islam
کبيرہ نمبر90: نماز ميں آسمان کی طرف دیکھنا کبيرہ نمبر91: نماز ميں اِدھراُدھردیکھنا کبيرہ نمبر92: نمازمیں کمر پر ہاتھ رکھنا
(1)۔۔۔۔۔۔شاہ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ان لوگوں کا حال ہے جو اپنی نمازوں ميں آسمان کی طرف نگاہيں اٹھاتے ہيں پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس معاملے ميں شدت فرمائی يہاں تک کہ ارشاد فرمايا : ”وہ لوگ يا تو ايسا کرنے سے باز آ جائيں ياپھر ان کی بصارت چھين لی جائے گی۔”
( صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب رفع البصرالی السماء فی الصلاۃ،الحدیث:۷۵۰، ص۵۹)
(2)۔۔۔۔۔۔رسول انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”نماز ميں اپنی نظريں آسمان کی طرف نہ اٹھايا کرو کہيں تمہاری بينائی نہ چلی جائے۔”
( سنن ابن ماجۃ ،ابواب اقامۃ الصلوات،باب الخشوع فی الصلاۃ،الحدیث:۱۰۴۳، ص۲۵۳۷)
(3)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :” لوگ نماز ميں اپنی نگاہيں آسمان کی طرف اٹھانے سے باز آجائيں ورنہ ان کی بصارت اُچک لی جائے گی۔”
( صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ ، باب النھی عن رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ ،الحدیث:۹۶۷ ، ص ۷۴۷)
(4)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”نماز ميں اپنی نگاہيں آسمان کی طرف اٹھانے والے لوگ يا تو اس سے باز آجائيں گے ورنہ ان کی نظريں ان تک واپس نہ لوٹيں گی۔” (المرجع السابق ،الحدیث ۹۶۶ ، ص ۷۴۷)
(5)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مسجد ميں تشريف لائے تو کچھ لوگوں کو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر نماز پڑھتے ہوئے ديکھا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”نماز ميں اپنی نگاہيں اٹھانے والے لوگ باز آجائيں يا پھر ان کی نگاہيں واپس نہ پلٹیں گی۔”
( سنن ابی داؤد ،کتاب الصلاۃ،باب النظر فی الصلاۃ ، الحدیث:۹۱۲ ، ص ۱۲۹۰)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(6)۔۔۔۔۔۔اُم المؤمنین حضرت سيدتنا عائشہ صديقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہيں کہ ميں نے اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے نماز ميں اِدھر اُدھر دیکھنے کے بارے ميں سوال کيا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”يہ اُچک لینا ہے کہ شيطان بندے کی نماز اُچک لیتا ہے۔” ( صحیح البخاری ،کتاب الاذان ، باب التفات فی الصلاۃ ، الحدیث:۷۵۱، ص۶۰)
(7)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب تک بندہ نماز ميں کسی اور جانب متوجہ نہ ہو اللہ عزوجل اس پر نظرِ رحمت فرماتا رہتا ہے، پھر جب بندہ اپنی توجہ ہٹا ليتاہے تو اللہ عزوجل کی رحمت بھی اس سے پھر جاتی ہے۔”
(سنن النسائی ،کتاب السھو ، باب التشدید فی التفات فی الصلاۃ، الحدیث ۱۱۹۶ ، ص ۲۱۶۵)
(8)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں :”ميرے خليل، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے تین چيزوں کا حکم ديا اور(نماز میں) تین چيزوں سے منع فرمایاہے جن تین چیزوں سے منع فرمایاوہ یہ ہیں:(۱)مرغوں کی طرح ٹھونگيں مارنا(۲)کتے کی طرح بيٹھنااور (۳)لومڑی کی طرح اِدھر اُدھر توجہ کرنا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند ابی ھریرۃ ، الحدیث:۸۱۱۲ ،ج ۳ ، ص ۱۸۵،بدون”خلیلی واوصانی” بدلہ”امرنی”)
کتے کی طرح بيٹھنے سے مراد يہ ہے کہ گھٹنے کھڑے کر کے سرين پر بيٹھنا۔ حضرت سیدنا ابو عبيدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں :”ہاتھ زمين پر رکھے ہوں اور دونوں پاؤں کی ايڑيوں پر بيٹھنا کيونکہ دوسجدوں کے درميان اس طرح بيٹھنا سنت ہے اور پاؤں بچھا کر بيٹھنا افضل ہے۔”۱؎
(9)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب آدمی نماز کے لئے آتا ہے تو اللہ عزوجل کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے، پھر جب وہ کسی اور جانب متوجہ ہوتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے :”اے ابن آدم! تُو کس کی طرف متوجہ ہو گيا؟ کیاوہ تيرے لئے مجھ سے زيادہ بہتر ہے؟ ميری طرف متوجہ ہو جا۔” پھر جب وہ آدمی دوسری مرتبہ متوجہ ہوتا ہے تو اللہ عزوجل يہی بات ارشاد فرماتا ہے اور پھر جب وہ بندہ تيسری مرتبہ غير کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اس سے اپنی رحمت پھير ليتا ہے۔”
