اصلی کافر یامرتد کا اسلام اس وقت ثابت ہو گا جب وہ زبان سے شہادتین یعنی اللہ عزوجل کی وحدانیت اور نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی رسالت کا اقرار کریگا اگرچہ ان میں سے ایک شہادت کااقرار وہ پہلے ہی سے کرتاہو اور اگر اس نے اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں) سے ”اِلٰہَ”کے لفظ کو بَارِیئَ،رَحْمٰنَ،مٰلِکَ،یارَزَّاقَ سے بدل دیا تب بھی جائز ہے۔ اسی طرح اگر لَا کومَامِنْ سے بدل دیا مثلاً مَامِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ (یعنی اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں) کہا یا لفظ اِلَّا کو غَیْرَ، سِویٰ یا عَدَا سے بدل دیا مثلاً کہا لَااِلٰہَ غَیْرُ اللہِ، سِوَی اللہِ، عَدَااللہِ (یعنی اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں)، یا پھر اسم جلالت ”اللہُ” کو الْمُحْیِی الْمُمِیْتُ سے بدل دیا جو کہ غیر طبعی ہے یا الرَّحْمٰنُ، الْبَارِیئُ سے بدل دیا مثلاً کہا : ”لَا اِلٰہَ اِلَّا الْمُحْیِی الْمُمِیْتُ (یعنی زندگی اور موت عطا کرنے والی ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں)، لَا اِلٰہَ اِلَّا الرَّحْمٰنُ (یعنی رحمن عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں) وغیرہ یا لَا اِلٰہَ اِلَّا مَنْ اٰۤمَنَ بِہِ الْمُسْلِمُوْنَ (یعنی جس ذات پر مسلمانوں کاایمان ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں) کہایا کہاکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا مَنْ فِی السَّمَآءِ (یعنی اس ذات کے علا وہ کوئی معبود نہیں جو آسمانوں میں ہے) یا لَا اِلٰہَ اِلَّا الْمٰلِکُ (یعنی مالک عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں) کہایا لَا اِلٰہَ اِلَّا الرَّزَّاقُ (یعنی رزاق عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں) کہاتو یہ سب صورتیں جائز ہیں اور اگر لَا اِلٰہَ اِلَّا سَاکِنُ السَّمَآءِ (یعنی وہ ذات جو آسمانوں میں رہنے والی ہے کے سوا کوئی معبود نہیں) کہاتو جائز نہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اللہ عزوجل کو سَاکِنُ السَّمَآءِ اور مَنْ فِی السَّمَآءِ کہنے میں فرق یہ ہے کہ سَاکِنُ السَّمَآءِ کہنا ایک جہت ہے اور جہت اللہ عزوجل کے لئے محال ہے اور اللہ عزوجل اس سے اورظالموں ومنکروں کے بہتانوں سے بہت بلند ہے، بہت سے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اللہ عزوجل کے لئے جہت ثابت کرنا کفر ہے، لہٰذا جو کلمات کفر پر مشتمل ہوں ان سے اسلام کا ثبوت کیسے ہو سکتا ہے؟ جب کہ مَنْ فِی السَّمَآءِ کہنے میں اللہ عزوجل کے لئے جہت کی تصریح نہیں کیونکہ مَنْ فِی السَّمَآءِ سے مراد یہ ہے :”اس کاحکم اور سلطنت آسمانوں میں قائم ہے۔” کیونکہ یہ لفظ ان قرآنی آیات کے موافق ہے جو سَلَف وخَلَف کے نزدیک مؤوَّل ہیں۔( اس میں حنابلہ کے ایک گمراہ فرقہ کے علا وہ کسی کو کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے )جبکہ ان دونوں کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے :”ہم اس تأویل کو معین کرتے ہیں اور ظاہر کواس کی طرف نہیں پھیرتے۔” یہ خَلَف کا مذہب ہے یا ”اجمالی تأویل کرتے ہیں اور کسی شے کومعین نہیں کرتے بلکہ ہم اسے معین کرنے کا علم اللہ عزوجل پر چھوڑتے ہیں۔” اور یہی سَلَف کا مذہب ہے، بعض متاخرین ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی اسے اختیار کیا ہے اور بعض نے اس میں تھوڑی سی زیادتی کے ساتھ اس کو اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے :”تأویل کو اس طرح معین کرنا کہ وہ ظاہر کے قریب