئی بھی حکم اِن دو احکام سے اہم نہیں ہے۔“
اُس عالِم نے کہا، ”شاباش، اُستاد! آپ نے سچ کہا ہے کہ اللہ صرف ایک ہی ہے اور اُس کے سوا کوئی اَور نہیں ہے۔ ہمیں اُسے اپنے پورے دل، اپنے پورے ذہن اور اپنی پوری طاقت سے پیار کرنا چاہئے اور ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی سے ویسی محبت رکھنی چاہئے جیسی اپنے آپ سے رکھتے ہیں۔ یہ دو احکام بھسم ہونے والی تمام قربانیوں اور دیگر نذروں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔“
جب عیسیٰ نے اُس کا یہ جواب سنا تو اُس سے کہا، ”تُو اللہ کی بادشاہی سے دُور نہیں ہے۔“
اِس کے بعد کسی نے بھی اُس سے سوال پوچھنے کی جرأت نہ کی۔
(مرقس 12: 28-34)
انجیلِ لوقا کا بیان ملاحظہ ہو:
ایک موقع پر شریعت کا ایک عالِم عیسیٰ کو پھنسانے کی خاطر کھڑا ہوا۔ اُس نے پوچھا، ”اُستاد، مَیں کیا کیا کرنے سے میراث میں ابدی زندگی پا سکتا ہوں؟“
عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”شریعت میں کیا لکھا ہے؟ تُو اُس میں کیا پڑھتا ہے؟“
آدمی نے جواب دیا، ”’رب اپنے خدا سے اپنے پورے دل، اپنی پوری جان، اپنی پوری طاقت اور اپنے پورے ذہن سے پیار کرنا۔‘ اور ’اپنے پڑوسی سے ویسی محبت رکھنا جیسی تُو اپنے آپ سے رکھتا ہے‘۔“
عیسیٰ نے کہا، ”تُو نے ٹھیک جواب دیا۔ ایسا ہی کر تو زندہ رہے گا۔“
(لوقا 10: 25-28)
تبصرہ:
حضرت عیسی اللہ کریم جل وعلا سے دل وجان سے محبت کو سب سے بڑا اور بہتر عمل فرما رہے ہیں ، کیا گفتگو کے طریقے سے واقفیت رکھنے والا شخص یہ گفتگو سن کر سوچ بھی سکتا ہے کہ حضرت عیسی اپنی محبت کا درس دے رہے تھے اور خود حضرت عیسی سے محبت کو ہی سب سے بڑا عمل قرار دے رہے تھے؟
اور انجیلِ مرقس کے الفاظ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ، کیونکہ حضرت عیسی نے جواب میں کہا: ” رب ہمارا خدا ایک ہی رب ہے” ، یعنی حضرت عیسی نے اپنے آپ کو دوسرے لوگوں کے ساتھ شامل کرتے ہوئے اللہ کریم جل وعلا کے لیے کہا: ” ہمارا خدا ایک ہی رب ہے” ، یعنی جیسے دوسروں کا خدا یونہی حضرت عیسی کا خدا ایک واحد قہار جل وعلا ہے۔۔۔ کیا اناجیل کی اس قسم کی صراحتوں کے بعد بھی کوئی شخص حضرت عیسی کو “خدا” ماننے کی غلطی کر سکتا ہے؟
8. اللہ زندوں کا خدا ہے :
انجیلِ متی میں ہے:
رہی یہ بات کہ مُردے جی اُٹھیں گے، کیا تم نے وہ بات نہیں پڑھی جو اللہ نے تم سے کہی؟ اُس نے فرمایا، ’مَیں ابراہیم کا خدا، اسحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں،‘ حالانکہ اُس وقت تینوں کافی عرصے سے مر چکے تھے۔ اِس کا مطلب ہے کہ یہ حقیقت میں زندہ ہیں۔ کیونکہ اللہ مُردوں کا نہیں بلکہ زندوں کا خدا ہے۔“
(متی 22: 31-32)
اسی بات کو انجیلِ مرقس میں اس طرح بیان کیا گیا:
رہی یہ بات کہ مُردے جی اُٹھیں گے۔ کیا تم نے موسیٰ کی کتاب میں نہیں پڑھا کہ اللہ جلتی ہوئی جھاڑی میں سے کس طرح موسیٰ سے ہم کلام ہوا؟ اُس نے فرمایا، ’مَیں ابراہیم کا خدا، اسحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں،‘ حالانکہ اُس وقت تینوں کافی عرصے سے مر چکے تھے۔ اِس کا مطلب ہے کہ یہ حقیقت میں زندہ ہیں، کیونکہ اللہ مُردوں کا نہیں، بلکہ زندوں کا خدا ہے۔ تم سے بڑی غلطی ہوئی ہے۔“
(مرقس 12: 26-27)
تبصرہ:
