ڈاکٹرمحمدعلی اثر کی حمدیہ شاعری
ڈاکٹرمحمدعلی اثر کی حمدیہ شاعری
علیم صاب نویدی چنئی تملناڈو
حمدومدح عربی میں اگرچہ مترادف الفاظ ہیں مگرحمدشرعی روسے صرف اللہ کی ثنا خوانی ہے اورمدح اس کے بندوں کی عظمت وبزرگی کوجتانے کے لئے مختص ہے۔اللہ کی حمد کس طرح کی جائے اس کادرس خود اللہ نے بندوں کو دیاہے۔ اللہ کی ذات ہمیں اس کی صفات کی روشنی میں دکھائی دیتی ہے۔ اللہ کی ذات پر نظر ڈالنا کسی کے بس کی بات نہیں مگراس کی صفات جاننے سے اس کی ذات کو سمجھ لینے کا ایک احساس جاگتاہے اوراس احساس کے سہارے ہی اس کی حمدممکن ہے ورنہ خود اللہ تعالیٰ نے انسان کی بے بسی کو جتاتے ہوئے یہ اعلان کیاہے کہ اس کی حمدبیان کرنے میں سمندروں کاپانی دوات بن جائے اوراس کی حمدبیان کرتے رہیں تودوات ختم ہوجائے گی مگر اس کی حمدکی تکمیل نہ ہونے پائے گی۔ اللہ کی حمد بیان کرنے میں بندہ اپنی خاکساری کوہمیشہ ملحوظ نظررکھے اوراس کی عظمت کے بیان میں دوانگی کی حدتک محو ہوجائے ۔اس کے لئے ایک لازمی بات یہ ہے کہ جس واسطے سے ہمیں اس کی ذات کاعرفان ہواہو اس ذات کے واسطے اللہ کی ذات کی پہچان کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے پہلے معرف اپنے آقائے نامدارحضورپُرنور محمدﷺ ہیں ۔ہمارے حضور قرآن پاک کی مکمل تفسیر ہیں اور قرآن کریم نے اللہ کی حمدبیان کرنے کے ہمیں آداب سکھائے ہیں۔ اللہ کی حمد حضورﷺ ہی واسطے سے بہتربیان ہوسکتی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ شعرانے نعت گوئی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نبی کی نعت گوئی اللہ کی عظمت بیان کرنے کاایک شاندارذریعہ ہے۔ اللہ نے حضورﷺ پرصلوۃ وسلام بھیجنے پرزوردیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس واسطے سے ہمیں ادراک خدا نصیب ہوسکتاہے۔حمدکہنے میں بندہ دیوانہ وار اپنے عشق کااظہار کرسکتاہے اوراس کی ذات کے آگے سرنگوں ہوسکتاہے اورنعت کہنے میں اسے بہت احتیاط برتنی ہوتی ہے اورحضور ﷺ کے احترام میں ایسے اپنے آپ کوقابو میں رکھنالازمی ہے۔ حمد میں بندہ اللہ کی ہرطرح کی عظمت بیان کرسکتاہے مگرنعت کہنے میں اسے مدح رسولﷺ کے مجوزہ اصولوں کی پابندی ضروری ہے، اسی لئے کہاگیاہے۔ باخدا دیوانہ باش وبامحمدہوشار
نعت میں اللہ کی عظمت بیان کرنے کے بہت سے پہلواجاگرہوجاتے ہیں اس لئے شعرا نے حمدیہ شاعری سے زیادہ نعتیہ شاعری کے طرف توجہ برتی ہے۔انہیں معلوم ہے کہ ان کی شفاعت حضوراکرمﷺ ہی کے طفیل میسرہوتی ہے۔اللہ کے رسول ﷺ جن سے خوش ہوتے ہیں اللہ ان سے خوش ہوتاہے۔
حمدیہ شاعری میں بہت کم دیکھنے میں آیاہے کہ شعراس اہم ترین پہلو کوبھول جاتے ہیں اوراللہ کی حمدمحض الفاظ کادروبست بن رہ جاتی ہے۔اس میں عشق خدا کی جھلک مفقود ہوجاتی ہے۔ محض سپاٹ بیانیہ سے عشق خدا اوراس کی عظمت بیان نہیں ہوسکتی۔ علامہ شاکرنائطی نے اپنے سلام میں حمد کے اس پہلو کو مضمر کرکے عشق خداورسول ﷺ کواجاگرکیاہے۔ اس سلام کا پہلا شعر ہے۔
سلام اس پر جوہے پہلا معرف ذات مطلق کا سلام اس پرجو روشن آئینہ ہے جلوۂ خلق کا