ہو جائے اور عربی لغت کے قواعد بھی اس کی درستگی پر گواہی دیں تو یہ مناسب ہے ورنہ تفویض یعنی اس کی تعیین کے علم کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دینا ہی مناسب ہے۔” جو شخص آیات واحادیث میں غور وفکر کرے تو وہ انہیں اسی تأویل کی گواہی دیتے ہوئے پائے گا کیونکہ تأویل کے بغیر ان آیات واحادیث کا ظاہری مفہوم تناقض کاوہم پیدا کرتا ہے۔” لہٰذا اس وہم سے بچنے کیلئے تأویل کی طرف جانا واجب ہے، کیا آپ اللہ عزوجل کے ان فرامین مبارکہ کو نہیں دیکھتے:
(1) ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۟
ترجمۂ کنز الایمان:پھر عرش پراستوا ء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے (پ 8، الاعراف:54)
(۲)حالانکہ اللہ عزوجل نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ،
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیۡہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیۡدِ ﴿16﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں۔(پ26، ق:16)
(3) وَ ہُوَ مَعَکُمْ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمْ ؕ
ترجمۂ کنز الایمان:اوروہ تمہارے ساتھ ہے تم کہیں ہو۔ (پ27، الحدید:4)
حدیث پاک میں ہے کہ اگر تم ڈول کو رسی سے کنوئیں میں لٹکا دو تووہاں بھی اللہ عزوجل اپنے علم وقدرت سے موجود ہے ۔(کيونکہ اللہ عزوجل اپنے علم وقدرت سے ہر چيز کو گھيرے ہوئے ہے )
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ان آیات واحادیث بلکہ ان جیسی تمام روایات میں سے ہر ایک میں تاویل کرنا واجب ہے کیونکہ کسی کے لئے ان نصوص کے ظاہری معنی کا قائل ہونا ممکن نہیں لہٰذا جب ان میں سے بعض میں تاویل کرنا ثابت ہوگا تو سب میں تاویل کرنا واجب ہو گا، کیونکہ خَلَفْ اس معاملہ میں تنہا نہیں بلکہ سَلَفْ کی ایک جماعت جیسے سیدنا امام مالک وجعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہ نے بھی ان آیات میں تاویل کی ہے۔
الغرض !اہلِ حق کا اس مسئلہ میں وہی مذہب ہے جسے میں نے بیان کر دیا ہے اور ہر ایک پراسی کے مطابق عقیدہ رکھنا واجب ہے اور آدمی کو یہ اعتقاد اس وقت حاصل ہو گا جب وہ اللہ عزوجل کو ہر صریح یا التزامی عیب سے پاک مانے گا بلکہ ہر اس چیز سے بھی پاک مانے جس میں کوئی نقص تو نہ ہو مگر کمال بھی نہ ہو
٭ ۔۔۔۔۔۔اور اس بات کا عقیدہ رکھنا بھی واجب ہے کہ اللہ عزوجل اپنی ذات ، ارادے ، صفات ، اسماء اور تمام افعا ل میں کمال کے سب سے اعلیٰ درجے کے ساتھ متصف ہے۔
٭ ۔۔۔۔۔۔شہادتین میں سے دوسری گواہی میں لفظ مُحَمَّدًا کو اَحْمَدَ ، اَبَا الْقَاسِمِ اور لفظ رَسُوْلُ کو نَبِیُّ سے تبدیل کردینا بھی جائز ہے جیسے (اَشْھَدُ اَنَّ )مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ کی جگہ اَحْمَدَ رَسُوْلُ اللہِ، اَبَا الْقَاسِمِ رَسُوْلُ اللہِ یا مُحَمَّدًا نَّبِیُّ اللہِ کہنا۔(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دائماً ابدًا)
نیز ان دونوں شہادتوں کو ترتیب سے ادا کرنا شرط ہے، لہٰذا اگرکسی نے اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ واَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہا تو وہ مسلمان نہ ہوگا مگرجبکہ انہیں پے در پے، لگاتار کہے تو مسلمان ہو جائے گا۔ یہ کلمات عربی میں پڑھنا ضروری نہیں بلکہ کسی نے اپنی مادری زبان میں اللہ عزوجل کے حقیقی ویکتا معبودہونے اور حضرت سیدنا محمد مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رسول ہونے کی گواہی دے دی تب بھی وہ مسلمان ہو جائے گا مگر وہ شخص جوالفاظ ادا کر رہاہو اس کا ان لفظوں کو سمجھنا شرط ہے۔
