islam
صاحب ِ اولاد اور بانجھ
اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ وہ کسی کو صرف بیٹی عطا فرماتا ہے اور کسی کو صرف بیٹا دیتا ہے اور کچھ لوگوں کو بیٹا اور بیٹی دونوں ہی عطا فرما دیا کرتا ہے۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو بانجھ بنا دیتا ہے نہ انہیں بیٹی دیتا ہے نہ بیٹا اور یہ دستورِ خداوندی صرف عام انسانوں ہی تک محدود نہیں بلکہ اس نے اپنے خاص و مخصوص بندوں یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام کو بھی اس خصوص میں چاروں طرح کا بنایا ہے۔ چنانچہ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہما السلام کے صرف بیٹیاں ہی تھیں کوئی بیٹا نہیں تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صرف بیٹے ہی بیٹے تھے کوئی بیٹی ہوئی ہی نہیں۔ اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں اور حضرت عیسیٰ و حضرت یحییٰ علیہما السلام کے کوئی اولاد ہی نہیں ہوئی۔
(تفسیر روح البیان،ج۸، ص۳۴۲۔۳۴۳، پ۲۵،الشوریٰ:۴۹۔۵۰)
قرآن مجید میں رب العزت جل جلالہ نے اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ49﴾اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ وَ یَجْعَلُ مَنۡ یَّشَآءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿50﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔ (پ25،الشورٰی:49۔50)
درسِ ہدایت:۔اللہ تعالیٰ بیٹی دے یا بیٹا دے یا دونوں عطا فرمائے یا بانجھ بنا دے بہرحال یہ سبھی خدا کی نعمتیں ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کے آخری حصہ یعنی اِنَّہ، عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ کون اس کے لائق ہے کہ اس کو بیٹی ملے اور کون اس قابل ہے کہ اس کو بیٹا ملے اور کون اس کی اہلیت رکھتا ہے کہ اس کو بیٹا اور بیٹی دونوں ملیں اور کون ایسا ہے کہ اس کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اس کے کوئی اولاد ہی نہ ہو۔ ان باتوں کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کیونکہ وہ بہت علم والا اور بڑی قدرت والا ہے۔ انسان اپنی ہزار علم و آگہی کے باوجود اس معاملہ کو نہیں جانتا کہ انسان کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
وَعَسٰۤی اَنۡ تَکْرَہُوۡا شَیْـًٔا وَّہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمْ ۚ وَعَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیْـًٔا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ؕ وَاللہُ یَعْلَمُ وَ اَنۡتُمْ لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿216﴾٪
ترجمہ کنزالایمان:۔اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(پ2،البقرہ:216)
اس لئے بندوں کو چاہے کہ اگر اپنی خواہش کے مطابق کوئی چیز نہ مل سکے تو ہرگز ناراض نہ ہوں بلکہ یہ سوچ کر صبر کریں کہ ہم اس چیز کے لائق ہی نہیں تھے اس لئے ہمیں خدا نے نہیں دیا وہ علیم و قدیر ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون کس چیز کا اہل ہے اور کون اہل نہیں ہے۔
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
بیٹیا ں: اس زمانے میں دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ بیٹیوں کی پیدائش سے چڑتے ہیں اور منہ بگاڑ لیتے ہیں بلکہ بعض بدنصیب تو اول فول بک کر کفرانِ نعمت کے گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر منہ بگاڑ کر ناراض ہوجانا یہ زمانہ جاہلیت کے کفار کا منحوس طریقہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ58﴾یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْکُمُوۡنَ ﴿59﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں۔ (پ14،النحل:58۔59)
خوب سمجھ لو کہ مسلمانوں کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی خوش ہو کر اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کرے اور مندرجہ ذیل حدیثوں کی بشارت پر ایمان رکھ کر سعادتِ دارین کی کرامتوں سے سرفراز ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں:
(۱)عورت کے لئے یہ بہت ہی مبارک ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو۔
(۲)جس شخص کو کچھ بیٹیاں ملیں اور وہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے یہاں تک کہ کفو میں ان کی شادی کردے تو وہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔
(۳)حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تم لوگ بیٹیوں کو برا مت سمجھو، اس لئے کہ میں بھی
چند بیٹیوں کا باپ ہوں۔
(۴)جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لڑکی! تو زمین پر اتر۔ میں
تیرے باپ کی مدد کروں گا۔ (تفسیر روح البیان،ج۸، ص۳۴۲،پ۲۵، الشوریٰ:۴۹۔۵۰)