عتیق کہنے کی وجہ
عتیق کہنے کی وجہ:
بیت اللہ شریف کو عتیق اس لئے کہتے ہیں کہ ”اللہ عزَّوَجَلَّ نے اسے زمین سے دوہزارسال پہلے پیدا فرمایا اور اس کو ظالم اور جابرلوگوں کے قبضے سے آزاد رکھااور اس پر کسی ظالم وجابرکو مسلّط نہ کیابلکہ جس نے بھی بُراارادہ کیا وہ ہلاک ہو گیا ۔” حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں کہ اس کو عتیق کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جس نے بھی اس کا طواف کیا وہ جہنم سے آزاد ہو گیا ۔”
امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی عتیق کہا جاتا ہے۔پس جو شخص نماز میں قبلہ شریف کی طرف رُخ نہ کرے اس کی نماز قبول نہیں اور جو امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولایت کی گواہی نہ دے اس کی زکوٰۃ قبول نہیں۔
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن سلیمان علیہ رحمۃ الرحمن بیان فرماتے ہیں کہ”جب حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام زمین پر جلوہ فرما ہوئے توآپ علیہ السلام نے بَیْتُ اللہ شریف کے سات چکرلگائے، پھر دو رکعت نماز پڑھ کرملتزَم کے پاس آئے اور عرض کی: ”اے اللہ عزَّوَجَلَّ! تو میرے ظاہر وباطن کوجانتا ہے، میری معذرت قبول فرما لے اور تو جانتاہے جو کچھ میرے دل میں ہے پس میرے گناہوں کو بخش دے اور تومیری حاجت بھی جانتا ہے لہٰذاوہ بھی پوری فرما دے۔ اے اللہ عزَّوَجَلَّ!میں تجھ سے ایسے
ایمان اور یقینِ صادق کا سوال کرتا ہوں جو میرے دل میں بس جائے یہاں تک کہ میں یقین کر لوں کہ مجھے وہی تکلیف پہنچ سکتی ہے جو تو نے میرے لئے لکھ دی ہے اور اس پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں جس کا تو نے میرے بارے میں فیصلہ فرمادیا ہے۔” تو اللہ عزَّوَجَلَّ نے وحی فرمائی: ”اے آدم (علیہ السلام)! میں نے تیری تمام دعائیں قبول فرمائیں اور تیری اولاد میں سے جو شخص بھی دعا کریگا میں اس کے غم واَلَم اور تنگی دُور کردوں گا، اس کے دل سے فقر کاغم نکال کر اُسے بے نیاز کر دوں گا اوراُسے وہاں سے رزق دوں گا جہاں اُسے گمان بھی نہ ہو گا اور دُنیا اس کے پاس ذلیل ہو کرآئے گی اگرچہ وہ اس کی خواہش نہ رکھتاہو۔”
(اخبار مکۃ للازرقی، باب ما جاء فی الملتزم والقیام فی ظھر الکعبۃ، الحدیث۴۹۴،ج۲،ص۹۲۔ المعجم الاوسط، الحدیث۵۹۷۴، ج۴، ص۲۷۵)