٭ ۔۔۔۔۔۔جودافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی رسالت سے انکار کی وجہ سے کافر ہو اس کے مسلمان ہونے کے لئے یہ دونوں گواہیاں کافی ہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭ ۔۔۔۔۔۔اور جو لوگ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی رسالت کو عرب کے ساتھ مخصوص کرنے کی وجہ سے کافر ہوئے جیسے عیسائی وغیرہ تو ان کے مسلمان ہونے کے لئے یہ کہنا شرط ہے کہ رَسُوْلُ اللہِ اِلٰی کَآفَّۃِ الْاِنْسِ وَالْجَآنِّ یعنی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تما م انسانوں اور جنات کی طرف اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔
٭ ۔۔۔۔۔۔نیزگونگے کااشارہ اس کے کلام کے قائم مقام ہے۔ اور جو الفاظ پیچھے بیان کئے جاچکے ہیں ان کے علا وہ کسی لفظ سے اسلام ثابت نہ ہوگا جیسے کوئی شخص صرف یہ کہے :” میں ایمان لایا۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”میں اس پر ایمان لایا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”میں مسلمان ہوں۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”میں امت محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں سے ہوں۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”میں حضرت محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے محبت کرتا ہوں۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”میں مسلمانوں میں سے ہوں۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”مسلمانوں کی طرح ہوں۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”مسلمانوں کا دین حق ہے۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔جبکہ کوئی ایسا شخص جسے کسی چیز کی پہچان نہ ہو اگر وہ یہ کہہ دے :”میں اللہ عزوجل پر ایمان لایا۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا”اللہ عزوجل کے لئے اسلام لا یا۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”اللہ عزوجل میرا خالق ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭ ۔۔۔۔۔۔یا ”اللہ عزوجل میرا رب ہے۔” پھر رسالت کی گواہی بھی دے دے تو وہ مسلمان ہو جائے گا۔
٭ ۔۔۔۔۔۔ہر نو مسلم کو قیامت کے دن اٹھنے پرایمان لانے کاحکم دینا مستحب ہے اور اسلام کے آخرت میں نفع بخش ہونے کیلئے گذشتہ اُمور کے علاوہ اللہ عزوجل کی وحدانیت، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کی دل سے تصدیق کرنا بھی شرط ہے ۔
٭ ۔۔۔۔۔۔اگر کوئی شخص دل سے ان باتوں کی تصدیق کر کے ان پر ایمان لے آیا مگر اس نے قدرت کے باوجود زبان سے شہادتین ادا نہ کیں تو وہ اپنے کفر پر قائم ہے اور ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلنے کامستحق ہے جیسا کہ سیدنا اما م نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس بات پر اجماع نقل فرمایا ہے، لیکن اس پرایک اعتراض وارد ہوتاہے کہ اس معاملہ میں ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کاایک قول یہ بھی ہے :”اس کا ایمان اسے نفع دے گا اور زیادہ سے زیادہ وہ ایک گنہگار مؤمن ہے۔”
٭ ۔۔۔۔۔۔اگر کوئی شخص اپنی زبان سے اللہ عزوجل کی وحدانیت اور نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی رسالت کی گواہی دے اور دل سے ایمان نہ لائے تووہ آخرت میں بالاجماع کافر ہو گا جبکہ دنیا میں ظاہرًا اس پر مسلمانوں کے احکام جاری ہوں گے، لہٰذا اگروہ کسی مسلمان عورت سے نکاح کرے پھر دل سے ایمان لے آئے تو وہ عورت اس وقت تک اس کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک مسلمان ہونے کے بعد تجدید نکاح نہ کرے۔ ”