Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبيرہ نمبر132: غنی کا سوال کرنا یعنی غنی کا لالچ يا مال ميں اضافہ کی خاطر مال يا صدقيکا سوال کرنا۔

(1)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو فقر کے بغير سوال کرے گویا وہ انگارا کھا رہا ہے۔”
        (المسندللامام احمد بن حنبل، الحدیث:۱۷۵۱۶،ج۶،ص۱۶۲)
 (2)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جو شخص حاجت کے بغير لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ منہ ميں انگارے ڈالنے والےکی طرح ہے۔”
 (شعب الایمان، باب فی الزکاۃ ، فصل فی الاستعفاف عن المسئلۃ ،الحدیث: ۳۵۱۷،ج۳،ص۲۷۱)
 (3)۔۔۔۔۔۔حضرت حبش بن جنادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميں نے حجۃ الوداع کے موقع پر شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو وقوفِ عرفات کے دوران سنا کہ ايک اعرابی نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی چادر مبارک کا دامن تھام کر آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے سوال کيا، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے عطافرمایااور وہ چلا گیا، پس اس وقت سے سوال کرنا حرام ہوا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”کسی غنی اور تندرست و توانا کے لئے سوال کرنا جائز نہيں البتہ ذلت آمیز فقراورمت ماردینے والے قرضے میں مبتلاشخص کے لئے جائز ہے اور جو شخص اپنے مال ميں اضافہ کرنےکے لئے لوگوں سے سوال کریگا تو قيامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہو گی اور دہ کتے ہوئے پتھرہو ں گے جنہيں وہ جہنم ميں کھائے گا اب جو چاہے اس ميں کمی کرے اور جو چاہے اضافہ کرے۔”
 (جامع الترمذی، ابواب الزکاۃ ، باب ماجاء من لا تحل لہ الصدقۃ ،الحدیث: ۶۵۳،ص۱۷۱۰)
 (4)۔۔۔۔۔۔حضرت رزين رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی روايت ميں يہ اضافہ ہےکہ دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”ميں کسی شخص کو عطيہ ديتا ہوں تو وہ اسے اپنی بغل ميں دبا کر لے جاتا ہے حالانکہ وہ آگ ہوتی ہے۔” حضرت سيدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! جب وہ آگ ہوتی ہے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کسی کو کيوں عطا فرماتے ہيں؟” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”اللہ عزوجل ميرے لئے بخل کو ناپسند فرماتاہے اورلوگ میرے سوا کسی سے سوال کرنا ناپسند کرتے ہیں۔” صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی،”وہ غنا کون سی ہے جس کی موجودگی ميں سوال نہيں کرنا چاہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”صبح و شام کے کھانے جتنی مقدار۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (الترغیب والترہیب،کتاب الصدقات،الترہیب من المسألۃ وتحریمہا۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۲۰۲،ج۱،ص۳۸۶)
 (5)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص غنا کے باوجود لوگوں سے سوال کرے گا قيامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا سوال اس کے چہرے پر خراش ہو گا۔” عرض کی گئی :”غنا کيا ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”پچاس(50)درہم يا اس کی قيمت کا سونا۔”
 (جامع الترمذی، ابواب الزکاۃ ، باب ماجاء من لا تحل لہ الصدقۃ ،الحدیث: ۶۵۰،ص۱۷۱۰)
 (6)۔۔۔۔۔۔خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو مجھے اس بات کی ضمانت دے دے کہ کسی سے کچھ نہ مانگے گا ،ميں اسے جنت کی ضمانت ديتا ہوں۔”
 (سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، باب کراہیۃ المسئلۃ ، الحدیث:۱۶۴۳،ص۱۳۴۶)
 (7)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو ميری ايک بات مان لے گا ميں اسے جنت کی ضمانت ديتا ہوں ،وہ بات يہ ہےکہ لوگوں سےکچھ نہ مانگے گا۔”
 (سنن ابی داؤد،کتاب الزکاۃ،باب کراہیۃ المسألۃ،الحدیث ۱۶۴۳،ص۱۳۴۶)
 (8)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے ايک اوقيہ چاندی کی قيمت موجود ہو نےکے باوجود سوال کيا اس نے سوال ميں بہت اصرار کيا۔”