مذکورہ بالا کلام کو پڑھنے کے بعد کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام یہ جملے اپنے بارے میں کہہ رہے تھے؟ “اللہ مردوں کا نہیں بلکہ زندوں کا خدا ہے” ، “کیا تم نے وہ بات نہیں پڑھی جو اللہ نے تم سے کہی” اگر آپ خود خدا تھے تو حضرت موسی کی کتاب کا حوالہ دینے کی کیا حاجت تھی؟ اسی وقت خود فرما دیتے جب بھی کافی تھا۔۔۔۔
9. فرزند کو بھی علم نہیں بلکہ صرف باپ کو:
انجیلِ مرقس میں ہے:
لیکن کسی کو بھی علم نہیں کہ یہ کس دن یا کون سی گھڑی رونما ہو گا۔ آسمان کے فرشتوں اور فرزند کو بھی علم نہیں بلکہ صرف باپ کو۔
(مرقس 13: 32)
انجیلِ متی میں ہے:
لیکن کسی کو بھی علم نہیں کہ یہ کس دن یا کون سی گھڑی رونما ہو گا۔ آسمان کے فرشتوں اور فرزند کو بھی علم نہیں بلکہ صرف باپ کو۔
(متی 24: 36)
تبصرہ:
انجیلِ متی ومرقس کے یہ جملے دو لحاظ سے قابلِ توجہ ہیں: (1): حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام خود اپنے آپ سے بھی علم کی نفی فرما رہے ہیں ، تو کیا خدا جاہل ہو سکتا ہے؟ (2): حضرت عیسی باپ کے لیے علم ثابت کر رہے ہیں جبکہ اپنے آپ سے نفی کر رہے ہیں ، اگر بزعمِ نصاری حضرت عیسی علیہ السلام اللہ جل وعلا کے ساتھ متحد ہیں تو پھر علم کی نفی کس سے ہوئی اور اثبات کس کے لیے ہوا؟؟؟ کیا کوئی عقلمند ایک ہی ذات کے لیے ایک ہی اعتبار سے علم کا اثبات ونفی دونوں کر سکتا ہے؟ اگر نصوصِ بالا درست ہیں تو ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آپ سے صرف علم کی نفی نہیں کی ، بلکہ الوہیتِ عیسی کے دعوے داروں کے تابوت میں آخری کیل تک ٹھونک دی وللہ الواحد القھار الحمد
10. جس نے مجھے بھیجا:
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:
جو میرے نام میں اِن بچوں میں سے کسی کو قبول کرتا ہے وہ مجھے ہی قبول کرتا ہے۔ اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ مجھے نہیں بلکہ اُسے قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔“
(مرقس 9: 37)
اسی گفتگو کو لوقا میں یوں بیان کیا گیا:
اور اُن سے کہا، ”جو میرے نام میں اِس بچے کو قبول کرتا ہے وہ مجھے ہی قبول کرتا ہے۔ اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ اُسے قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ چنانچہ تم میں سے جو سب سے چھوٹا ہے وہی بڑا ہے۔“
(لوقا 9: 48)
تبصرہ:
حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں: “بلکہ اسے قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا” تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ : وہ کون ہے جس نے حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا؟ کیا حضرت عیسی اپنی بات کر رہے ہیں؟ اگر اپنی بات کر رہے ہیں تو اس گفتگو کے کیا معنی بنیں گے ” مجھے نہیں بلکہ اُسے قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے ” ؟ “مجھے نہیں” بلکہ “جس نے مجھے بھیجا” یعنی اپنی ذات سے نفی اور بھیجنے والے کے لیے اثبات۔۔۔ اگر عیسی علیہ السلام اللہ جل وعلا سے متحد ہیں تو کیا یہ نفی اور اثبات ایک ہی ذات کے لیے نہ بنے گا؟؟؟ اور کیا کوئی عقل مند اس قسم کی گفتگو کر سکتا ہے؟ سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
11. اللہ پر ایمان رکھو:
