امیرالمومنین کے نام” نصیحتوں بھرامکتوب”
ایک مرتبہ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ المجید نے حضرت سیدنا سالم بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طر ف ایک تحریربھیجی جس کا مضمون کچھ اس طر ح تھا ۔السَّلام علیکم: عمر بن عبدالعزیز (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کی طر ف سے آپ پر سلامتی ہو۔
وحدہ، لاشریک ذات جو رحیم و کریم ہے، اس کی حمد وثناء کے بعدعمر بن عبدالعزیزعرض کرتا ہے:”اے سالم بن عبد اللہ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!اللہ ربُّ العزَّت نے اس امت کی حکومت کا بوجھ میرے کندھوں پرڈال دیاہے اور میرے مشورے کے بغیر ہی امورِ خلافت میرے سپرد کردیئے گئے ، میں نے کبھی بھی خلافت کی خواہش نہ کی تھی ، بس اللہ ربُّ العزَّت کی مرضی ،اب اس کے حکم سے مجھے خلافت کی ذمہ داری ملی ہے ۔لہٰذا میں اُمورِ خلافت کے تمام مسائل میں اسی کریم ذات سے مدد طلب کرتا ہوں کہ وہ مجھے اچھے اعمال اور اطاعت کی تو فیق عطا فرمائے اور مجھے مخلوق پر شفقت ونرمی کی تو فیق مرحمت فرمائے ۔ وہی ذات میری مدد کرنے والی ہے، (اے میرے بھائی) جب آپ کے پاس میری یہ تحریر پہنچے تو تو مجھے امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے متعلق اور ان کے فیصلوں کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرنا اور یہ بتانا کہ انہوں نے مسلمانوں اور ذمیوں کے ساتھ اپنے دورِ خلافت میں کیسا رویہ اختیار کیا؟ میں امور خلافت میں ان کی پیروی کرنا چاہتا ہوں، اللہ عزوجل میری مدد فرمائے گا ۔
والسّلام:من عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃ اللہ المجید)
جب یہ تحریر حضرت سیدناسالم بن عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو پہنچی تو انہوں نے حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ المجید کو اس کا جواب لکھاجس کا مضمون کچھ اس طرح تھا:”اے عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃ اللہ المجید)!تم پر سلامتی ہو، اللہ رب العزت کی حمد وثنا اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پردرود وسلام کے بعدمیں کہتا ہوں:” اللہ رب العزت قادرِ مطلق ہے ، اس کی عظمت وبلندی کوکوئی نہیں پہنچ سکتا ،اس کا کوئی شریک نہیں، وہ کسی غیر کے شریک ہونے سے منزّہ و مبرّأ ہے، جب اس نے چاہا دنیا کو پیدا فرمایا اور جب تک چاہے گا باقی رکھے گا ،اس نے دنیاکی ابتدا ء و انتہا ء کے درمیان بہت قلیل مدت رکھی جو حقیقتاً دن کے کچھ حصے کے برابربھی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور اس میں موجود تمام مخلوقات کی فناء کا فیصلہ بھی فرمادیا اور یہ سب چیزیں فانی ہیں، صرف اللہ عزوجل کی ذات ہی کوبقاء ہے، اس کے سوا باقی سب چیزیں فانی ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے:
کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ؕ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیۡہِ تُرْجَعُوۡنَ ﴿٪88﴾
ترجمہ کنزالایمان:ہر چیز فانی ہے سوااس کی ذات کے، اسی کاحکم ہے اور اسی کی طرف پھر جاؤگے ۔(پ20،القصص:88)
