islam
کبيرہ نمبر142: ماہِ رمضان کے قَضاء روزوں میں جان بوجھ کر تاخیر کرنا
اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا بھی بالکل ظاہر ہے اگرچہ ميں نے کسی کو اس کی صراحت کرتے ہوئے نہيں پایا کيونکہ يہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ جو رمضان المبارک کا روزہ جان بوجھ کر چھوڑے وہ فاسق ہے اور اس پرفسق سے نکلنے کے لئے فوراً توبہ کرنا واجب ہے اور چونکہ قضاء کے بغير توبہ درست نہيں ہوتی لہٰذا جب وہ کسی عذر کے بغير اس ميں تاخير کریگا تو فسق ميں حد سے بڑھنے والاہو گا اور فسق ميں حد سے بڑھنا بھی فسق ہے پس واضح ہوا کہ يہاں تاخير کرنا فسق ہے لہٰذا اس ميں غور کر لو۔
يہی قاعدہ ہر اس واجب ميں بھی جاری ہو گا جسے اس نے جان بوجھ کر ترک کر ديا ہو اور اس کی قضاء میں تاخیرکردی ہو جيسے فرض نماز۱؎اوروہ حج جسے اس نے فاسدکر ديا ہو اور اسے اس صورت پر جاری کرنا بھی بعيد نہيں جب کہ وہ ايک ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کی قضاء دوسرے ماہِ رمضان المبارک تک مؤخر کر دے، اگرچہ اس نے وہ روزہ کسی عذر کی وجہ سے ترک کيا ہو کيونکہ ماہِ رمضان المبارک کی قربت کی وجہ سے اس کا وقت تنگ ہو جاتا ہے پھر ميں نے علامہ ہروی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو ديکھا کہ انہوں نے اپنی کتاب ادب القضاء ميں ميرے بيان کردہ مؤقف کی تصريح کی ہے کہ جن فرائض کا حکم ديا گيا ہے ان کو ترک کر دينا جب کہ وہ علی الفور واجب ہوں، کبيرہ گناہ ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۱؎:احناف کے نزديک اگرچہ نمازکی قضاميں جلدی کرناواجب ہے، ليکن بچوں کے لئے کھانے پينے کاانتظام کرنے کی ذمہ داری کی وجہ سے اس ميں تاخيرکرناجائز ہے۔چنانچہ صدرالشريعہ،بدرالطريقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی” بہارشريعت” ميں نقل فرماتے ہيں:”جس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں اگرچہ ان کا پڑھنا جلدسے جلدواجب ہے مگر بال بچوں کی خوردونوش اور اپنی ضروريات کی فراہمی کے سبب تاخير بھی جائز ہے تو کاروبار بھی کرے اور جو وقت فرصت کا ملے اس ميں قضابھی پڑھتا رہے يہاں تک کہ پوری ہو جائيں،قضاکے لئے کوئی وقت معين نہيں عمرميں جب پڑھے گابری الذمہ ہوجائے گا۔”(بہارشريعت،حصہ۳،ص۲۶،۲۷)
قضانمازوں کے متعلق تفصيلی معلومات کے لئے بہارشريعت حصہ4اورشیخ طریقت ،اميراہلسنت،بانئ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانامحمدالياس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کی تالیف نماز کے احکام کے باب ”قضانمازکابيان”کامطالعہ کريں۔