اولیائے کرام کے لئے زمین سمٹ جاتی ہے:
اولیائے کرام کے لئے زمین سمٹ جاتی ہے:
حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”میں بصرہ میں پانچوں نمازیں مقامی مسجد میں پڑھا کرتا تھا جو ”مَسْجِدُ الخَشَّابِیْن یعنی لکڑیاں بیچنے والوں کی مسجد” کے نام سے معروف تھی اور اس کے امام مغرِب سے تعلق رکھتے تھے، جن کو ابوسعید کہا جاتا تھاجو نیکی کے کاموں میں مشہور تھے اور مسجد میں نمازِ فجر کے بعد بیان کیا کرتے تھے۔ ایک سال میں حج کے لئے روانہ ہوا۔وہ شدید گرمی کاسال تھا۔ عام طور پررات کو میں اپنے رفقاء سے آگے نکل جاتا اور سو جاتا پھر میرے دوست مجھے آملتے، ایک رات اسی طرح میں راستے سے ہَٹ کر سویا ہوا تھا کہ قافلہ آگے نکل گیا اور میرے دوستوں کو میری خبر تک نہ ہوئی، میں سویا رہا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔جب بیدار ہواتو میں نہیں جانتا تھاکہ یہ کون ساراستہ ہے،میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے عرض کی : ”اے میرے مولیٰ عزَّوَجَلَّ! تو مجھے کہاں لے آیا اور اپنے گھر سے بھی دور کردیا۔”بہرحال میں چلتا رہا یہاں تک کہ تھک گیا ۔ گرمی بھی شدید تھی ،میں زندگی سے مایوس ہو گیا اورریت کے ٹیلے پر موت کا انتظار کرنے لگا۔اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص مجھے پکار رہاہے، میں کھڑا ہوا ، دیکھا تو وہ ہمارے امام مسجد حضرتِ سیِّدُناشیخ ابو سعید علیہ رحمۃاللہ المجیدتھے۔ انہوں نے پوچھا: ”کیاآپ بھوکے ہیں؟میں نے عرض کی:”جی ہاں۔” توانہوں نے مجھے ایک گرما گرم روٹی دی ،میں نے کھائی تو میری سانس بحال ہوگئی ، مجھے پیاس لگی تو انہوں نے مجھے ایک چمڑے کا تھیلا دیاجس میں شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈاپانی تھا ۔ میں نے پیا اور چہرے کو بھی دھویا تومیری تازگی اورراحت لوٹ آئی۔
پھر انہوں نے مجھ سے ارشاد فرمایا:” میرے پیچھے چلو۔” میں تھوڑی دیر تک آپ کے پیچھے چلا تو مکہ مکرمہ جا پہنچا ۔ انہوں نے ارشاد فرمایا:”یہیں ٹھہر جاؤ، تین دن بعد تمہارے دوست یہاں پہنچ جائیں گے۔”پھر مجھے ایک روٹی دے کر چلے گئے میں نے اس روٹی کا ایک ہی لقمہ کھایا تو سَیر ہو گیا۔ میں نے وہ روٹی تین دن اپنے پاس رکھی یہاں تک کہ میرے رفقاء آگئے۔ جب میں نے عرفہ میں وقوف کیا تو حضرتِ سیِّدُناشیخ ابو سعید علیہ رحمۃاللہ المجید کو ایک چٹان کے قریب دعامیں مشغول کھڑے ہوئے دیکھا۔میں نے سلام عرض کیا، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فارغ ہوکر سلام کا جواب دیا اورپوچھا: ”کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟”میں نے عرض کی:”دعا فرما دیں۔” انہوں نے دعا کی پھر ہم پہاڑسے اُتر آئے۔ اس کے بعد آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مجھے نظر نہ آئے۔ میں حج ادا کرکے بصرہ واپس آگیا اور گھر میں رات گزاری۔ جب صبح ہوئی تو حضرتِ سیِّدُناشیخ ابو سعید علیہ رحمۃاللہ المجید کے پیچھے مسجد میں صبح کی نماز پڑھی۔ جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے سلام اور مصافحہ کیا۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے مصافحہ کیا اور میرے ہاتھ کو دَبایا۔میں سمجھ گیا کہ راز کو ظاہر نہیں کرنا۔ مسجد کا مؤذن آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بہت خدمت
کیا کرتا تھا، میں نے اس سے ایّامِ حج میں مسجدسے حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابو سعید علیہ رحمۃ اللہ المجیدکی عدم موجودگی کے متعلق پوچھا تو اس نے قسم کھائی کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے پانچوں نمازیں اسی مسجد میں ادا فرمائیں۔ تو میں نے جان لیاکہ یہ بزرگ، انسانوں کے سردار ابدال میں سے ہیں ۔”