انجیلِ مرقس کے مطابق حضرت عیسی نے انجیر کے ایک درخت پر لعنت بھیجی تو وہ درخت سوکھ گیا ، پطرس نے جب اس کمال کی نسبت حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف کرنا چاہی تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کی توجہ کو اللہ کریم جل وعلا کی طرف موڑتے ہوئے کہا: ” اللہ پر ایمان رکھو” جیسا کہ انجیلِ مرقس میں ہے:
اگلے دن وہ صبح سویرے انجیر کے اُس درخت کے پاس سے گزرے جس پر عیسیٰ نے لعنت بھیجی تھی۔ جب اُنہوں نے اُس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جڑوں تک سوکھ گیا ہے۔ تب پطرس کو وہ بات یاد آئی جو عیسیٰ نے کل انجیر کے درخت سے کی تھی۔ اُس نے کہا، ”اُستاد، یہ دیکھیں! انجیر کے جس درخت پر آپ نے لعنت بھیجی تھی وہ سوکھ گیا ہے۔“
عیسیٰ نے جواب دیا، ”اللہ پر ایمان رکھو۔ عیسیٰ نے جواب دیا، ”اللہ پر ایمان رکھو۔
(مرقس 11: 20-22)
تبصرہ:
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر بزعمِ نصاری حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام خدا ہیں اور اللہ جل وعلا کے ساتھ متحد ہیں تو پطرس کی فکر کو اپنی ذات سے ہٹا کر خالقِ کائنات جل وعلا کی طرف کیوں موڑ رہے ہیں؟ اور کیا حضرت عیسی پہ ایمان اللہ پہ ایمان نہیں تھا؟ کیا اس قسم کی واضح کلام سننے کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت عیسی خدا اور خدا کے ساتھ متحد تھے؟
12. ایلی ، ایلی ، لما شبقتنی:
انجیلِ متی کے مطابق جب حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو سولی پہ چڑھایا جانے والا تھا تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے رب سے فریاد کی:
پھر تین بجے عیسیٰ اونچی آواز سے پکار اُٹھا، ”ایلی، ایلی، لما شبقتنی“ جس کا مطلب ہے، ”اے میرے خدا، اے میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں ترک کر دیا ہے؟“
(متی 27: 46)
تبصرہ:
اگر عیسی علیہ السلام خدا ہیں تو یہاں کس خدا کو پکار رہے ہیں؟ کیا خدا کا بھی کوئی خدا ہے؟
اور ان جملوں کے بارے میں عیسائی یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ اس دور کے ہیں جب حضرت عیسی اپنی الوہیت کو چھپاتے تھے ، کیونکہ بقولِ متی یہ جملے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے سولی پہ چڑھائے جانے کے بعد نکلے۔۔۔ اور عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسی اس سے پہلے ہی اپنے شاگردوں پر اپنی الوہیت کا اظہار کر چکے تھے۔۔۔ جب اپنی الوہیت کا اظہار ہو چکا تو اب کس الہ کو پکارا جا رہا ہے؟
13. حضرت عیسی علیہ السلام کی دربارِ الہی میں التجا:
انجیل کے مطابق جب حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو سولی چڑھائے جانے کا وقت قریب آیا تو حضرت عیسی نے دربارِ الہی میں انتہائی انکساری سے دعا کی ، جیسا کہ انجیلِ متی میں ہے:
عیسیٰ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک باغ میں پہنچا جس کا نام گتسمنی تھا۔ اُس نے اُن سے کہا، ”یہاں بیٹھ کر میرا انتظار کرو۔ مَیں دعا کرنے کے لئے آگے جاتا ہوں۔“ اُس نے پطرس اور زبدی کے دو بیٹوں یعقوب اور یوحنا کو ساتھ لیا۔ وہاں وہ غمگین اور بےقرار ہونے لگا۔ اُس نے اُن سے کہا، ”مَیں دُکھ سے اِتنا دبا ہوا ہوں کہ مرنے کو ہوں۔ یہاں ٹھہر کر میرے ساتھ جاگتے رہو۔“
