islam
کبيرہ نمبر107: مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرنا
یعنی مردوں کا عورتوں سے عرف ميں ان کے ساتھ مخصوص اُمور مثلاً لباس،کلام،حرکت وغيرہ ميں مشابہت اختيارکرنا، اسی طرح عورتوں کا مردوں سے مشابہت اختيار کرنا۔
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہيں کہ خاتَمُ الْمُرْسَلِین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عورتوں کی مشابہت اختيار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختيار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔”
(صحیح البخاری ،کتاب اللباس ، باب المتشبھین بالنساء والمتشبھات ۔۔۔۔۔۔الخ ،ا لحدیث: ۵۸۸۵،ص ۵۰۱)
(2)۔۔۔۔۔۔ايک عورت گلے ميں کمان لٹکائے سیِّدُ المبلِّغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قريب سے گزری تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اللہ عزوجل مردوں کی مشابہت کرنے والی عورتوں اورعورتوں کی مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرماتا ہے۔”
( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۴۰۰۳ ، ج ۳ ، ص ۱۰۶)
(3)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے زنانے مردوں اور مردانی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔”
( صحیح البخاری ،کتاب اللباس ، باب اخراج المتشبھین بالنساء ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۵۸۸۶، ص ۵۰۱)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
زنانے مردوں سے مراد عورتوں کی سی حرکات کرنے والے لوگ ہيں اگرچہ وہ کوئی فحش حرکت نہ بھی کرتے ہوں جبکہ مردانی عورتوں سے مراد مردوں سے مشابہت اختيار کرنے والی عورتيں ہيں۔
(4)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العٰلَمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عورت کا لباس پہننے والے مرد اور مرد کا لباس پہننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب اللباس،باب فی لباس النساء،الحدیث:۴۰۹۸،ص۵۲۲ ۱)
(5)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عورتوں کی مشابہت اختيار کرنے والے زنانے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختيار کرنے والی مردانی عورتوں پر اور بيابان ميں تنہا سفر کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل،مسند ابی ہریرۃ، الحدیث: ۷۸۶۰، ج۳ ،ص ۱۳۳)
(6)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :”چارطرح کے لوگوں پر دنياو آخرت ميں لعنت بھيجی جاتی ہے اور ملائکہ اس پر آمين کہتے ہيں (۱)وہ شخص جسے اللہ عزوجل نے مرد بنا کر پيدا کيا پھر اس نے اپنے آپ کو عورت بنا ليا اور عورتوں کی مشابہت اختيار کر لی(۲)وہ عورت جسے اللہ عزوجل نے عورت بنا يا مگر اس نے اپنے آپ کو مردانہ انداز ميں ڈھال ليا اور مردوں کی مشابہت اختيار کر لی (۳)وہ شخص جو نابينے کو راستے سے بھٹکا دے اور (۴)حَصُوْر يعنی طاقت کے باوجود عورتوں ميں رغبت نہ رکھنے والااور اللہ عزوجل نے صرف حضرت سیدنا يحیی بن زکريا علیٰ نبینا وعليہما الصلوٰۃ والسلام ہی کو حَصُوْر پيدا فرمايا۔” ( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۷۸۲۷، ج۸، ص ۲۰۴ )
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(7)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت ميں ايک مخنَّث (یعنی ہيجڑے ) کو لايا گيا، اس نے اپنے ہاتھ پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دریافت فرمایا:”اس کا کيا معاملہ ہے؟” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”يہ عورتوں کی مشابہت اختيار کرتا ہے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے نقيع(مدینے سے دورایک مقام) کی طرف جلا وطن کرنے کا حکم ارشاد فرمايا۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی حکم المخنثین،الحدیث:۴۹۲۸،ص۴ ۱۵۸)
(8)۔۔۔۔۔۔حضورنبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:”تین شخص جنت ميں داخل نہ ہوں گے:(۱) والدين کا نافرمان (۲)ديوّث ۱؎ اور (۳)مردانی عورتيں۔”
(مسند الفردوس للدیلمی،باب الثاء،الحدیث:۲۳۲۹،ج۱،ص۳۱۹)
(9)۔۔۔۔۔۔ ایک اور روایت میں ہے کہ سرکارِ مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :”تین شخص کبھی جنت ميں داخل نہ ہو ں گے(۱)دیُّوث (۲)مردانی عورتيں اور(۳) شراب کاعادی۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : ” شراب کے عادی کو تو ہم نے جان ليا، ديُّوث کون ہے ؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”وہ شخص جو اس بات کی پرواہ نہيں کرتا کہ اس کے گھر والوں کے پاس کون کون آتا ہے۔” ہم نے عرض کی:”مردانی عورتيں کون ہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جو مردوں کی مشابہت اختيار کرتی ہيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مجمع الزوائد ،کتاب النکاح ، باب فیمن یرضی لاھلہ بالخبث ، الحدیث: ۷۷۲۲، ج۴ ، ص ۵۹۹)