حضرتِ سیِّدُناعبدالصمد بغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں: ”میں بغداد سے یمن سمندر کے راستے سفر کرتاتھا اور ہرسال حج کیا کرتا۔ ایک سال منیٰ وعرفہ کے درمیان راستے میں خوبصورت، صاف سُتھرے لباس میں ملبوس ایک نوجوان کو دیکھاگویا اس کا چہرہ روشن چراغ تھا۔ وہ سَر کے نیچے پتھررکھ کر ریت پر لیٹاہواموت سے لڑ رہا تھا یعنی مرنے کے قریب تھا۔ میں نے آگے بڑھ کراسے سلام کیا اور پوچھا: ”کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟” تواس نے جواب دیا: ”ہاں! آپ میرے پاس کھڑے رہیں یہاں تک کہ میں سانس پورے کرکے اپنے رب عَزَّوَّجَل سے جاملوں۔” میں نے عرض کی:”آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟” اس نے کہا : ”جب میں مر جاؤں تو مجھے دفن کر دینا اور میرے کندھے سے یہ تھیلی لے لینا، جب آپ یمن میں مقامِ صنعاء پر پہنچیں تو ”دارُالوزارۃ”کے متعلق پوچھنا۔ وہاں سے ایک بڑھیا اوراس کی بیٹیاں نکلیں گی، اُن کو یہ تھیلی دے کر کہنا کہ مسافر عثمان نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ پھر وہ نوجوان بے ہوش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد جب ہوش میں آیا تو یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کر رہا تھا :
(1) ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوۡنَ ﴿52﴾
ترجمۂ کنزالایمان: یہ ہے وہ جس کا رحمن نے وعدہ دیا تھااور رسولوں نے حق فرمایا۔( پ 23، یٰسۤ :52)
پھر اس نے ایک چیخ ماری اور دنیا سے کُوچ کر گیا، میں نے اس کو غسل دیا اور کفن پہنایا، اس کا چہرہ نور سے دَمَک رہا تھا۔ میں نے لوگوں کے ساتھ مل کرنمازِ جنازہ پڑھی اور اُسے دفن کردیا۔ اس کے بعدتھیلی لی اور یمن پہنچ کر جب اس کے بتائے ہوئے گھر کے متعلق پوچھا تو ایک بوڑھی عورت اور اس کی بیٹیاں باہرآئیں، میں نے ان کو وہ تھیلی دی تو وہ اسے دیکھ کر رونے لگیں۔ بڑھیا بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ جب اُسے ہوش آیا تو مجھ سے پوچھنے لگی: ”اس تھیلی کا مالک کہاں ہے؟” میں نے اس کے متعلق سب کچھ بتادیاتو وہ کہنے لگی: ”اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! وہ میرا بیٹا عثمان (علیہ رحمۃ الرحمن) تھا اور یہ اس کی بہنیں ہیں، اس نے اپنے گھروالوں، عزیزوں اور خادموں کو چھوڑا اور چہرے پر نقاب کرکے نکل گیا،معلوم نہیں کہاں گیا۔ اللہ عزَّوَجَلَّ تمہیں میری اور میرے بیٹے کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔”پھر وہ رونے لگی ۔
یااللہ عزَّوَجَلَّ! اگر توصرف عبادت گزاروں پر رحم فرمائے گا توعبادت میں کوتاہی کرنے والوں کاوالی کون ہو گا ؟ اگرتو
صرف اخلاص والوں کوقبول کریگاتو خطاکاروں کا وارث کون بنے گا؟ اگر تو صرف نیکوکاروں پر کرم کریگا تو عاصیوں پرکرم کون کریگا؟ یااللہ عزَّوَجَلَّ!میری حسرت کتنی بڑی ہے کہ میں دوسروں کو نصیحت کرتا ہوں اور خود تجھ سے غافل ہوں۔ یااللہ عزَّوَجَلَّ! میری مصیبت کتنی شدید ہے کہ میں دوسروں کو بیدار کرتا ہوں اور خود غفلت کی نیند سویاہوا ہوں۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! میرا قصہ و ماجرا کتنا عجیب ہے کہ میں راہِ حق کی طرف دوسروں کی رہنمائی کرتا ہوں اور خود اس کی تلاش میں حیران وسر گرداں ہوں۔ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! اپنے اس بندے پر جود وکرم کی بارش برسادے۔ یااللہ عزَّوَجَلَّ!جب میں کسی کو تیری بارگاہ کا راستہ دکھاؤں اور وہ وہاں تک رسائی حاصل کر لے تو کیا تواسے قبول کر لے گا جس کی رہنمائی کی گئی ہے اور رہنمائی کرنے والے کو دھتکار دے گا؟ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! اگرمیرا کلام خالصتًا تیری رضا کے لئے نہیں تو میرے اجتماع میں کوئی ایساشخص بھی تو ہوگاجو صرف اورصرف تیری رضا کے لئے آیا ہو گا۔ اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ!اس کے صدقے میری تقصیر و کوتاہی معاف فرمادے اور ہم سب پر اپنا رحم و کرم فرما۔
بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْن، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن (آمین)۔
اَللّٰہُمَّ َصَلِّ عَلٰی سیِّدِنَاوَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ سَلِّم