islam
کبيرہ نمبر208: يتيم کامال کھانا
للہ عزوجل کا فرمانِ عایشان ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕ وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیۡرًا ﴿٪10﴾
(پ4، النساء:10)
ترجمۂ کنز الايمان: وہ جو يتيموں کا مال نا حق کھاتے ہيں وہ تو اپنے پيٹ ميں نری آگ بھرتے ہيں اور کوئی دم جاتاہے کہ بھڑکتے دھڑے (آتش کدے )ميں جائيں گے۔
حضرت سيدنا قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں:’يہ آيت مبارکہ قبيلہ غطفان کے ايک آدمی کے بارے ميں نازل ہو ئی جو اپنے نابالغ يتيم بھتيجے کے مال کا والی بنا اور اسے کھا گيا۔”
آیتِ کریمہ کے چند الفاظ کی وضاحت:
ظُلْم سے مراد يہ ہے کہ اس کی وجہ سے يا اس حال ميں کہ وہ ظالم ہيں اور حق کے ساتھ کھانا اس وعيد سے خارج ہو گيا جيسے کتب فقہ ميں مقرر کی گئی شروط کے مطابق والی کا کھانا۔
اللہ عزوجل کا فرمانِ عایشان ہے:
وَمَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ۚ وَمَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلْیَاۡکُلْ بِالْمَعْرُوۡفِ ؕ
ترجمۂ کنز الايمان:اور جسے حاجت نہ ہو وہ بچتا رہے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھائے۔(پ4، النساء:6)
يعنی ضرورت کے مطابق لے يا قرض لے يا اپنے کام کی اُجرت کے مطابق يا اگر مجبور ہو تواور اس پر آسان ہو تو ادا کرے، ہمارے نزديک صحيح يہ ہے کہ ولی اگر غنی ہو تو اس کے مال سے کچھ نہ لے اور اگر فقير ہو اور وصيت کرنے والا ہو اور بچے کو تصرف سے روکے ہوئے مال کی ديکھ بھال سے اس کے کام ميں خلل پڑيتو اس کے مال سے لے سکتا ہے اگرچہ قاضی نے فيصلہ نہ کيا ہو اور اس کی اُجرت اس کے کام اور عرف کے مطابق ہو گی جبکہ قاضی کچھ بھی نہيں لے سکتا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
باپ، دادا اور ماں جو کہ وصی ہوں ان کے لئے بھی بقدرِ ضرورت ہے کيونکہ بچے کے مال ميں ان کا نفقہ واجب ہے، اگر باپ يا دادا بچے کے مال کی ديکھ بھال نہ کر سکيں تو قاضی اس کے لئے قيمت مقرر کرے يا اسے مقرر کر کے اس کے لئے بچے کے مال ميں سے اُجرت مقرر کر ديتا کہ کوئی احسان نہ ہو لیکن اس کے لئے قاضی سے مطالبہ جائز نہيں اگرچہ فقير ہو۔
ولی کے لئے يتيم کے مال کواپنے مال سے ملانا جائز نہيں اور مخلوط مال سے مہمان نوازی کرنا بھی جائز نہيں بشرطيکہ اس ميں کوئی مصلحت ہو وہ يہ کہ اس ميں اضافہ ہو جائے بجائے اس کے کہ وہ تنہا کھاتا اور ضيافت يتيم کے خاص حصے سے زيادہ نہ ہو۔
پیٹ میں آگ بھرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے پیٹ ایک برتن کی مانند ہیں جو کہ آگ سے بھرے جاتے ہیں، یہ یا تو حقیقتاً اسی طرح ہو گا کہ اللہ عزوجل ان کے لئے ایک ایسی آگ تخلیق فرمائے گا جس کو وہ کھائیں گے، یا پھر مجازی طور پر مسبب بول کرسبب مرادلیاہے، کیونکہ سبب مسبب کی جانب لے جانے والا ہوتاہے، بہرحال اس سے مراد کسی بھی صورت میں مال کا ضائع کرنا، کیونکہ یتیم کا نقصان خواہ اس کے مال کو کھا کر یا کسی اور ذریعہ سے ضائع کر کے کیا جائے ،کوئی فرق نہیں رکھتا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
یہاں اس آیتِ مبارکہ میں خاص طور پر صرف کھانے کا ہی تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا ہے کیونکہ اس زمانے میں عام طور پر لوگوں کے اموال جانور ہوتے تھے جن کا گوشت کھایا جاتا اور دودھ پیا جاتا تھا یا اس لئے اس سے مقصود دراصل تصرفات ہیں۔ علامہ ابن دقيق العيد علیہ رحمۃاللہ الوحید کا قول ہے:”يتيم کا مال کھانا برے خاتمے کی طرف لے جاتا ہے۔” اللہ عزوجل ہمیں اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