 (کنزالعمال، کتاب الزکاۃ ، قسم الاقوال، الفصل الثانی فی ذم السوال ۱۶۷۱۲،ج۶،ص۲۱۳)
 (9)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے 40درہم جتنی ماليت رکھنے کے باوجود سوال کيا وہ سوال ميں اصرار کرنے والا ہے۔”
 (سنن النسائی،کتاب الزکاۃ، باب من الملحف ، الحدیث: ۲۵۹۵،ص۲۲۵۶)
 (10)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو پاک دامنی چاہے اللہ عزوجل اسے پاکدامن رکھے گا اور جو غنا چاہے اللہ عزوجل اسے غنی کر دے گا اور جو 5اوقيہ چاندی کی قيمت موجود ہونےکے باوجود سوال کرے بے شک اس نے سوال ميں اصرار کيا۔”
 (المسندللامام احمد بن حنبل،الحدیث: ۱۷۲۳۷،ج۶،ص۱۰۶)
 (11)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو مال ميں اضافہ کے لئے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے، اب اس کی مرضی ہےکہ انگارے کم جمع کرے يا زيادہ۔”
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب کراھۃ المسئلۃ للناس، الحدیث: ۲۳۹۹،ص۸۴۱)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (12)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو غنا کے باوجود لوگوں سے سوال کرے وہ جہنم کے دہکتے پتھروں ميں اضافہ کرتا ہے۔” صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی”غنا سے کيا مراد ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”رات کا کھانا۔”  (کنزالعمال، کتاب الزکاۃ ، قسم الاقوال، الفصل الثانی فی ذم السوال ۱۶۷۴۵،ج۶،ص۲۱۶)
 (13)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم ميں سےکوئی ايک سوال کرتا رہے گا يہاں تک کہ جب وہ اللہ عزوجل سے ملاقات کریگا تو اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہ ہو گا۔”
 (صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب کراھۃ المسالۃ للناس، الحدیث: ۲۳۹۶،ص۸۴۱)
 (14)۔۔۔۔۔۔ اللہ کے محبوب ،دانائے غیوب منزہ عن العیوب عزجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”سوال کرنا وہ خراش ہے جسے آدمی کھجلائے گا۔”
 (جامع الترمذی، ابواب الزکاۃ ، باب ماجاء فی النھی عن المسألۃ ،الحدیث: ۶۸۱،ص۱۷۱۳)
 (15)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے :” آدمی اس کی وجہ سے اپنا منہ کھجلائے گا اب جو چاہے ان خراشوں کو باقی رکھے اور جو چاہے ترک کر دے البتہ وہ سلطان سے سوال کرسکتا ہے یاایسی چیزکا سوال کرسکتاہے جس کے بغيرکوئی چارہ نہ ہو۔”
 (سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، باب ماتجوزفیہ المسألۃ ، الحدیث:۱۶۳۹،ص۱۳۴۵)
 (16)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بندہ غنی ہونے کے باوجود سوال کرتا رہتا ہے يہاں تک کہ اپنا چہرہ بوسيدہ کر ليتا ہے پھر اللہ عزوجل کے پاس اس کا کوئی مرتبہ نہيں رہتا۔”
 (کنزالعمال، کتاب الزکاۃ ، قسم الاقوال، الفصل الثانی فی ذم السؤال،الحدیث ۱۶۷۳۷،ج۶،ص۲۱۵)
 (17)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جو شخص خود پر سوال کا دروازہ کھول دے جبکہ وہ ابھی فاقوں کا شکارنہ ہوا ہو يااس کے اہلِ خانہ ايسے نہ ہوں جو ان فاقوں کو برداشت کرنےکی طاقت نہ رکھتے ہوں تواللہ عزوجل اس پر ايسی جگہ سے فاقےکا دروازہ کھول دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔”
 (شعب الایمان، باب فی الزکاۃ ، فصل فی الاستعفاف عن المسألۃ ،الحدیث: ۳۵۲۶،ج۳،ص۲۷۴)
 (18)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”فراخ دست کا سوال قيامت کے دن تک اس کے چہرے پر عيب ہو گا۔”
    (المسندللامام احمد بن حنبل،الحدیث:۱۹۸۴۲،ج۷،ص۱۹۳)
 (19)۔۔۔۔۔۔بزارنے اس میں يہ اضافہ کیاہے :”غنی کا سوال آگ ہے اگر اسےکم مال ديا گيا تو آگ بھی کم ہو گی اور اگر زيادہ مال ديا گيا تو آگ بھی زيادہ ہو گی۔”
  (البحرالزخاربمسندالبزار ،حدیث عمران بن حصین،الحدیث:۳۵۷۲،ج۹،ص۴۹)
 (20)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے سوال کيا حالانکہ وہ سوال کرنے سے غنی تھاتو اس کا سوال قيامت کے دن اس کے چہرے پر ایک عيب ہو گا۔”
