islam
کبيرہ نمبر85 شرا ئط پائے جانے کے باوجود شہر یاگاؤں کے تمام لوگوں کافرض نماز کی جماعت ترک کرنے پر متفق ہوجانا
(1)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بے شک ميں نے ارادہ کیاکہ نمازقائم کرنے کا حکم دوں اور پھر کسی کو لوگوں کی امامت کرانے کا حکم دوں اور خود اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑيوں کے گٹھے ہوں ان کی طرف لے چلوں جو جماعت ميں حاضر نہيں ہوتے اور ان پر ان کے گھر جلا دوں۔”
( صحیح مسلم ،کتاب المساجد ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ وبیان التشدید۔۔۔۔۔۔ الخ ،الحدیث:۱۴۸۲،ص۷۷۹)
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميں نے رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوارشاد فرماتے ہوئے سنا :”جس گاؤں يا شہر ميں تینشخص ہوں اور ان ميں نماز قائم نہ کی جاتی ہو تو ان پر شيطان غالب آجاتا ہے، لہذا جماعت کو لازم پکڑو کيونکہ بھيڑيااسی بکری کا شکا ر کرتا ہے جو ريوڑ ميں سے پيچھے رہ جاتی ہے۔”
( سنن النسائی،کتاب الامامۃ ، باب التشدید فی ترک الجماعۃ ، الحدیث ۸۴۸ ، س ۲۱۴۱)
(3)۔۔۔۔۔۔جبکہ رزين کی روايت ميں يہ اضافہ ہے :” شيطان انسان کے لئے بھیڑیا ہے، جب وہ اسے اکيلا پاتا ہے تو شکار کر ليتا ہے۔”
(الترغیب والترہیب،کتاب الصلاۃ،باب الترہیب من ترک۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۶۲۲،ج۱،ص۲۰۳)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(4)۔۔۔۔۔۔خاتَم ُالْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل نے تین شخصوں پر لعنت فرمائی ہے: (۱)جو قوم کا امام بنے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں (۲)وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو اور (۳)وہ شخص جو حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ،حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ سنے مگر اس کا جواب نہ دے (یعنی نماز پڑھنے نہ آئے) ۔ ”
(جامع الترمذی ، ابواب الصلوۃ ، باب ماجاء فیمن ام قوما۔۔۔۔۔۔ الخ ، الحدیث:۳۵۸،ص۱۶۷۶)
(5)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :”جو کل قيامت میں اللہ عزوجل سے مسلمان ہو کر ملنا چاہتا ہے تو پانچوں نمازوں کی پابندی کرے جب ان کی اذان کہی جائے کيونکہ اللہ عزوجل نے تمہارے نبی حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے سننِ ھُدیٰ مشروع فرمائی (يعنی ہدايت کے طريقے مشروع فرمائے ہيں ) اور يہ نمازيں سُننِ ھُدی سے ہيں اور اگر تم نے اپنے گھروں ميں نماز پڑھ لی جيسے یہ جماعت سے پيچھے رہ جانے والا شخص پڑھ لیتا ہے تو تم نے اپنے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنت کو ترک کر ديا اور اگر تم نے اپنے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنت کو چھوڑ ديا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص اچھی طرح پاکيزگی حاصل کرے پھر کسی مسجد کا ارادہ کرے تو اللہ عزوجل اسے ہر قدم چلنے پر ايک نيکی عطا فرمائے گا، اس کا ايک درجہ بلند فرمائے گا اور اس کا ايک گناہ مٹائے گا،(حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں)کہ جماعت سے صرف وہی منافق پيچھے رہتا جس کا نفاق معلوم ہوتا اورایک شخص کو دوافراد سہارا دے کر لاتے اور صف ميں لا کر کھڑا کر ديتے۔”
( صحیح مسلم ،کتاب المساجد ،باب صلوۃ الجماعۃ من سنن الھدی ، الحدیث:۱۴۸۸،ص۷۷۹)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(6)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے :”ہم نے اپنے کو اس حالت میں دیکھاکہ نماز (باجماعت) سے صرف وہی منافق پيچھے رہتا جس کے نفاق کا علم ہوتا يا مريض ، اگر وہ مريض ہوتا تو دوشخصوں کے سہارے چل کر نماز کے لئے حاضر ہو جاتا۔”حضرت سيدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا کہ رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دل کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہميں سننِ ھدی تعلیم دی اور وہ مسجد جس ميں اذان کہی جاتی ہے اس ميں نماز پڑھنا بھی سننِ ھدی سے ہے۔” (المرجع السابق)
(7)۔۔۔۔۔۔ایک روايت ميں ہے :”اگر تم نے اپنے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنت کو چھوڑ ديا تو گمراہ ہو جاؤ گے۔”
( صحیح مسلم ،کتاب المساجد ،باب صلوۃ الجماعۃ من سنن الھدی ، الحدیث:۱۴۸۸،ص۷۷۹)
(8)۔۔۔۔۔۔ ایک اورروایت میں ہے :” اگر تم نے اپنے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنت کو چھوڑ ديا تو کافر ہو جاؤ گے۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ، باب تشدید فی ترک الجماعۃ الحدیث:۵۵۰،ص۱۲۶۴)
(9)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”پورا جفا کاری، کفرا ورنفاق یہ ہے کہ کوئی اللہ عزوجل کے منادی کو نماز کی نداء ديتے ہوئے سنے تواسے جواب نہ دے۔” ( المسند للامام احمد بن حنبل ،حدیث معاذبن انس الجہنی، الحدیث ۱۵۶۲۷ ، ج۵،ص ۳۱۱)
