حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے
حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے
بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوَری پر ہے
نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ مونھ قابل دکھانے کے
مگر اُن کا کرم ذَرَّہ نواز و بندہ پروَر ہے
خبر کیا ہے بھکاری کیسی کیسی نعمتیں پائیں
یہ اونچا گھر ہے اس کی بھیک اَندازہ سے باہر ہے
تصدق ہو رہے ہیں لاکھوں بندے گرد پھر پھر کر
طوافِ خانۂ کعبہ عجب دلچسپ منظر ہے
خدا کی شان یہ لب اور بوسہ سنگ اَسود کا
ہمارا مونھ اَور اس قابل عطائے ربِّ اَکبر ہے
جو ہیبت سے رُکے مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کر
چلے آؤ چلے آؤ یہ گھر رَحْمٰن کا گھر ہے
مقامِ حضرتِ خلت پدر سا مہرباں پایا
کلیجہ سے لگانے کو حطیم آغوشِ مَادَر ہے
لگاتا ہے غلافِ پاک کوئی چشم پرنم سے
لپٹ کر ملتزم سے کوئی محوِ وصلِ دِلبر ہے
وطن اور اس کا تڑکا صدقے اس شامِ غریبی پر
کہ نورِ رُکن شامی رُوکشِ صبح منور ہے
ہوئے اِیمان تازہ بوسۂ رُکن یمانی سے
فدا ہو جاؤں یمن و اَیمنی کا پاک منظر ہے
یہ زمزم اس لئے ہے جس لئے اس کو پئے کوئی
اسی زَمزم میں جنت ہے اسی زَمزم میں کوثر ہے
شفا کیوں کر نہ پائیں نیم جاں زہر معاصی کے
کہ نظارہ عراقی رکن کا تریاقِ اَکبر ہے
صفائے قلب کے جلوے عیاں ہیں سعی مسعٰی سے
یہاں کی بے قراری بھی سکونِ جانِ مضطر ہے
ہوا ہے پیر کا حج پیر نے جن سے شرف پایا
انہیں کے فضل سے دن جمعہ کا ہر دن سے بہتر ہے
نہیں کچھ جمعہ پر موقوف اَفضال و کرم اُن کے
جو وہ مقبول فرما لیں تو ہر حج حج اَکبر ہے
حسنؔ حج کر لیا کعبہ سے آنکھوں نے ضیا پائی
چلو دیکھیں وہ بستی جس کا رَستہ دِل کے اندر ہے