لہٰذاجب يہ آيت مبارکہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان يتيموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملانے سے رک گئے يہاں تک کہ يہ آيت مبارکہ نازل ہوئی:
وَ اِنْ تُخَالِطُوۡہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ ؕ
ترجمۂ کنز الایمان:اور اگر اپناان کا خرچ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہيں۔(پ2، البقرۃ:220)
اس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ آیتِ مبارکہ اس گذشتہ آیتِ مبارکہ کی ناسخ ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں کیونکہ اس میں تو ظلم کے طریقہ سے مال کھانے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے لہذا یہ اس کی ناسخ کیسے ہو سکتی ہے، بلکہ یہاں مراد يہ ہے کہ ان کااختلاف ممنوع، شديد وعيد اور عذاب والا تھا اور برے انجام کی علامت تھا اور ظلم کے طور پر جو مال ليا جائے وہ عذاب کا سبب ہے ورنہ يہ عظيم نيکی ہے،لہذا پہلی آيت کریمہ پہلی شق کے بارے ميں جبکہ دوسری آيت کریمہ دوسری شق کے بارے ميں ہے اور اللہ عزوجل نے ان دونوں کو اس آيت ميں جمع کر ديا ہے:
وَلَا تَقْرَبُوۡا مَالَ الْیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ ۚ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ترجمۂ کنز الايمان:اور يتيموں کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طريقہ سے جب تک وہ اپنی جوانی کوپہنچے۔(پ8،الانعام:152)
اللہ عزوجل نے يتيموں کے حق کی تائيد فرماتے ہوئے اپنے اس فرمانِ عالیشان سے متنبہ فرمايا:
وَلْیَخْشَ الَّذِیۡنَ لَوْ تَرَکُوۡا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمْ ۪ فَلْیَتَّقُوا اللہَ وَلْیَقُوۡلُوۡا قَوْلًا سَدِیۡدًا ﴿9﴾
ترجمۂ کنز الايمان:اور ڈريں وہ لوگ اگر اپنے بعد ناتواں اولاد چھوڑتے تو ان کا کيسا انہيں خطرہ ہوتا تو چاہیے کہ اللہ سے ڈريں اور سيدھی بات کريں۔(پ4، النساء:9)
آیتِ کریمہ ميں حکم ديا جا رہا ہے کہ جس کی گود ميں يتيم بچہ ہو وہ اس سے بات چيت بھی نرم لہجے ميں کرے لہذا اسے اے بيٹے کہہ کر پکارے جس طرح اپنی اولاد کو پکارتا ہے اور اس کے ساتھ نيکی اوراحسان کرے اور اس کے مال کا خيال رکھے جس طرح اس پر واجب ہے کہ اس کے بعد اس کے مال اور اس کی اولاد کاخيال رکھے کيونکہ بدلہ عمل کی جنس سے ہوتا ہے:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿3﴾
ترجمۂ کنز الايمان:روز جزاء کا مالک۔(پ1، الفاتحہ:4)
جيسا کرو گےتمہارے ساتھ ويسا ہی کيا جائے گا اور انسان امين ہے اور غير کے مال و اولاد ميں تصرف کرنے والا ہے اور جب اسے موت آئے گی تومال، اولاد، اہل و عيال اور تمام تعلقات کے بار ے ميں جيسا اس نے کيا ہو گا اللہ عزوجل اسے ايسا ہی بدلہ دے گا اگر اچھا کيا تو اچھی جزاء اور اگر برا کيا تو بری جزاء ملے گی،پس عقل مند کو اپنی اولاد اور مال کے بارے ميں ڈرنا چاہے بشرطیکہ اسے اپنے دین پر خوف نہ ہو،اپنی پرورش میں پلنے والے یتیم بچوں پر اسی طرح اپنامال خرچ کرے جس طرح کہ اگر اس کی اولاد یتیم ہوتی تو ان کے والی پر مال خرچ کرنا ضروری ہوتا۔
(1)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے:اللہ عزوجل نے حضرت سيدنا داؤد علیہ السلام کی طرف وحی بھيجی: ”اے داؤد(علی نبينا وعليہ الصلوٰۃ والسلام)!يتيم کے لئے رحيم باپ کی طرح ہوجااوربيوہ کے لئے شفيق خاوند کی طرح ہو جا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جان لو! جيسی فصل کاشت کرو گے ايسی ہی کاٹو گے،کيونکہ ہو سکتا ہےتومرجائے اوريتيم بچہ اور بيوہ عورت چھوڑ جائے۔يتيموں کے مالوں کو کھانے اور اس ميں ظلم کرنے کے بارے ميں کئی احادیثِ مبارکہ ہيں، جن ميں لوگوں کو اس ہلاک کرنے والی فحش حرکت سے ڈرانے کے لئے شديد وعيد ذکر کی گئی ہے، ان ميں سے چنديہ ہيں: