Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

مُرْجِئَہ اور قَدْرِیَہ کی مذمت:

 (70)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”میری اُمت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں وہ مُرْجِئَہ اور قَد ْرِیَہ ہیں۔”
                     (المعجم الاوسط، الحدیث: ۶۰۶۵،ج۴،ص۳۰۵)
 (71)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :” میری اُمت کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں قیامت کے دن میری شفاعت حاصل نہ ہو گی وہ مُرْجِئَہ اور قَد ْرِیَہ ہیں۔”
         (المعجم الاوسط، الحدیث: ۵۸۱۷،ج۴،ص۲۳۱،بدون”یوم القیامۃ”)
 (72)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”میری اُمت کے دو گروہ ایسے ہیں جو میرے حوض پر نہ آسکیں گے اور نہ ہی جنت میں داخل ہوں گے وہ مُرْجِئَہ اور قَدْرِیَہ ہیں۔”
                 (المعجم الاوسط، الحدیث: ۴۲۰۴،ج۳،ص۱۶۶)
 (73)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”میں چاہتا ہوں کہ تم تقدیر کے بارے میں گفتگونہ کیا کرو۔”۱؎


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

       (تاریخ بغداد،من ذکر اسم محمدبن الحسن،الحدیث:۶۰۸،ج۲،ص۱۸۵)
 (74)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”میں چاہتا ہوں کہ تم تقدیر کے بارے میں گفتگونہ کیا کرو اورآخری زمانے میں میری اُمت کے برے لوگ ہی تقدیرکے بارے میں کلام کیا کریں گے۔”
 (الکامل فی ضعفاء الرجال ، عبدالرحمن بن القطامی بصری، الرقم ۱۷۴/۱۱۴۱،ج۵،ص۵۰۵)
 (75)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قَدْرِیَہ پر 70انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے لعنت کی گئی ۔”
            (المعجم الاوسط، الحدیث: ۷۱۶۲،ج۵،ص۲۳۰)
 (76)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تقدیر کے منکروں کے پاس نہ بیٹھا کرو اور نہ ہی ان کے ساتھ کلام کی ابتدا کرو۔”
     (سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب فی القدر، الحدیث: ۴۷۱۰،ص۱۵۶۹)
 (77)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تقدیر کے بارے میں کلام کرنے سے بچتے رہو کیونکہ یہ نصرانیت کا حصہ ہے۔”
  (المعجم الکبیر،الحدیث: ۱۱۶۸۰،ج۱۱،ص۲۰۹)
 (78)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قَدْرِیَہ اس اُمت کے مجوسی ہیں جب یہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کو نہ جاؤ اورجب مر جائیں تو ان کے جنازے میں شرکت نہ کرو۔”
 (سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب فی القدر، الحدیث: ۴۶۹۱،ص۱۵۶۷)
 (79)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مجھے اپنے بعد اپنی اُمت پر دو خصلتوں کا خوف ہے: (۱)تقدیر کو جھٹلانے اور (۲)ستاروں کی تصدیق کرنے کا۔”
 (کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام،باب فرع فی دم القدریۃ والمرجئۃ،الحدیث: ۵۶۳،ج۱،ص۷۴)
 (80)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قیامت کے دن میری اُمت 
کے بدکار لوگوں کا آخری کلام تقدیر کے بارے میں ہو گا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (المعجم الاوسط،الحدیث:۵۹۰۹،ج۴،ص۲۵۶،بدون”یوم القیامۃ”)
۱؎:صدر الشریعہ ،بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”بہار شریعت”میں فرماتے ہیں: ”قضاو قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے ان میں زیادہ غورو فکر کرنا سبب ہلاکت ہے ۔صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرما ئے گئے ماوشماکس گنتی میں۔(یعنی میں اور آپ کس گنتی میں ہیں)۔اتنا سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا ،بلکہ اس کو ایک نوع اختیا ر دیا ہے کہ ایک کام چا ہے کرے ،چا ہے نہ کرے اور اس کے سا تھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے نفع نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیئے ہیں کہ جب کو ئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جا تے ہیں اور اسی بنا پراس پر مواخذہ ہے ۔اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمرا ہی ہیں ۔”  (بہار شریعت ،حصہ ۱،ص۵۔۶)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!