اس میں ایک ساتھ ذات الٰہی اورذات رسولﷺ کی طرف دھیان چلاجاتاہے ۔اسی لئے نعت وسلا رسولﷺ میں ذات الٰہی پرنظرڈالنے کاایک ذریعہ ہے۔اگرحمدیں اس آئینے میں کہیں جائیں تو غالباََ اردوشاعری میں حمدیہ شاعری کی ایکنئی ڈگر پرگامزن ہوسکتی ہے ۔خیر اس سے ہٹ کر جب ہم اردو میں حمدیہ شاعری کے اطوار کودیکھتے ہیں توہمیں ایک روایت کی پابندی دکھائی دیتی ہے وہ ہے محض اسما وصفات الٰہی کی روشنی میں اللہ کی حمدبیان کرناہے۔ قرآن میں بھی معرفت الٰہی اسی نہج سے بیان ہوئی ہے۔
اللہ نے اپنی تعریف اپنی صفات ہی کے ذریعہ کی ہے۔سورۂ فاتحہ کی ابتدائی تین آیات انہی اولیں صفات کے ذریعہ بیان ہوئی ہیں۔ پہلے اس کااسم ذاتی اللہ کااستعمال ہواہے پھر اس کی ربوبیت ، رحیمیت، رحمانیت اورمالکیت کااعلان ہے۔ ربوبیت ، رحمیت ورحامنیت پوری تخلیق کے لئے لازمی ہیں اوراس کی مالکیت میں سارے عالم کو اس کی ذات سے استدعا کولازمی قراردیاگیاہے۔ہرتخلیق اس کے آگے عاجز، غیرمختار اورسرنگوں ہے۔ بندہ کی سرنگونی عباد ت کی پہلی کڑی ہے۔بغیرسرنگونی کے عبادت ممکن ہی نہیں۔ اللہ کوبندے کاغروراوراس کی تمکنت بالکل گوارانہیں۔اسی لئے اللہ نے بندوں پرعبادت کولازمی قراردیا ہے اور اس کی عجزوانکساری کوعبادت کاپہلا جزوبنایاہے، یہ عجزوانکساری ہی بندہ کوبندہ رہنے دیتی ہے ۔گھمنڈ و تکبری بندہ کو ذلیل وخوار کردیتی ہے۔سعدی علیہ الرحمہ نے کہاہے۔
تکبر عزازیل را خوار کرد بہ زندانِ لعنت گرفتارکرد
غرض آغازِ حمدوثنائے عرزوجل عبادتوں میں بہترین عبادت ہے۔اللہ کا حکم بھی بندوں کو یہی ہے
واذکرواللہ کثیرا (اللہ کاذکرکثرت سے کرو)
حمدیہ شاعر ذکرالٰہی ہے اوراس کی خیروبرکت سے شعرا مستفیض ہوئے ہیں ۔بعضوں نے اپنے کلام کے شروع میں حمدوں کوشامل کرنے کی روایت اپنائی ہے۔اردومثنویوں میں بھی آگازحمدونعت کے
یہ نہیں معلوم کہ حمدیہ اشعار کہنے کارواج کب سے ہے ۔غالباََ ہردور میں یہ سلسلہ جاری تھا۔اس روسے یہ کہنا غلط نہیں کہ شعراوادبا نے آغازہی سے اس لازمہ پرپابند ی کی ہے اورحمدبیان کرنا غالباََ عربی فارسی اوراردومیں زمانۂ اول ہی سے ہے۔
حمدیہ شاعری میں قیاسیات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں ذات الٰہی کی صفات کوجان لینابہت ضروری ہے اورحقائق کی روشنی ہی میں حمدی شاعری بہترہوسکتی ہے۔
ہمارے آگے محمدعلی اثر کی حمدیہ شاعر ی کاایک اچھاخاصہ ذخیرہ موجودہے۔آیئے دیکھیں کہ موصوف نے ذات الٰہی کے عرفان میں کہاں تک وہ حمدیہ اشعار کہنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔بیشتر یہ بیان کیاگیا کہ حمدیہ شاعری میں اولیں لازمہ عاجزی وانکساری ہے پھرضرورت استدعاکی ہے۔بغیردعائیہ اشعارکے حمد مکمل نہیں ہے۔ہرحمدسورۂ فاتحی کے اصول پرہونی چاہئے ۔پہلے عظمت الٰہی کابیان پھردعاؤں کورکھ کراستعانت طلب کرنا۔ غالباََ اس روسے ڈاکٹرمحمدعلی اثر کی حمدیہ شاعری ایک مکمل حمدیہ شعری اسلوب بن کر ابھری ہے۔موصوف کی حمدوں میں ہمیں وہ تمام باتیں مل جاتی ہیں جواوپربیان کی گئی ہیں۔آپ خالق ومخلوق کی حدیں مقرر کرتے ہیں اورپورے احترام سے اپنے رب کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ حمدیہ شاعری اللہ کاشکراداکرنے کی دلیل ہے۔ بندہ ہر موقعہ پرشاکرہی رہے۔ بندہ کاذاکر ہونا اللہ کی ذات کے آگے شکرادا کر نے کے مترادف ہے۔ محمدعلی اثرؔ نے اس طرح ذکروشکر ہی کے دائرے میں اپنی حمدیہ شاعری کوایک اسلوب بخشاہے۔