کچھ آگے جا کر وہ اوندھے منہ زمین پر گر کر یوں دعا کرنے لگا، ”اے میرے باپ، اگر ممکن ہو تو دُکھ کا یہ پیالہ مجھ سے ہٹ جائے۔ لیکن میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔“
وہ اپنے شاگردوں کے پاس واپس آیا تو دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں۔ اُس نے پطرس سے پوچھا، ”کیا تم لوگ ایک گھنٹا بھی میرے ساتھ نہیں جاگ سکے؟ جاگتے اور دعا کرتے رہو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔ کیونکہ روح تو تیار ہے لیکن جسم کمزور۔“
ایک بار پھر اُس نے جا کر دعا کی، ”میرے باپ، اگر یہ پیالہ میرے پیئے بغیر ہٹ نہیں سکتا تو پھر تیری مرضی پوری ہو۔“ جب وہ واپس آیا تو دوبارہ دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں، کیونکہ نیند کی بدولت اُن کی آنکھیں بوجھل تھیں۔
چنانچہ وہ اُنہیں دوبارہ چھوڑ کر چلا گیا اور تیسری بار یہی دعا کرنے لگا۔ پھر عیسیٰ شاگردوں کے پاس واپس آیا اور اُن سے کہا، ”ابھی تک سو اور آرام کر رہے ہو؟ دیکھو، وقت آ گیا ہے کہ ابنِ آدم گناہ گاروں کے حوالے کیا جائے۔ اُٹھو! آؤ، چلیں۔ دیکھو، مجھے دشمن کے حوالے کرنے والا قریب آ چکا ہے۔“
(متی 26: 36-46)
انجیلِ مرقس کا بیان کچھ اس طرح ہے:
وہ ایک باغ میں پہنچے جس کا نام گتسمنی تھا۔ عیسیٰ نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”یہاں بیٹھ کر میرا انتظار کرو۔ مَیں دعا کرنے کے لئے آگے جاتا ہوں۔“ اُس نے پطرس، یعقوب اور یوحنا کو ساتھ لیا۔ وہاں وہ گھبرا کر بےقرار ہونے لگا۔ اُس نے اُن سے کہا، ”مَیں دُکھ سے اِتنا دبا ہوا ہوں کہ مرنے کو ہوں۔ یہاں ٹھہر کر جاگتے رہو۔“
کچھ آگے جا کر وہ زمین پر گر گیا اور دعا کرنے لگا کہ اگر ممکن ہو تو مجھے آنے والی گھڑیوں کی تکلیف سے گزرنا نہ پڑے۔ اُس نے کہا، ”اے ابّا، اے باپ! تیرے لئے سب کچھ ممکن ہے۔ دُکھ کا یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے۔ لیکن میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔“
وہ اپنے شاگردوں کے پاس واپس آیا تو دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں۔ اُس نے پطرس سے کہا، ”شمعون، کیا تُو سو رہا ہے؟ کیا تُو ایک گھنٹا بھی نہیں جاگ سکا؟ جاگتے اور دعا کرتے رہو تاکہ تم آزمائش میں نہ پڑو۔ کیونکہ روح تو تیار ہے، لیکن جسم کمزور۔“
ایک بار پھر اُس نے جا کر وہی دعا کی جو پہلے کی تھی۔ جب واپس آیا تو دوبارہ دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں، کیونکہ نیند کی بدولت اُن کی آنکھیں بوجھل تھیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا جواب دیں۔
جب عیسیٰ تیسری بار واپس آیا تو اُس نے اُن سے کہا، ”تم ابھی تک سو اور آرام کر رہے ہو؟ بس کافی ہے۔ وقت آ گیا ہے۔ دیکھو، ابنِ آدم کو گناہ گاروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اُٹھو۔ آؤ، چلیں۔ دیکھو، مجھے دشمن کے حوالے کرنے والا قریب آ چکا ہے۔“
(مرقس 14: 32-42)
انجیلِ لوقا کا انداز ملاحظہ ہو:
پھر وہ شہر سے نکل کر معمول کے مطابق زیتون کے پہاڑ کی طرف چل دیا۔ اُس کے شاگرد اُس کے پیچھے ہو لئے۔ وہاں پہنچ کر اُس نے اُن سے کہا، ”دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔“
