Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
ذَوقِ نَعت ۱۳۲۶ھ برادرِ اعلیٰ حضرت شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خانشاعری

عرض سلام بدرگاہ خیرالانام عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام

عرض سلام بدرگاہ خیرالانام عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام

اَلسَّلَام اے خسروِ دنیا و دِیں
اَلسَّلَام اے راحت جانِ حزیں

اَلسَّلَام اے بادشاہِ دو جہاں
اَلسَّلَام اے سرورِ کون و مکاں

اَلسَّلَام اے نورِ ایماں اَلسَّلَام
اَلسَّلَام اے راحتِ جاں اَلسَّلَام

اے شکیبِ جانِ مضطر اَلسَّلَام
آفتابِ ذَرّہ پروَر اَلسَّلَام

دَرد و غم کے چارہ فرما اَلسَّلَام
دَرد مندوں کے مسیحا اَلسَّلَام

اے مرادیں دینے والے اَلسَّلَام
دونوں عالم کے اُجالے اَلسَّلَام

دَرد و غم میں مبتلا ہے یہ غریب
دَم چلا تیری دُہائی اے طبیب

نبضیں ساقط رُوح مضطر جی نڈھال
دَردِ عصیاں سے ہوا ہے غیر حال

بے سہاروں کے سہارے ہیں حضور
حامی و یاوَر ہمارے ہیں حضور

ہم غریبوں پر کرم فرمائیے
بد نصیبوں پر کرم فرمائیے

بے قراروں کے سرہانے آئیے
دِلفگاروں کے سرہانے آئیے

جاں بلب کی چارہ فرمائی کرو
جانِ عیسٰی ہو مسیحائی کرو

شام ہے نزدیک منزل دُور ہے
پاؤں کیسے جان تک رَنجور ہے

مغربی گوشوں میں پھوٹی ہے شفق
زَردیٔ خورشید سے ہے رنگ فق

راہ نامعلوم صحرا پرخطر
کوئی ساتھی ہے نہ کوئی راہبر

طائروں نے بھی بسیرا لے لیا
خواہش پرواز کو رخصت کیا

ہر طرف کرتا ہوں حیرت سے نگاہ
پر نہیں ملتی کسی صورت سے راہ

سو بلائیں چشمِ تر کے سامنے
یاس کی صورت نظر کے سامنے

دل پریشاں بات گھبرائی ہوئی
شکل پر اَفسردَگی چھائی ہوئی

ظلمتیں شب کی غضب ڈھانے لگیں
کالی کالی بدلیاں چھانے لگیں

ان بلاؤں میں پھنسا ہے خانہ زاد
آفتوں میں مبتلا ہے خانہ زاد

اے عرب کے چاند اے مہرِ عجم
اے خدا کے نور اے شمعِ حرم

فرش کی زینت ہے دَم سے آپ کے
عرش کی عزت قدم سے آپ کے

آپ سے ہے جلوۂ حق کا ظہور
آپ ہی ہیں نور کی آنکھوں کے نور

آپ سے روشن ہوئے کون و مکاں
آپ سے پُر نور ہے بزمِ جہاں

اے خداوند عرب شاہ عجم
کیجیے ہندی غلاموں پر کرم

ہم سیہ کاروں پہ رحمت کیجیے
تیرہ بختوں کی شفاعت کیجیے

اپنے بندوں کی مدد فرمائیے
پیارے حامی مسکراتے آئیے

ہو اگر شانِ تبسم کا کرم
صبح ہو جائے شب دِیجورِ غم

ظلمتوں میں گم ہوا ہے راستہ
المدد اے خندۂ دَنداں نما

ہاں دکھا جانا تجلی کی ادا
ٹھوکریں کھاتا ہے پردیسی ترا

دیکھیے کب تک چمکتے ہیں نصیب
دیر سے ہے لو لگائے یہ غریب

ملتجی ہوں میں عرب کے چاند سے
اپنے رب سے اپنے رب کے چاند سے

میں بھکاری ہوں تمہارا تم غنی
لاج رکھ لو میرے پھیلے ہاتھ کی

تنگ آیا ہوں دلِ ناکام سے
اس نکمے کو لگا دو کام سے

آپ کا دَربار ہے عرش اِشتِباہ
آپ کی سرکار ہے بیکس پناہ

مانگتے پھرتے ہیں سلطان و امیر
رات دن پھیری لگاتے ہیں فقیر

غمزدوں کو آپ کر دیتے ہیں شاد
سب کو مل جاتی ہے منہ مانگی مراد

میں تمہارا ہوں گدائے بے نوا
کیجے اپنے بے نواؤں پر عطا

میں غلامِ ہیچ کارہ ہوں حضور
ہیچ کاروں پر کرم ہے پر ضرور

اچھے اچھوں کے ہیں گاہک ہر کہیں
ہم بدوں کی ہے خریداری یہیں

کیجیے رحمت حسنؔ پر کیجیے
دونوں عالم کی مرادیں دیجیے

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!