islam
کبيرہ نمبر101: بدفالی کی بناء پرسفرنہ کرنااورواپس لوٹ آنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”بد فالی لينا شرک ہے، بدفالی لينا شرک ہے اور ہر شخص کے دل ميں اس کاخيال بھی آتا ہے مگر اللہ عزوجل توکّل کے ذريعے اسے دور فرما ديتا ہے۔”
(سنن ابی داؤد ،کتاب الکھانۃ والطیر،باب فی الطیرۃ ، الحدیث ۳۹۱۰ ، ص ۱۵۱۰)
حافظ ابو القاسم اصفہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں :”اس حدیثِ پاک کا مطلب يہ ہے کہ ميری اُمت کے ہر شخص کے دل ميں ان ميں سے کچھ نہ کچھ خيال آتا ہے مگر اللہ عزوجل ہر اس شخص کے دل سے يہ خيال نکال ديتا ہے جو اللہ عزوجل پر توکل کرتا ہے اور اس بد فالی پر ثابت قائم نہيں رہتا۔”
(2)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”پرندے اڑا کر يا کسی اور چيز سے بدشگونی مراد لينا بے برکت کاموں ميں سے ہے۔”
( سنن ابی داؤد ،کتاب الکھانۃ والتطیر،باب فی الخط وزجرالطیر ،الحدیث:۳۹۰۷، ص۱۵۱۰)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے اٹکل پچوسے غيب کی بات بتائی يا جوئے کے تیروں کے ذریعے کسی سے قسم اٹھوائی يا بدشگونی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آيا وہ بلند درجوں تک ہر گز نہيں پہنچ سکتا۔”
( شعب الایمان، باب فی الزھد وقصر الامل ، فصل فی ذمہ بناء مالا یحتاج ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۱۰۷۳۹ ج۷، ص ۳۹۸)
تنبیہ:
پہلی اور دوسری حدیثِ پاک کے ظاہری معنی کی وجہ سے بدفالی کو گناہِ کبيرہ شمار کيا جاتا ہے اور مناسب بھی يہی ہے کہ يہ حکم اس شخص کے بارے ميں ہو جو بدفالی کی تاثير کا اعتقاد رکھتا ہو جبکہ ايسے لوگوں کے اسلام(یعنی مسلمان ہونے نہ ہونے)ميں کلام ہے۔