پھر وہ اُنہیں چھوڑ کر کچھ آگے نکلا، تقریباً اِتنے فاصلے پر جتنی دُور تک پتھر پھینکا جا سکتا ہے۔ وہاں وہ جھک کر دعا کرنے لگا،”اے باپ، اگر تُو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے۔ لیکن میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔“ اُس وقت ایک فرشتے نے آسمان پر سے اُس پر ظاہر ہو کر اُس کو تقویت دی۔ وہ سخت پریشان ہو کر زیادہ دل سوزی سے دعا کرنے لگا۔ ساتھ ساتھ اُس کا پسینہ خون کی بوندوں کی طرح زمین پر ٹپکنے لگا۔
جب وہ دعا سے فارغ ہو کر کھڑا ہوا اور شاگردوں کے پاس واپس آیا تو دیکھا کہ وہ غم کے مارے سو گئے ہیں۔ اُس نے اُن سے کہا، ”تم کیوں سو رہے ہو؟ اُٹھ کر دعا کرتے رہو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔“
(لوقا 22: 39-46)
تبصرہ:
عیسائیوں کے بقول جب حضرت عیسی خدا ہیں تو یہ گریہ وزاری کس کے سامنے ہو رہی ہے؟ کیا اپنے آپ کے سامنے؟ پھر فرما رہے ہیں: “میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو” کیا یہ جملہ چیخ چیخ کر نہیں پکار رہا کہ یہاں دو الگ الگ مرضیاں ہیں: (1): حضرت عیسی کی اور (2): اللہ جل وعلا کی۔ حضرت عیسی کی مرضی یہ تھی کہ یہ مصیبت ٹل جائے ، جبکہ اللہ جل وعلا کی مرضی اس کے برعکس تھی۔۔۔ اگر حضرت عیسی اللہ جل وعلا کے ساتھ متحد ہیں تو پھر یہ دو ایک دوسرے کے خلاف مرضیاں کیسے؟؟؟
14. منصبِ عیسی بزبانِ پطرس:
اناجیل متی ، لوقا ومرقس کے مطابق حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی شخصیت کے بارے میں لوگوں کے بیچ اختلاف ضرور ہوا ، کسی نے ” یحییٰ بپتسمہ دینے والا” سمجھا تو کسی نے ” الیاس نبی” ، کوئی ” یرمیاہ” کہتا تو کوئی ” قدیم زمانے کا کوئی نبی جو جی اٹھا ہو” لیکن کسی نے بھی حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو “خدا”کہنے کی جرات نہیں کی۔ اور پھر جب حضرت عیسی نے پطرس سے ان کی ذاتی رائے کے بارے میں پوچھا تو اس کا ذکر انجیلِ مرقس میں یوں ملتا ہے:
پھر عیسیٰ وہاں سے نکل کر اپنے شاگردوں کے ساتھ قیصریہ فلپی کے قریب کے دیہاتوں میں گیا۔ چلتے چلتے اُس نے اُن سے پوچھا، ”مَیں لوگوں کے نزدیک کون ہوں؟“
اُنہوں نے جواب دیا، ”کچھ کہتے ہیں یحییٰ بپتسمہ دینے والا، کچھ یہ کہ آپ الیاس نبی ہیں۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ نبیوں میں سے ایک۔“
اُس نے پوچھا، ”لیکن تم کیا کہتے ہو؟ تمہارے نزدیک مَیں کون ہوں؟“
پطرس نے جواب دیا، ”آپ مسیح ہیں۔“
یہ سن کر عیسیٰ نے اُنہیں کسی کو بھی یہ بات بتانے سے منع کیا۔
(مرقس 8: 27-30)
انجیلِ لوقا کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
ایک دن عیسیٰ اکیلا دعا کر رہا تھا۔ صرف شاگرد اُس کے ساتھ تھے۔ اُس نے اُن سے پوچھا، ”مَیں عام لوگوں کے نزدیک کون ہوں؟“
اُنہوں نے جواب دیا، ”کچھ کہتے ہیں یحییٰ بپتسمہ دینے والا، کچھ یہ کہ آپ الیاس نبی ہیں۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ قدیم زمانے کا کوئی نبی جی اُٹھا ہے۔“
اُس نے پوچھا، ”لیکن تم کیا کہتے ہو؟ تمہارے نزدیک مَیں کون ہوں؟“
پطرس نے جواب دیا، ”آپ اللہ کے مسیح ہیں۔“
(لوقا 9: 18-21)
انجیلِ متی میں ہے:
جب عیسیٰ قیصریہ فلپی کے علاقے میں پہنچا تو اُس نے شاگردوں سے پوچھا، ”ابنِ آدم لوگوں کے نزدیک کون ہے؟“