(10)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مؤمن کی بد بختی اور رسوائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مؤذن کو نماز کے لئے اقامت کہتے ہوئے سنے پھر بھی اسے جواب نہ دے (یعنی نماز ميں حاضر نہ ہو)۔” ( المعجم الکبیر،الحدیث:۳۹۶ ، ج۲۰ ، ص ۱۸۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(11)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بے شک ميں نے ارادہ کيا ہے کہ اپنے جوانوں کو لکڑياں اکٹھی کرنے کا حکم دوں پھربغیرکسی عذر کے اپنے گھروں ميں نماز پڑھنے والی قوم کے پاس آؤں اور ان کے گھروں کو ان پر جلا دوں۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ،باب تشدید فی ترک الجماعۃ الحدیث:۵۴۸،ص۱۲۶۴)
سیدنا يزيد بن اصم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گيا :”کيا اس سے جمعہ کی نماز مراد ہے يا کوئی دوسری؟” تو انہوں نے ارشاد فرمايا :”اگر ميں نے حضرت سيدناابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضورنبی کریم ،رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے روایت کرتے ہوئے نہ سنا ہو تو ميرے کان بہرے ہو جائيں، انہوں نے نہ تو جمعہ کا ذکر فرمایا اور نہ ہی کسی دوسری نماز کا۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ،باب تشدید فی ترک الجماعۃ الحدیث:۵۴۹،ص۱۲۶۴)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(12)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن اُم مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مسجد ميں تشريف لائے اورلوگوں کو کم تعداد میں پایا تو ارشاد فرمايا :”میں چاہتا ہوں کہ کسی کو لوگوں کا امام بناؤں پھر جاؤں اور نماز سے پيچھے رہ جانے والے جس شخص پر بھی قدرت پاؤں اس پر اس کا گھر جلا دوں۔” (نابینا ہونے کی وجہ)حضرت سيدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :”ميرے اور مسجد کے درميان درخت اور باغات ہيں اور ميں ہر وقت کسی رہنما پر قدرت بھی نہيں پاتا کيا مجھے اجازت ہے کہ ميں اپنے گھر پر نماز پڑھ ليا کروں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”کيا تم اقامت کی آواز سنتے ہو ؟” تو انہوں نے عرض کی :”جی ہاں، توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”پھر نمازکے لئے آيا کر و۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل ،حدیث عمروبن اُم مکتوم، الحدیث:۱۵۴۹۱،ج۵،ص۲۷۷،۲۷۸)
(13)۔۔۔۔۔۔مسلم شریف میں ہے،ايک نابينا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ رسالت مآب علی صاحبہاالصلوٰۃ ولسلام میں عرض کی :”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميرے پاس کوئی ايسا شخص نہيں ہے جو مسجد تک ميری رہنمائی کرے۔” پھرانہوں نے حضورنبئ کریم ،رؤف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے (گھر میں نماز پڑھنے کی) رخصت طلب کی توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے رخصت عطا فرما دی، لیکن جب وہ واپس جانے لگے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے بلاکر دریافت فرمایا :”کيا تم نماز کی نداء یعنی اذان سنتے ہو؟ ”تو انہوں نے عرض کی :”جی ہاں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”پھرجواب ديا کرو (يعنی جماعت ميں حاضر ہوا کرو)۔”
(صحیح مسلم،کتاب المساجد،باب یجب اتیان المسجد علی من الخ،الحدیث:۱۴۸۶،ص۷۷۹)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(14)۔۔۔۔۔۔ابو داؤد شریف میں ہے کہ حضرت سيدنا ابن اُم مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ نبوی علی صاحبہاالصلوٰۃ ولسلام میں حاضر ہوکر عرض کی : ”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مدینہ شریف میں موذی جانوروں کی کثرت ہے جبکہ میں نابیناہوں اورگھر بھی دور ہے اور کوئی مناسب رہنما بھی نہیں جو مجھے لے آیا کرے تو کیا مجھے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے استفسار فرمایا ”کیا تُو اقامت کی آواز سنتا ہے؟” انہوں نے عرض کی ”جی ہاں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”پس تم حاضر ہوا کرو کیونکہ میں تمہیں دینے کے لئے کوئی رخصت نہیں پاتا۔”
( سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ،باب التشدید فی ترک الجماعۃ ، الحدیث ۵۵۲، ص ۱۲۶۴ )
(15)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”لوگ ترکِ جماعت سے ضرورباز آجائيں یا پھر ميں ان کے گھروں کوجلا دوں گا۔”
( سنن ابن ماجہ ،ابواب المساجد ، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ، الحدیث ۷۹۵، ص ۲۵۲۴)
(16)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، باِذنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جو حالتِ صحت اور فراغت ميں اذان سنے، پھر بھی مسجد ميں حاضر نہ ہو تو اس کی کوئی نماز نہيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( المستدرک،کتاب الامامۃ وصلوۃ الجماعۃ، باب لاصلاۃ لجارالمسجدالافی المسجد،الحدیث ۹۳۴، ص۵۱۹ )
(17)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جو نماز کے لئے اذان دينے والے کی آواز سنے تو کوئی عذر اسے نماز ميں حاضری سے نہ روکے۔” عرض کی گئی :”عذر کيا ہے ؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”خوف يا مرض اور اس نے جو نماز (گھر ميں) پڑھی وہ قبول نہ ہو گی۔”
( سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب التشدید فی ترک الجماعۃ ، الحدیث ۵۵۱ ، ص ۱۲۶۴ )