تنبیہ:
اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا بالکل واضح ہے جيسا کہ آپ ان صحيح احادیثِ مبارکہ اور ان ميں وارد سخت وعيد سے جان چکے ہيں جبکہ ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اس مشابہت اختیارکرنے کے بارے ميں دو قول ہيں(۱)يہ حرام ہے اور سیدنا امام
نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس کی تصحيح کی ہے بلکہ اسی کو صحيح قرار ديا ہے(۲)يہ مکروہ ہے سیدنا رافعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ”الموضوع”میں اسے صحيح قرار ديا ہے۔مگر سیدنا امام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کاحرمت کاقول صحیح اورمناسب ہے بلکہ ميں نے اسے کبيرہ گناہ قرار ديا ہے۔اورکبیرہ گناہوں کے بارے میں کلام کرنے والے بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی اسے کبیرہ گناہ شمارکیاہے اور يہ بالکل واضح ہے اوراُس حدیثِ پاک جس میں حضورنبئ کریم،رء ُوفٌ رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ پاؤں پرمہندی لگاکرعورتوں سے مشابہت اختیارکرنے پر ہيجڑے کوجِلاوطن فرمادیاتھاسے معلوم ہوا کہ مرد کو ہاتھ اور پاؤں مہندی سے رنگنا حرام ہے بلکہ عورتوں سے مذکورہ مشابہت کی بناء پر کبيرہ گناہ ہے اوربیان کردہ حدیثِ پاک اس پرصراحتاً دلالت کرتی ہے، ماضی قريب ميں جب يمن ميں يہی مسئلہ پيش آيا تو وہاں کے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ ميں اختلاف پيدا ہو گيا اور انہوں نے اس کی حلت و حرمت پر کتابيں لکھ کر ۹۵۲ ہجری ميں مکہ مکرمہ بھيجيں، ان ميں سے تين کتابيں اس کی مطلق حلت پر اور ايک کتاب اس کی حرمت پر تھی، انہوں نے مجھ سے حق ظاہر کرنے کا مطالبہ کيا تو ميں نے اس مسئلہ پر ايک جامع کتاب لکھی، جس کا نام ”شَنُّ الْغَارَۃِ عَلٰی مَنْ اَظْہَرَ مَعَرَّۃَ تَقَوَّلَہٌ فِی الْحِنَّاءِ وَعَوَارَہُ”رکھا تاکہ وہ اسم بامسمّی ہو جائے، کيونکہ حلّت(یعنی جائزہونے) کے بعض قائلين نے اس مسئلہ ميں مبالغہ سے اِتنا کام ليا کہ اجتہاد کا دعوٰی کر بيٹھے اور يہ گمان کرنے لگے کہ حرمت(یعنی ناجائزہونے) کے قائلين ہیں کون؟ حالانکہ وہ تمام اصحابِ مذہب بلکہ امام شافعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ہيں جيسا کہ ہم بيان کر چکے ہيں۔پھر جب کچھ زيادہ جوش ميں آئے تو بغير سوچے سمجھے اس معاملہ ميں شدت اختيار کرتے ہوئے ان خرافات اور پيچيدہ باتوں ميں بہت زیادہ کلام کرنے لگے اور ان کے نفس نے انہيں سمجھايا کہ”ان علماء کرام (رحمہم اللہ تعالیٰ) پر جو دلائل مخفی رہ گئے تھے وہ تم نے ہی تو ظاہر کئے ہيں اور یہ کہ ان کی ياحلال جاننے میں جن کی وہ پیروی کرتے ہیں اس شيخ کی تقليد کرنا ان (حرمت کے قائل ) علماء کرام (رحمہم اللہ تعالیٰ) کی تقليدکرنے سے بہتر ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس حادثے کے عظيم ضرر، بُرے اثرات اور اس شکاری جال کے لپٹنے کی وجہ سے ميں نے غور وفکر، تحقيق و تفتيش اور عزم و ہمت کی تیز دھار تلوار نکالی اور تاريکيوں کے چراغ ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی حميت کی خاطرکھلے حق کا اظہار کرنے اور اس واضح باطل کومٹانے کے لئے کتاب”زَنْدُ الْفِکْر” لکھی۔یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا موضوع بہت وسيع ہے اور اس سے صحيح رائے ظاہر ہوئی اپنے رب کی حمد کے ساتھ کہ جس کے سوا کوئی معبود نہيں اور ميں نے اسی پر توکل کيا ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
۱؎: امیر اہلِ سنت، امیر دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطَّارقادری دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب ”پردے کے بارے ميں سوال جواب ”صفحہ نمبر۲۳تا۲۵ میں ہے:”جو لوگ باوجود قدرت اپنی عورتوں اور محارم کو بے پردگی سے منع نہ کريں وہ” دَيُّوث ”ہيں، دَيُّوث کے بارے ميں حضرتِ علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃاللہ القوی” در مختار” میں لکھتے ہیں :”دیُّوث وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی بیوی یا کسی محرم پر غیرت نہ کھائے۔”(رد المحتارعلی الدرالمختار،کتاب الحدود،ج۶،ص۱۱۳)معلوم ہواکہ باوجودِقدرت اپنی زوجہ،ماں بہنوں اوراپنی جوان بیٹیوں وغیرہ کوگلیوں بازاروں،شاپنگ سنٹروں اورمخلوط تفریح گاہوں میں بے پردہ گھومنے پھرنے،اجنبی پڑوسیوں،نامَحرم رشتے داروں،غیرمَحرم ملازموں،چوکیداروں اورڈرائیوروں سے بے تکَلُّفی اوربے پردگی سے منع نہ کرنے والے دَیّوث،جنت سے محروم،اورجہنم کے حقدارہیں۔میرے آقا اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت،مجدِّدِدین وملت مولاناشاہ احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”دَیُّوث سَخْت اَخْبَثِ فاسِق(ہے)اورفاسِقِ مُعلِن کے پیچھے نمازمکروہِ تحریمی ۔اسے امام بناناحلال نہیں اوراس کے پیچھے نمازپڑھنی گناہ اورپڑھی توپھیرناواجب۔” (بحوالہ فتاویٰ رضویہ،ج۶،ص۵۸۳)