اُنہوں نے جواب دیا، ”کچھ کہتے ہیں یحییٰ بپتسمہ دینے والا، کچھ یہ کہ آپ الیاس نبی ہیں۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یرمیاہ یا نبیوں میں سے ایک۔“
اُس نے پوچھا، ”لیکن تمہارے نزدیک مَیں کون ہوں؟“
پطرس نے جواب دیا، ”آپ زندہ خدا کے فرزند مسیح ہیں۔“
عیسیٰ نے کہا، ”شمعون بن یونس، تُو مبارک ہے، کیونکہ کسی انسان نے تجھ پر یہ ظاہر نہیں کیا بلکہ میرے آسمانی باپ نے۔ مَیں تجھے یہ بھی بتاتا ہوں کہ تُو پطرس یعنی پتھرہے، اور اِسی پتھر پر مَیں اپنی جماعت کو تعمیر کروں گا، ایسی جماعت جس پر پاتال کے دروازے بھی غالب نہیں آئیں گے۔ مَیں تجھے آسمان کی بادشاہی کی کنجیاں دے دوں گا۔ جو کچھ تُو زمین پر باندھے گا وہ آسمان پر بھی بندھے گا۔ اور جو کچھ تُو زمین پر کھولے گا وہ آسمان پر بھی کھلے گا۔“
پھر عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا، ”کسی کو بھی نہ بتاؤ کہ مَیں مسیح ہوں۔“ (متی 16 : 13-20)
تبصرہ:
گو انجیلِ متی نے “زندہ خدا کے فرزند” کا اضافہ کیا ، لیکن مرقس کے مطابق “مسیح” اور لوقا کے مطابق “اللہ کے مسیح” ، یعنی مرقس ولوقا میں سے کسی ایک نے بھی الوہیت کی بابت ایک لفظ تک نہیں بولا ، اور متی نے گو “فرزندِ خدا” ہونا بھی کہا ، لیکن مرقس اور لوقا میں ایسا کوئی لفظ مذکور نہیں ، حالانکہ یہ انتہائی حساس مقام تھا ، حضرت عیسی از خود پطرس سے اپنی شخصیت کے بارے میں سوال فرما رہے تھے ، بھلا اس موقع پہ بولے ہوئے کسی جملے کو فروگذاشت کیا جا سکتا ہے ؟، لہذا مرقس ولوقا دونوں کا لفظ “فرزندِ خدا” چھوڑ دینا انجیلِ متی کی نص کو شبہ میں ڈال دیتا ہے۔ بہر حال جس جملے پہ تینوں انجیلیں متفق ہیں وہ ہے “مسیح” اور اس میں الوہیت کا معمولی سا بھی ذکر موجود نہیں۔ پھر جب پطرس نے یہ جواب دیا تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اسے تسلیم بھی فرمایا ، البتہ کسی حکمت کے پیشِ نظر اس کے اظہار سے منع فرمایا۔
کیا اب بھی انجیلِ مرقس وانجیلِ لوقا ومتی کو حق ماننے والوں کے سامنے حق واضح ہونے میں کوئی گنجائش باقی ہے؟
15. ہم اپنی گفتگو کا اختتام حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے ان جملوں پر کرنا چاہیں گے جو آپ نے خود اپنے منصب کے بارے میں ارشاد فرمائے:
منصبِ عیسی بزبانِ عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام:
عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”نبی کی عزت ہر جگہ کی جاتی ہے سوائے اُس کے وطنی شہر اور اُس کے اپنے خاندان کے۔“
(متی 13: 57)
عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”نبی کی ہر جگہ عزت ہوتی ہے سوائے اُس کے وطنی شہر، اُس کے رشتے داروں اور اُس کے اپنے خاندان کے۔“
(مرقس 6: 4)
لیکن مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ کوئی بھی نبی اپنے وطنی شہر میں مقبول نہیں ہوتا۔(لوقا 4: 24)
تبصرہ:
یہ نصوص متی ، مرقس اور لوقا تینوں کی ہیں اور ان میں حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام اپنا منصب ایک نبی والا بیان فرما رہے ہیں اور اس سے زائد ایک حرف بھی نہ کہا۔ البتہ انجیلِ یوحنا کی ابتداء ان تین اناجیلِ متوافقہ سے بالکل جدا ہے اور پہلی ہی آیت میں حضرت عیسی کی الوہیت کی صراحت کر دی ، جیسا کہ کہا:
ابتدا میں کلام تھا۔ کلام اللہ کے ساتھ تھا اور کلام اللہ تھا۔ یہی ابتدا میں اللہ کے ساتھ تھا۔