محمدعلی اثرؔ نے شاعری کی غالباََ سبھی صنفوں میں تجربہ کیاہے۔آپ کی نعتیہ اورحمدیہ شاعری کے دوکتابچے”نعت رسولِ خدا ” اور”انوارِخطِ روشن” منصۂ شہودپرآچکے ہیں ۔آپ نے غزلیں ،پابند و آزاد نظمیں ، قطعات،ماہئے، ثلاثیاں وغیرہ کہہ کراپنی تخلیقی صلاحیتوں کواجاگر کیاہے۔اب آپ نے خالص حمدیں کہہ کراپنے کالق کے شکرکاایک ذریعہ اپنایااوریہ حمدیں ان کے لئے ذخیرۂ آخرت بھی ثابت ہوں گی۔اس نیک کامی پران کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ محمدعلی اثرغالباََ اپنے اطمینان قلبی کے لئے ہی حمدیہ نظمیں کہی ہیں اس لئے کہ وہ جاتنے ہیں کہ قرآنی تلقین بھی یہی ہے یعنی آسودگئی قلبی کے لئے ذکرالٰہی بہت لازمی ہے۔ اللہ کاقول ہے الابذکراللہ تطمئن القلوب ۔شاعری تخلیقی صلاحیتوں کوطمانیت بخشنے کے لئے ہے اور حمدیہ ونعتیہ شاعری اس طمانیت کوآگے بڑھاکرعبادت کی حدوں میں رکھ دیتی ہے۔،محمدعلی اثرنے نعتیں بھی کہی ہیں اورحمدیں بھی۔ ان دونوں مرحلوں سے گزرنے کے بعد یقیناََ پوری طرح اطمینانِ قلبی محسوس کر رہے ہوں گے۔ اس طرح شاعری کااولیں وآخری مقصد بھی آپ نے پوراکرلیا۔اس روسے یقیناََ آپ بڑے خوش قسمت ہیں۔
آیئے اب ہمیں ان کی حمدیہ شاعری کی گلگاریوں پرایک نظرڈالیں اوردیکھیں کہ موصوف نے کہاں تک اپنے رب سے رابطہ جوڑاہے اورکہاں تک عرفان ِ الٰہی میں وہ آگے بڑھے ہیں؟ کہاں تک وہ سرنگونی وعجزوانکساری میں اپنی حدوں کوقائم کیااوراپنے رب سے مائل بہ استدعاہوئے اوریہ بھی دیکھیں کہ بہ حیثیت ادیب وشاعرکہاں تک فنی برتری وبلندی اظہار کاثبوت پیش کیا۔
ذکر کرتے ہیں تیرا ہم ربی
ہم پہ کردے ذرا کرم ربی
پھر رواں ہو مرا قلم ربی
میرا قائم رہے بھرم ربی
تو ہی خالق ے سب جہانوں کا
ہر جگہ ہے ترا علم ربی
ترے ہی نام سے آغاز جومیں کرتاہوں
ہرایک کام مرا خوشگوار ہے اللہ
نوصوف کے اشعارمیں ہمیں قرآنی آیات کی ترجمانی وجھلک دکھائی دیتی ہے۔اس روسے بہت سے اشعاراس حمدیہ مجموعے میں ہماری نظرسے گزرتے ہیں۔
سیدھے رستے پہ تو اثر کوچلا
اسی جانب اٹھیں قدم ربی
عزیزہے وہ مجھے جو عزیز ہے تجھ کو
ترے نبی پہ مری جاں نثار ہے اللہ
کہا ہے اس نے کہ رحمٰن اور رحیم ہوں میں
ہمارے حق جو اتری ہیں آیتیں رب کی
کہا ہے اس نے رگِ جاں سے بھی قریب ہوں میں
مگر ہمیں بڑھائیں مسافتیں کیا کیا
محترم محمدعلی اثر ایک جید ادیب وشاعر ہیں۔ادب کی کئی اصناف پرآپ کی نظرگہری ہے اورخصوصاََ تحقیق آپ کاپسندیدہ موضوع ہے۔اس احساس کے ساتھ آپ میں ایک احساس یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کبھی دوسروں پرترجیح نہیں دیتے۔خصوصاََ شاعری میں خودکومبتدی ہی سمجھتے ہیں۔ اپنی شعری تخلیقات میں ہمیشہ موصوف نے سہل ترین اندازکواپنے لئے گواراکیا۔حمدوں میں بھی ہمیں آپ کی سہل روی ملتی ہے ۔ اک طرف آپ ایسے احساس سے دوچار ہیں کہ وہ ایسی صنف کوچھورہے ہی﷽ جس پرشعرانے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ نعت وحمد میں فنی دسترس رکھنے والے شعرا نے بڑی احتیاط برتی ہے یہ دونوں صنفیں فکرہ شاعری سے مبراہیں۔ یہاں حقائق وعقائد ہی سے کام لیناپڑتاہے۔محمدعلی اثر نے اھترام خالق کومدنظررکھ کر اظہارمین بہت سادگی سے کام لیاہے۔بعض مقامات پردوسر شعری ی ہئیتوں کااثران میں سماگیاہے۔