 (المسندللامام احمد بن حنبل،الحدیث:۲۲۴۸۳،ج۸،ص۳۳۱)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (21)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بيکسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ايک شخص کا جنازہ پڑھانے تشريف لائے تو ارشاد فرمايا :” اس نےکتنا ترکہ چھوڑا ہے؟” صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی،”2يا 3دينار۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اس نے 2 يا3داغ چھوڑے ہيں۔” 
    راوی کہتے ہيں ،پھر ميری ملاقات حضرت سيدنا ابو بکر صديق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سیدنا عبد اللہ بن قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی اور ميں نے انہيں يہ بات بتائی توانہوں نےکہا:”يہ شخص مال ميں اضافےکی خاطر لوگوں سے سوال کيا کرتا تھا۔”
   (شعب الایمان، باب فی الزکاۃ ، فصل فی الاستعفاف عن المسألۃ ،الحدیث: ۳۵۱۵،ج۳،ص۲۷۱)

تنبیہ:

    مذکورہ عمل کو کبيرہ گناہ شمار کرنا بالکل ظاہر ہے اگرچہ ميں نے سخت وعيد پر مشتمل ان احادیثِ مبارکہ کی بناء پر کسی کو صراحت کرتے نہيں ديکھا اور حرمت کو غنا کے ساتھ مقيد کرنا ہم بيان کر چکے ہيں۔
 (22)۔۔۔۔۔۔ شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جو سوال سے غنی کرنے والی شئےکی موجودگی میں سوال کرتا ہے وہ آگ ميں اضافہ کرتا ہے۔” ايک راوی کہتے ہيں کہ صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی،”غنا سےکيا مراد ہے جس کی موجودگی ميں سوال نہيں کرنا چاہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اتنی مقدار جس سے وہ صبح اور شام کا کھانا کھا سکے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، باب مایعطی من الصدقۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث:۱۶۲۹،ج۳،ص۴ ۱۳۴)
 (23)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جو سوال سے غنی کرنے والی شئےکی موجودگی میں سوال کرتا ہے وہ جہنم کے انگاروں ميں اضافہ کرتا ہے۔” صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی،”کون سی شئے سوال سے غنی کرتی ہے؟”توآپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”جس سے وہ صبح کا کھاناکھاسکے ياشام کا کھاناکھاسکے يااس کے پاس رات بسرکرنےکے لئے ايک ہزار(درہم) موجودہوں ۔”
 (صحیح ابن حبان ، کتاب الزکاۃ،باب المسألۃ والأخذوما یتعلق بہ ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۳۳۸۵،ج۵،ص۱۶۷)
 (24)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے، عرض کی گئی :”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! وہ غنا کيا ہے جس کی موجودگی ميں سوال نہيں کرنا چاہے؟” توآپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”اس کے پاس ايک دن اور ايک رات يا ايک رات اور ايک دن کے شکم سيرکرنے والےکھانےکا سامان موجود ہو۔”
 (سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ، باب مایعطی من الصدقۃ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث:۱۶۲۹،ج۳،ص۴ ۱۳۴)
    علامہ خطابی عليہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہيں :”لوگوں کا اس حدیثِ پاک کی تاويل ميں سخت اختلاف ہے بعض کہتے ہيں :”جو ايک دن صبح شام کا گزارا کرنےکی وسعت پائے حدیثِ پاک کے ظاہری معنی کے اعتبار سے اس کے لئے سوال کرناجائز نہيں۔” اور بعض کہتے ہيں :”يہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو روزانہ صبح شام کےکھانےکی وسعت رکھے لہٰذا جب اس کے پاس اتنا مال موجود ہو جو طويل مدت تک اس کے گزارےکے لئےکافی ہو تو اسے سوال کرنا حرام ہے۔” جبکہ ديگرحضرات کا کہنا ہے :” يہ حکم ان احادیثِ مبارکہ کے ذريعے منسوخ ہے جن ميں غنا کی مقدار 50درہم کی ملکيت يا اس کی قيمت يا ايک اوقيہ يا اس کی قيمت بيان کی گئی ہے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    جبکہ ہمارے نزديک نفلی صدقہ کا سوال کرنےکی صورت ميں پہلا قول راجح ہے اور اگر وہ زکوٰۃ کا سوال کرتا ہے تو اس پر سوال اسی صورت ميں حرام ہو گا جبکہ اس کے پاس بقيہ عمر کے اکثر حصےکے گزارے جتنا مال موجود ہو اور نسخ کا دعوی ممنوع ہےکيونکہ اس کے لئے تاريخ کاعلم اور ناسخ کا منسوخ سے متأخر ہونےکا علم ہونا ضروری ہے اور يہ بات معلوم نہيں۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!