islam
کبيرنمبر136: حاجت مند کوزائد اَزضرورت پانی سے روکنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”تین شخص ايسے ہيں جن سے اللہ عزوجل قيامت کے دن نہ کلام فرمائے گا نہ ان پر نظرِ رحمت فرمائے گا اور نہ ہی انہيں پاک کریگا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے(ان میں ایک وہ شخص ہے جو ) بيابان ميں ضرورت سے زائد پانی پر قابض ہو اور مسافر کو اس سے روک دے۔” (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۷،ص۶۹۶)
(2)۔۔۔۔۔۔ ايک اور روايت ميں ہے :”اللہ عزوجل اس سے ارشاد فرمائے گا:آج ميں تجھ سے اپنا فضل اس طرح روک لوں گا جس طرح تو نے اس چيز کو روکا جو تيرے ہاتھ کی کمائی نہيں۔”
(صحیح البخاری، کتاب المساقاۃ ، باب من رای ان صاحب الحوض ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۳۶۹،ص۱۸۵)
(3)۔۔۔۔۔۔ایک صحابی نے حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے دریافت فرمایا:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کون سی چيز جس سے منع کرنا جائز نہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”پانی۔” اس نے پھر عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کس چيزسے منع کرنا جائز نہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”نمک۔” اس نے پھر عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کس چيزسے منع کرنا جائز نہيں؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تمہارا بھلائی کے کام کرنا تمہارے لئے بہتر ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ ، باب فی منع الماء ، الحدیث: ۳۴۷۶،ص۱۴۸۲)
(4)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”لوگ تین چيزوں گھاس، پانی اور آگ ميں ایک دوسرے کے شریک (یعنی حصہ دار) ہيں۔”
(المرجع السابق، الحدیث:۳۴۷۷،ص۱۴۸۲،”الناس” بدلہ” مسلمون”)
(5)۔۔۔۔۔۔اُم لمؤمنین حضرت سيدتنا عائشہ صديقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! وہ کون سی چيز ہے جس سے منع کرنا جائز نہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”پانی، نمک اور آگ۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہيں کہ پھر ميں نے عرض کی”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اس پانی سے نہ روکنے کی حکمت تو ہم سمجھ گئے نمک اور آگ ميں کيا حکمت ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اے حميراء(بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے عطا فرمایاگیا لقب)! جس نے کسی کو آگ دی گويا اس نے اس آگ ميں پکنے والا تمام کھانا صدقہ کيا اور جس نے کسی کو نمک دیا گويا اس نے اس نمک سے (ذائقہ دار) بننے والا تمام کھانا صدقہ کيا اور جس نے کسی مسلمان کو ايسی جگہ پانی کا گھونٹ پلايا جہاں پانی موجود تھا تو گويا اس نے ايک غلام آزادکيا اور جس نے کسی مسلمان کو ايسی جگہ پانی پلايا جہاں پانی موجودنہ تھا تو گويا اس نے اسے زندہ کر ديا۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب الرھون، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث، الحدیث:۲۴۷۴،ص۲۶۲۵)
(6)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مسلمان تین چيزوں پانی، گھاس اور آگ ميں شريک ہيں اور ان کی قيمت (یعنی انہیں بیچ کرلی گئی رقم ) حرام ہے۔”
( سنن ابن ماجہ، ابواب الرھون، باب المسلمون شرکاء فی ثلاث، الحدیث:۲۴۷۲،ص۲۶۲۵)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت سيدنا ابو سعيد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں:” اس سے مراد جاری پانی ہے۔”
تنبیہ:
شيخين کی تصريح کی بناء پر اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا بالکل صريح ہے، پہلی حدیثِ پاک ميں تو سخت وعيد آئی ہے اور ايک جماعت نے اس کی تصريح کی ہے، جن ميں سیدنا جلالُ الدِّين بُلْقِينیُّ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بھی شامل ہيں، انہوں نے بھی اس شرط کو معتبر قرار ديا ہے جو ہم نے عنوان کے تحت ذکر کی ہے۔