(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :” مجھ پر ميری اُمت کے اَجر پيش کئے گئے يہاں تک کہ آدمی مسجد سے جو پر يا بال نکالتا ہے اس کا اَجر بھی پيش کيا گيا اور مجھ پر ميری اُمت کے گناہ پيش کئے گئے تو ميں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہ پايا کہ آدمی کو قرآن پاک کی کوئی سورت يا آيت دی گئی پھر اس نے اسے بھلا ديا۔”
(جامع الترمذی،ابواب فضائل القرآن ،باب لم أر ذنبا۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۱۶، ص۱۹۴۴)
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدناسعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص قرآن پڑھے اور پھر اسے بھلا دے وہ قيامت کے دن اللہ عزوجل سے کوڑھی ہو کر ملے گا۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الوتر، باب التشدید فیمن حفظ القرآن ثم نسیہ ، الحدیث: ۱۴۷۴،ص۱۳۳۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قيامت کے دن ميری اُمت کو جن گناہوں کی سزا ملے گی ان ميں سب سے بڑاگناہ يہ ہے کہ ان ميں سے کسی کو کتاب اللہ عزوجل کی کوئی سورت ياد تھی پھر اس نے اسے بھلا ديا۔”
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا وليدبن عبد اللہ بن ابو مغيث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مجھ پر گناہ پيش کئے گئے تو ميں نے قرآن پڑھ کر بھلا دينے والے کے گناہ سے بڑا کوئی گناہ نہيں ديکھا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب فضائل القرآن،باب فی نسیان القرآن،الحدیث:۴،ج۷،ص۱۶۳)
(5)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو قرآن پڑھے پھر اسے بھلا دے وہ اللہ عزوجل سے کوڑھی ہو کر ملے گا۔” (المرجع السابق،الحدیث:۱،ج۷،ص۱۶۲”سعد”بدلہ ”سعید”)
(6)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے کہ سیِّدُ المبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :”جس نے قرآن سيکھا پھر اسے بھلا ديا وہ اللہ عزوجل سے کوڑھی ہو کر ملے گا۔”
(مصنف عبدالرزاق،کتاب فضائل القرآن،باب تعاھد القرآن ونسیانہ، الحدیث:۱۶۳۴،ج۳،ص۲۲۳)
تنبیہات
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ1:
قرآنِ پاک بھلا دينے کو سیدنا امام رافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغيرہ کی اتباع ميں کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ الروضۃ ميں ارشاد فرماتے ہيں :” سیدناامام ابو داؤد اور امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ اس حديثِ پاک کی سند ضعيف ہے کہ ”مجھ پر ميری اُمت کے گناہ پيش کئے گئے تو ميں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہيں پايا کہ آدمی کو قرآنِ پاک کی کوئی سورت يا آيت دی گئی پھر اس نے اسے بھلا ديا۔”اور سیدنا امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خود اس پر کلام فرمايا ہے۔”
سیدناامام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جس قول کی طرف سیدنا رافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اشارہ کيا ہے وہ یہ ہے :”يہ حدیثِ پاک غريب ہے ہم اس سند کے علاوہ اس کی دوسری سند نہيں جانتے اور ميں نے سیدنا امام محمد بن اسماعيل بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس حدیثِ پاک کے بارے ميں پوچھا تو وہ بھی اسے نہيں جانتے تھے انہوں نے اس حدیثِ پاک کو غريب قرار ديااور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا:”ہم مُطَّلِبْ بن حَنْطَبْ کے کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثِ پاک سننے کے بارے ميں نہيں جانتے، سیدناابو عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں :”سیدنا علی بن مدينی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مُطَّلِب کے حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثِ پاک سننے کا انکار کيا ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس تفصيل سے سیدنا امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قول کہ ”اس کی ا سناد ميں ضعف يعنی انقطاع ہے۔”کا مطلب بھی ظاہر ہو گيا کيونکہ اس کے راوی مطَّلب ميں کوئی ضعف نہيں کیونکہ ايک جماعتِ محدثين نے انہيں ثقہ قرار ديا ہے۔ مگر سیدنا محمد بن سعيد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں:”اس کی حدیثِ پاک سے استدلال نہيں کيا جا سکتا کيونکہ وہ اکثرنبی کریم ،رؤف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ارسال(یعنی جس حدیث کی سند کے آخر سے راوی ساقط ہوں ) کرتا ہے حالانکہ اسے ملاقات کا شرف حاصل نہيں ہوا۔” اور سیدناامام دار قطنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بيان کيا ہے :”اس روایت ميں ايک اور انقطاع بھی ہے وہ يہ ہے کہ اسی مُطِّلْب سے روايت کرنے والے راوی سیدنا ابن جريج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مُطِّلبْ سے کوئی حدیثِ پاک سنی ہی نہيں جيسا کہ مطَّلب نے حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی حدیثِ پاک نہيں سنی، لہٰذا يہ حدیثِ پاک اس سند کے مطابق ثابت نہيں اور يہ جو کہا گيا ہے کہ انہوں نے کسی صحابی سے کوئی حدیثِ پاک نہيں سنی تواس کاردحافظ منذری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا يہ قول کرتا ہے کہ انہوں نے حضرت سیدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے۔”
اوراس حدیثِ پاک :”جو قرآن کریم پڑھے پھر اسے بھلا دے تو قيامت کے دن اللہ عزوجل سے کوڑھی ہو کر ملے گا۔” ميں اِنقطاع اور اِرسال دونوں ہيں، نیز سیدنا امام ابو داؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سکوت پر يہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس ميں يزيد بن ابی زياد ہے اور بہت سے محدثين کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزديک اس کی حدیثِ پاک سے حجت پکڑنا درست نہيں، مگر ابو عبيد آجری سیدناامام ابو داؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے سے کہتے ہيں :”ميں کسی کو نہيں جانتا جس نے ان کی حدیثِ پاک چھوڑی ہو مگر ان کے علاوہ ديگر راوی مجھے ان سے زيادہ پسند ہيں۔” ابن عدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہيں :”يہ اہلِ کوفہ کے شيعوں ميں سے تھا اس کے ضعف کے باوجود اس کی روایات لکھی جاتی ہيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ2:
الروضۃکی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ يہ سیدنا امام رافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گذشتہ قول يعنی اس کے کبيرہ ہونے کے موافق ہے کيونکہ انہوں نے حکم ميں اس پر کوئی اعتراض نہيں کيا، صرف حدیثِ پاک کے ضعف کا افادہ فرما ديا، اسی لئے الروضۃ کو مختصر کرنے والے اور ديگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اسی طريقہ پر چلے اور اسی سے سیدنا صلاح علائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا القواعد ميں بيان کردہ قول واضح ہو جاتا ہے کہ سیدنا امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں :”ميرا قرآن کریم بھلانے کو کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا اس ميں وارد حدیثِ پاک کی وجہ سے ہے۔” ان کے اس قول کو اختيار کرنے کی وجہ سے سیدنا امام رافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسے برقرار رکھا اور يہ ان کے اختيار اور اعتماد سے ظاہرہے، البتہ ان کا یہ قول محلِ نظر ہے :”اس ميں حدیثِ پاک وارد ہوئی ہے۔”کيونکہ انہوں نے اس حدیثِ پاک کی وجہ سے اسے گناہ کبيرہ نہيں کہا اور وہ کہہ بھی کيسے سکتے ہيں کہ خود ہی تو اس کے ضعف اور اس ميں کئے گئے طعن کی نشاندہی کی،سیدنا امام رافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے اسے برقرار رکھنے کا سبب معنٰی کے اعتبار سے ہے اگرچہ اس کی دليل ميں اِنقطاع و اِرسال وغيرہ ہے اور بعض اوقات اس روایت کے تعددِ طرق سے اس کمی کو پورا کر ليا جاتا ہے۔
مَیں نے سیدنا علائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام ميں سابقہ جہت کے مطابق محلِ نظر ہونے کے باوجود اس کی جو توجيہہ بيان کی ہے وہ علامہ جلال بلقينی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول سے معلوم ہوئی تھی، انہوں نے سیدنا امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام ميں اس کے کبيرہ ہونے کے قول کو اختيار کرنے کا تذکرہ نہيں کيا جبکہ سیدنا علائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کا تذکرہ کيا ہے اور اس سے سیدنا زرکشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کا بھی رد ہوتا ہے کہ انہوں نے الروضۃ ميں قرآنِ کریم بھلا دينے کے کبيرہ گناہ ہونے کے معاملے ميں سیدنا امام رافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مخالفت کی ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ3:
علامہ خطابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں کہ حضرت سیدنا ابوعبيدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لفظ”اجذم ”سے کٹے ہوئے ہاتھ والا شخص مراد لیا ہے جبکہ سیدنا ابن قتيبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہيں کہ” اجذم”سے مراد کوڑھی ہونا ہے اور سیدنا ابنِ اعرابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں کہ اس کا مطلب ہے کہ نہ تو اس کے پاس کوئی حجت ہو اور نہ اس ميں کوئی بھلائی، سیدنا سويد بن غفلہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی يہی معنی منقول ہے۔
تنبیہ4:
سیدنا جلال بلقينی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور سیدنا زرکشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغيرہ فرماتے ہيں کہ جن لوگوں نے اسے کبيرہ گناہ قرار ديا ہے ان کے نزديک يہ اس وقت کبيرہ ہو گا جب کوئی لاپرواہی اورسستی کرتے ہوئے اسے بھلائے گا گويا انہوں نے اپنی اس بات سے بے ہوشی اور قرآنِ کریم کی تلاوت سے روکنے والے مرض کو خارج کر ديا ہے، ايسی صورت ميں بندے کا گناہ گار نہ ہونا بالکل واضح ہے کيونکہ وہ اس صورت ميں مجبور ہے اور کوئی اختيار نہيں رکھتا جبکہ ايسے مرض کی صورت ميں قرآنِ پاک سے غفلت اختيار کرنے سے بندہ گناہ گار ہو گا جس کی موجودگی تلاوتِ قرآنِ کریم سے رُکاوٹ نہيں، اگرچہ اس کی غفلت ايسی چيز کے سبب ہو جو تلاوتِ قرآنِ کریم سے اہم اور مؤکد ہو، جيسے فرض علوم وغيرہ کيونکہ علم سيکھنے کی يہ شان نہيں کہ اس کی وجہ سے بندہ ياد کئے ہوئے قرآنِ کریم سے اتنی غفلت برتے کہ اسے بھلا ہی دے، علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اس قول :”قرآنِ کریم کی ايک آيت بھی بھلا دينا کبيرہ گناہ ہے۔” سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے يقين کی درمیانی صفت کے ذريعے اسے ياد کر ليا يعنی جو اس ميں توقف کرتا ہو يا اکثر غلطی کرتا ہو اس پرواجب ہے کہ اسی صفت پر قائم رہے، لہٰذا اسے اپنے حافظے ميں کمی کرنا حرام ہے جبکہ اس ميں اضافہ کرنا اگرچہ ايک مؤکد امر ہے اور مزيد سہولت کے حصول کے لئے ا س پر توجہ دينی چاہے مگر ايسا نہ کرنا گناہ ثابت نہيں کرتا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سیدناامام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اُستاد اور سیدنا ابن صلاح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگرد سیدنا ابو شامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قرآنِ کریم بھلا دينے کے بارے ميں وارد احاديث کو قرآنِ کریم پر عمل تر ک کر دينے پر محمول کيا ہے کيونکہ بھلا دينے سے مراد دراصل اس پر عمل ترک کر دينا ہی ہے جيسا کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
وَلَقَدْ عَہِدْنَاۤ اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبْلُ فَنَسِیَ
ترجمۂ کنز الایمان:اور بے شک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ايک تاکيدی حکم ديا تھا تو وہ بھول گيا۔(پ16، طٰہٰ:115)
سیدنا ابو شامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں :”قيامت کے دن قرآنِ پاک کی دو حالتيں ہوں گی: (۱)جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کرنا نہ بھولا قرآن اس کی شفاعت کریگا اور (۲)جو اسے بھلا دے گا يعنی سستی کے باعث اس پر عمل کرنا چھوڑ دے گا قرآنِ پاک اس کی شکايت کریگا اور جس نے سستی کرتے ہوئے اس کی تلاوت بھلا دی اس کا بھی يہ حال ہونا بعيد نہيں۔”
گذشتہ احاديثِ مبارکہ ميں مذکور نسيان(یعنی بھلا دینے )سے يہی ظاہر ہوتا ہے اور اس سے ان کے گمان کی بجائے يہی مراد ہے عنقريب بخاری شريف کی کتاب الصلوٰۃکی حدیثِ پاک ميں قرآنِ پاک ياد کر کے بھلا دينے اور فرض نماز سے غفلت بَرَت کر سوئے رہنے والے کے بارے ميں ايک سخت عذاب کی وعيد ذکر ہو گی اور يہ نسيان قرآنِ کریم کے معاملے ميں بالکل ظاہر ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ5:
سیدناامام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں :”يہ نہيں کہا جائے گا کہ جب پورا قرآن حفظ کرنا فرضِ عين نہيں تو اسے بھلا دينے والے کی مذمت کيوں کی جاتی ہے؟” کيونکہ ہم تو يہ کہتے ہيں کہ جو قرآن پاک ياد کرتا ہے اس کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ذات اور قوم ميں معزز ہو جاتا ہے اور ایسا کيونکر نہ ہو کہ جس نے قرآن کریم ياد کر ليا اس کے پہلو ميں نبوت کا فيضان رکھ ديا گيا اور وہ ان لوگوں ميں شامل ہو گيا جنہيں اہل اللہ اور مقرب کہا جاتا ہے، تو جس کا مرتبہ ايسا ہو اور وہ اپنے مرتبے ميں کوتاہی کرے تو اس کی سزا کا سخت ہونا ہی مناسب ہے اور اس سے ايسی باتوں پر مؤاخذہ ہو گا جن پر دوسروں سے مؤاخذہ نہ ہو گا اور قرآن پاک کی تلاوت ترک کرنے کی عادت جہالت کا سبب ہے۔