(یوحنا 1: 1-2)
چونکہ انجیلِ یوحنا کی تالیف کا سبب ہی ان لوگوں کا رد تھا جو حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نہیں بلکہ ایک انسان مانتے تھے (رب المجد ص143) ، لہذا یوحنا نے گفتگو کے آغاز میں ہی کہہ ڈالا “کلام اللہ تھا”۔
حالانکہ اس جملے کے مہمل وبے معنی ہونے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں ، صرف اس کی ترکیب پر توجہ کر لی جائے تو ہر عقل مند سمجھ جائے گا کہ اس قسم کی کلام کوئی مخبوط الحواس ہی کر سکتا ہے۔ پہلے کہا: “کلام اللہ کے ساتھ تھا” اور اس کے فورا بعد کہا: “کلام اللہ تھا”۔
پہلا جملہ دوسرے کا رد کر رہا ہے اور دوسرا جملہ پہلے کو جھٹلا رہا ہے ، اگر کلام اللہ کے ساتھ تھا تو اللہ نہیں تھا اور اگر اللہ تھا تو خود اپنے ساتھ کیسے تھا؟؟؟
لیکن چونکہ عیسائی بلا دلیل حضرت عیسی کو خدا کا درجہ دئیے بیٹھے ہیں اس لیے وہ اس قسم کی بے ربط گفتگو کو بھی اپنے مقصد کی طرف مروڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی وہ اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرنے سے تاحال قاصر ہیں اور صبحِ قیامت تک قاصر ہی رہیں گے ، اگر کوئی وضاحت مانگ لے تو اس کے سوا کچھ بھی جواب نہیں کہ:
ہمیں اس کی سمجھ نہیں ، یہ خدائی رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اس کو سمجھنا اور اس کا ہماری عقلوں میں آنا ممکن نہیں۔
(موسوعۃ الانباء غریغوریوس ص 231)
حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ حضرت عیسی کو خدا نہیں مانتے تھے ان کا کہنا تھا کہ :
حضرت عیسی کی پیدائش ، بچپن ، لڑکپن ، جوانی ، سب کا سب عام انسانوں کی مانند رہا۔ ان کی والدہ جنہوں نے ان کو بغیر باپ کے جنا ، انہوں نے اپنے بیٹے کو صرف ایک انسان سمجھا۔ اس سارے عرصے میں کسی کے وہم وخیال میں حضرت عیسی کی الوہیت کا خیال تک نہیں آیا ، کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ وہ جس شخصیت کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ درحقیقت خدا ہے اور نہ ہی حضرت عیسی نے کوئی ایک جملہ اشارۃ یا کنایۃ اس سلسلے میں ارشاد فرمایا۔۔۔ پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ حضرت عیسی نے آسمان کی جانب اٹھائے جانے یا بقولِ نصاری سولی پہ چڑھائے جانے سے کچھ پہلے اپنے خاص حواریوں کے سامنے اپنی الوہیت کا اظہار فرمایا اور پھر اس کو راز رکھنے کی تاکید بھی فرمائی ، لیکن سولی پہ چڑھائے جانے اور دوبارہ زندہ ہو جانے پر آپ کی الوہیت کا معاملہ کھل کر واضح ہو گیا۔۔۔۔!!!
اس قسم کی گفتگو کوئی بھی کرے تو سننے والے اسے مکمل پاگل نہیں تو نیم پاگل ضرور سمجھیں گے ، لیکن عیسائی ایسی سیدھی سادی بات سمجھنے سے قاصر اور ایسی بات کو صدیوں سے اپنا عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں جس کے بیان کے لیے انہیں آج بھی یہی کہنا پڑتا ہے کہ:
یہ خدائی رازوں میں سے ایک راز ہے اور ہم اس کی سمجھ سے قاصر ہیں۔
(موسوعۃ الانباء غریغوریوس ص 231)
اللہ کریم سے دعا ہے کہ اس واحد قہار کی توحید پر درست ایمان رکھنے اور قبولِ حق کی توفیق سے نوازے۔
آمین بحبیبہ الکریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
محمد چمن زمان نجم القادری
22 جمادی اولی 1440ھ