( کنزالعمال ،کتاب الصلوۃ ،فصل فی مفسدات الصلوٰۃ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث:۲۲۴۴۴ ، ج۸ ، ص ۸۴،ملخصا)
(10)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے (حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ارشاد فرمایا :”بيٹا! نماز ميں دائيں بائيں متوجہ ہونے سے بچتے رہنا کيونکہ نما زميں ايسا کرنا ہلاکت ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( جامع الترمذی ،ابواب السفر ، باب ماذکر فی الالتفات ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۵۸۹ ، ص ۱۷۰۳)
(11)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو نمازکے لئے کھڑا ہو پھر دائيں بائيں ديکھنے لگے تو اللہ عزوجل اس کی نماز اسی کو لوٹا دے گا۔”
( مجمع الزوائد ،کتاب الصلاۃ ،باب ماینھی عنہ فی الصلاۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۲۴۳۲ ، ج۲ ،ص ۲۳۴ )
(12)۔۔۔۔۔۔بخاری شریف میں حضرت سيدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیِّدُ المُبلغِین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے نماز ميں پہلو پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمايا ہے۔”
( صحیح البخاری ،کتاب العمل فی الصلاۃ ، باب الخضر فی الصلاۃ ، الحدیث ۱۲۱۹ ، ص۹۵)
(13)۔۔۔۔۔۔اورمسلم شریف میں ہے :”شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے آدمی کو کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔”
(صحیح مسلم ،کتاب المساجد ، باب کراھۃ الاختصار فی الصلاۃ ،الحدیث:۱۲۱۸، ص ۷۶۲)
(14)۔۔۔۔۔۔اور ابوداؤد شریف میں اس روایت میں یہ اضافہ ہے :”یعنی نمازی اپنے ہاتھوں کو اپنے پہلوؤں پر رکھے۔” ( سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب الرجل یصلی مختصرا ، الحدیث۹۴۷ ، ص ۱۲۹۳)
(15)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، غريبوں کے دل کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”نماز ميں کمر پر ہاتھ رکھنا جہنميوں کاطريقہ ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( صحیح ابن حبان ،کتاب الصلاۃ ، باب مایکرہ للمصلی ما لایکرہ ، الحدیث ۲۲۸۳ ، ج ۴ ، ص ۲۴)
تنبیہ:
گذشتہ صفحات ميں بيان کردہ کبيرہ گناہوں مثلاً ناپسنديدہ شخص کی امامت، امام سے سبقت لے جانے اور آئندہ کتاب اللباس ميں ريشم پہننے کے بارے ميں آنے والی وعيدوں پر قياس کرتے ہوئے انہیں کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا کيونکہ پہلے گناہ ميں بصارت کا اچک لیا جانا، دوسرے ميں رحمت کا پھر جانا اور تيسرے ميں اہلِ جہنم کا شعار ہونا پاياجا رہا ہے،تو جب علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے آخرت ميں ريشمی لباس سے محرومی کی علت کی بناء پر اسے کبيرہ گناہ قرار دے ديا تو ان گناہوں کو بدرجہ اَولیٰ کبيرہ گناہ قرار ديا جائے گا، مگر صحيح اور معتمد يہی ہے کہ گناہ تو دور کی بات ہے يہ تينوں(یعنی نماز میں آسمان کے طرف نگاہ کرنا،اِدھر اُدھردیکھنااور کمر پر ہاتھ رکھنا) حرام بھی نہيں بلکہ صرف مکروہ تنزيہی ہيں۔2؎
۱؎ :احناف رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزديک” دوسجدوں کے درميان اپنے ہاتھ رانوں کے اوپر رکھنااور بائيں پاؤں پر بيٹھنا سنت ہے چنانچہ بہارِ شريعت ميں ہے : ”دونوں سجدوں کے درميان مثل تَشَہُّدْکے بيٹھنا يعنی باياں قدم بچھانا اور دا ہنا کھڑا رکھنا، ہاتھوں کو رانوں پر رکھنا، سجدوں ميں انگلياں قبلہ رو ہونا اور ہاتھوں کی انگلياں ملی ہوئی ہونا سنت ہے۔” (بہار شريعت،ج۱،حصہ ۳،ص۴۵)
2؎ احناف کے نزدیک ”کمر پر ہاتھ رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، اِدھر اُدھر منہ پھیر کر دیکھنا مکروہِ تحریمی ہے، کل چہرہ پھر گیا ہو یا بعض اور اگر منہ نہ پھیرے صرف کنکھیوں سے اِدھر اُدھر بلا حاجت دیکھے تو کراہت تنزیہی ہے اور نادراً کسی غرض صحیح سے ہو تو اصلاً حرج نہیں، نگاہ آسمان کی طرف اٹھانا بھی مکروہِ تحریمی ہے۔ ”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(بہارِ شریعت، ج۱، حصہ۳، ص۸۴،۸۵)