(اے عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ!) بے شک دنیا والے دنیا کی کسی چیز پر قادر نہیں، وہ خودمختار نہیں، جب انہیں حکم الٰہی عزوجل ہوگا وہ اس دنیا کو چھوڈ دیں گے اور یہ بے وفا دنیا ان کو چھوڑ دے گی۔ اللہ عزوجل نے (لوگو ں کی رہنمائی) کے لئے قرآن کریم اور دیگر کتب سماویہ نازل فرمائیں ، انبیاء ورُسُل علیہم الصلوٰۃوالسلام مبعوث فرمائے ،اپنی کتاب میں جزاء وسزا بیان فرمائی، مثالیں بیان فرمائیں اور اپنے دین کی وضاحت قرآن کریم میں فرمادی ، حرام وحلال اشیاء کا بیان اسی کتاب میں فرما دیا اورعبرت آموز واقعات اس میں بیان فرمائے ۔
اے عمر بن عبدالعزیز(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! کیاتجھ سے اس بات کا وعدہ نہیں لیاگیا کہ تو ہر ایک انسان کے کھانے پینے کا ذمہ دار ہے اور تو ان کو کافی ہے بلکہ تجھے تو خلافت دی گئی ہے، بے شک تجھے بھی اتنا کچھ ہی کھانا اور لباس کافی ہے جتنا کہ ایک عام انسان کو کافی ہے ،بے شک تجھے جوذمہ داری ملی ہے یہ اللہ رب العزت ہی کی طر ف سے ملی ہے ۔ اگر تجھ میں اتنی استطاعت ہے کہ تو اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو نقصان و بر بادی سے بچا سکتا ہے تو ضرور بچا اور قیامت کی ہولناکیوں سے بچ اور نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی تو فیق اللہ رب العزت ہی کی طرف سے ہے۔ بے شک جو لوگ تجھ سے پہلے گزرے انہوں نے جو کچھ کرنا تھا وہ کیا ،جو ترقیاتی کام کرنے تھے کئے، جن چیز وں کوختم کرنا تھا ختم کیا ،اور ہر شخص اپنے اپنے انداز میں اپنی ذمہ داریوں کوادا کرتا رہا اور یہی سمجھتا رہا کہ اصل طریقہ یہی ہے جو میں نے اختیار کیا ہے، ان میں سے بعض لوگو ں نے قابلِ گرفت لوگو ں سے بھی نہایت نرمی سے کام لیا اور ان کی سرکشی کے باوجود انہیں بے جا ڈھیل دی تو اللہ رب العزت نے ایسے لوگو ں پر
آزمائش کا دروازہ کھول دیا۔ اگر تو بھی کسی قابلِ گر فت شخص سے نرمی کا بر تا ؤ کرنا چاہتا ہے توکر، پھر ا س کاانجام خود ہی دیکھ لے گا اگر تو نے کسی مجرم سے کسی دینی معاملہ میں نرمی کا بر تاؤ کیا تو اللہ رب العزت تجھ پر بھی آزمائش کے دروازے کھول دے گا ، اگر تو کسی کو گورنر بننے کے قابل نہ سمجھے تو بے دھڑک اس کو عہدے سے معزول کردے اور کسی کا خوف نہ کر اور اس بات سے نہ ڈر کہ اب کون گورنر وحاکم بنے گا ۔اس بات کا مالک اللہ ربُّ العٰلمین ہے ،وہ تیرے لئے ان نا اہل گو رنروں اور حاکموں سے بھی اچھے مدد گار لوگ عطا فرما دے گا، تو مخلوق سے بالکل بھی نہ ڈر اور اپنی نیت کو خالص رکھ۔ ہر انسان کی مدد اس کی نیت کے مطابق کی جاتی ہے، جس کی نیت کامل ہے تو اس کو اجر بھی کامل ہی ملے گا اور جس کی نیت میں فتور ہوگا اس کو صلہ بھی ایسا ہی دیا جائے گا ۔ الغرض انسان کی مدد اس کی نیت کے مطابق کی جاتی ہے۔
اے عمر بن عبدالعزیز(علیہ رحمۃاللہ المجید) ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ بر وز ِقیامت تو اس حال میں آئے کہ کوئی تیرے خلاف ظلم کا دعویدار نہ ہو اور جو لوگ تجھ سے پہلے گزر گئے وہ تجھ پر رشک کرتے ہوں کہ اس کے متبعین کو اس سے کوئی شکایت نہیں، اس کی رعایا اس سے خوش ہے توتُوایسے ا عمال کرکہ تجھے اس دن وہ مقام حاصل ہوجائے یعنی اپنے اعمال اچھے رکھ اور بے شک اللہ عزوجل ہی کی طرف سے نیکی کرنے کی قوت دی جاتی ہے اور برائی سے بھی وہی ذات بچانے والی ہے۔
اورجو لوگ موت اور اس کی ہولناکیوں سے خوف کھاتے تھے مرنے کے بعدان کی وہ آنکھیں ان کے چہروں پر بہہ گئیں جو دُنیوی لذتوں سے سیر ہی نہ ہوتی تھیں،ان کے پیٹ پھٹ گئے اور وہ تمام چیزیں بھی ضائع ہوگئیں جو وہ کھایا کرتے تھے ، ان کی وہ گر د نیں جو نرم نازک تکیوں پر آرام کرنے کی عادی تھیں آج قبر کی مٹی میں بوسیدہ حالت میں پڑی ہیں۔ جب وہ دنیا میں تھے تو لوگ ان سے خوش ہوتے اور ان کی خدمت کرتے لیکن آج یہی لوگ موت کے بعد ایسی حالت میں ہیں کہ ان کے جسم گل سڑگئے، اگر ان لوگو ں کو اور ان کی دنیوی غذاؤں کو آج کسی مسکین کے سامنے رکھ دیا جائے تو وہ بھی اس کی بد بو سے اذیت محسوس کرے، اب اگر ان کے تَعَفُّن زدہ جسموں پر خوب خوشبو ملی جائے تب بھی ان کی بد بو ختم نہ ہو بلکہ خوشبو ملنا اِسراف ہوگا ۔
ہاں! اللہ عزوجل جسے چاہے اپنی رحمتِ خاصہ سے حصہ عطا فرمائے اور اسے دائمی نعمتیں عطا فرمائے ،بے شک ہم سب اسی کی طر ف لوٹنے والے ہیں ۔
اے عمر بن عبد العزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) !تیرے ساتھ واقعی ایک بہت بڑا معاملہ درپیش ہے، توکبھی بھی جزیہ اور زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے ایسے عامل مقرر نہ کرنا جو بہت زیادہ سختی کریں اور لوگو ں سے بہت زیادہ تر ش روئی سے پیش آئیں اور بے جاان کا خون بہائیں۔ اے عمر!اس طرح مال حاصل کرنے سے بچ، ایسی خون ریزی سے ہمیشہ کوسوں دور بھاگ ، اور اگر تجھے
کسی گورنر کے بارے میں یہ خبر ملے کہ وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور پھر بھی تو اسے گورنری کے عہدے سے معزول نہ کرے تو یاد رکھ!اگرتو اس طرح کی جرأتیں کریگا تو تجھے جہنم سے بچانے والا کوئی نہ ہو گااورتورسوائی و ذلت کی طرف مائل ہوجائے گا ۔اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے، آمین۔ اور اگر تو ان تمام ظلم وزیادتی والے امور سے اجتناب کرتا رہا تو تجھے دلی سکون حاصل ہوگا اور تو مطمئن رہے گا۔(ان شاء اللہ عزوجل)
اے عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) !تو نے مجھ سے کہا کہ میں امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت اور ان کے فیصلوں کے متعلق تجھے معلومات فراہم کروں تو اے عمر بن عبد العزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) !امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور کے مطابق فیصلے کئے ۔جیسی ان کی رعایا تھی اب ایسی نہیں ، ان کے فیصلے اس دور کے اعتبار سے تھے اور تم اپنے دور کے اعتبار سے فیصلے کرو، اور اپنے دور کے لوگو ں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ان سے معاملات کرو، اگر تم ایسا کرو گے تو مجھے اللہ رب العزت سے امید ہے کہ وہ تمہیں بھی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی مدد و نصرت عطا فرمائے گا اورجنت میں ان کے ساتھ مقام عطا فرمائے گا۔ اور اے عمر بن عبدالعزیز! تم یہ آیتِ مبارکہ پڑھا کرو:
وَمَاۤ اُرِیۡدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی مَاۤ اَنْہٰکُمْ عَنْہُ ؕ اِنْ اُرِیۡدُ اِلَّا الۡاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ؕ وَ مَا تَوْفِیۡقِیۡۤ اِلَّا بِاللہِ ؕعَلَیۡہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ ﴿88﴾
ترجمہ کنزالایمان:اورمیں نہیں چاہتاہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتاہوں آپ اس کے خلاف کرنے لگوں،میں توجہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتاہوں،اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیااوراسی کی طرف رجوع کرتاہوں ۔ (پ12، ھود:88)
اے عمر بن عبدالعزیز (علیہ رحمۃاللہ المجید) ! اللہ رب العزت تجھے اپنے حفظ وامان میں رکھے اور دارین کی سعادتیں عطا فرمائے ۔آمین
والسّلام:منسالم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)