ایک نیک بزرگ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، ہوا یوں کہ وہ کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے قریب ہی ایک چراغ جل رہا تھا، اچانک ان کے دل میں گناہ کا خیال آیا تو وہ اپنے نفس سے کہنے لگے :”میں اپنی انگلی اس چراغ کی بتی پر رکھتاہوں اگر تو نے اس پر صبر کر لیا تو میں اس گناہ کو کرنے میں تیری بات مان لوں گا۔” پھر جب انہوں نے اس بتی پر اپنی انگلی رکھی تو بے قرار ہو کر چیختے ہوئے کہنے لگے: ”اے دشمنِ خدا عزوجل! جب تو دنیا کی اس آگ پر صبر نہیں کر سکا جسے ستر مرتبہ بجھایا گیا ہے تو جہنم کی آگ پر کیسے صبر کریگا؟”
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا: ”اے کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ہمیں ڈر والی کچھ باتیں سنائیں۔” تو حضرت سیدنا کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :”اے امیر المؤمنین! اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قیامت کے دن ستر انبیاء کرام علیہم السلام کے عمل لے کر بھی آئیں تو قیامت کے احوال دیکھ کر انہیں حقیر جاننے لگیں گے۔” اس پرامیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ دیرکے لئے سرجھکا لیا پھر جب افاقہ ہوا توارشاد فرمایا: ”اے کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! مزید سنائیں۔” تو انہوں نے عرض کی :”اے امیرالمؤمنین! اگر جہنم میں سے بیل کے ناک جتنا حصہ مشرق میں کھول دیا جائے تو مغرب میں موجود شخص کا دماغ اس کی گرمی کی وجہ سے اُبل کر بہہ جائے۔” اس پرامیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ دیرکے لئے سرجھکا لیا پھر جب افاقہ ہوا تو ارشاد فرمایا: ”اے کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اورسنائیں۔” تو انہوں نے پھر عرض کی: ”اے امیر المؤمنین! قیامت کے دن جہنم اس طرح بھڑکے گا کہ کوئی مقرَّب فرشتہ یانبئ مرسَل ایسا نہ ہو گا جو گھٹنوں کے بل گر کر یہ نہ کہے: رَبِّ! نَفْسِیْ! نَفْسِیْ! (يعنی اے رب عزوجل! آج میں تجھ سے اپنی بخشش کے علاوہ کچھ نہیں مانگتا)۔”
حضرت سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید بتایا :”جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ عزوجل اولین وآخرین کو ایک ٹیلے پر جمع فرمائے گا، پھر فرشتے نازل ہو کر صفیں بنائیں گے۔” اس کے بعد اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا: ”اے جبرائیل (علیہ ا لسلام)! جہنم کو لے آؤ۔” تو حضرت جبرائیل علیہ السلام جہنم کو اس طرح لے کر آئیں گے کہ اس کی ستر ہزار لگاموں کو کھینچا جا رہا ہو گا، پھر جب جہنم مخلوق سے سو برس کی راہ پر پہنچے گی تو اس میں اتنی شدید بھڑک پیدا ہو گی کہ جس سے مخلوق کے دل دہل جائیں گے، پھر جب دوبارہ بھڑک پیدا ہوگی تو ہر مقرب فرشتہ اور نبی مرسل گھٹنوں کے بل گر جائے گا، پھر جب تیسری مرتبہ بھڑکے گی تو لوگوں کے دل گلے تک پہنچ جائیں گے اورعقلیں گھبرا جائیں گی، یہاں تک کہ حضرت سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام عرض کریں گے :” میں تیرے خلیل ہونے کے صدقے سے صرف اپنے لئے سوال کرتاہوں۔” حضرت سیدنا موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام عرض گزار ہوں گے: ”یا الٰہی عزوجل! میں اپنی مناجات کے صدقے صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں۔” حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام عرض کریں گے: ”یاالٰہی عزوجل! تُو نے مجھے جو عزت دی ہے اس کے صدقے میں صرف اپنے لئے سوال کرتا ہوں اس مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیلئے سوال نہیں کرتا جس نے مجھے جناہے۔”
(91)۔۔۔۔۔۔رسول کریم ،رؤف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :” اے جبرائیل(علیہ السلام)! کیا بات ہے کہ میں نے میکائیل (علیہ السلام) کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا؟”تو انہوں نے عرض کی :”جب سے جہنم کو پیدا کیا گیا ہے میکائیل (علیہ السلام)کبھی نہیں ہنسے اور جب سے جہنم پیدا ہوئی، میری آنکھ اس خوف سے خشک نہیں ہوئی کہ کہیں میں اللہ عزوجل کی نافرمانی نہ کر بیٹھوں اور وہ مجھے جہنم میں نہ ڈال دے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دن روتے ہوئے دیکھ کر پوچھا گیا :”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کس چیز نے رُلایا ہے؟” تو انہوں نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل کی طرف سے مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ مجھے جہنم پر پیش کیاجائے گا مگر یہ خبر نہیں پہنچی کہ میں وہاں سے نجات پا کر نکل بھی سکوں گا۔”
جب ملائکہ ، انبیاء علی نبینا و علیہم ا لصلوٰۃ والسلام اورصحابہ کرام علیہم الرضوان کے جہنم سے خوف کایہ عالم ہو گا حالانکہ یہ ہستیاں گناہوں کی گندگیوں سے پاک وصاف ہیں تو اس وقت دھوکا کھائے ہوئے دعویدار کی ذلت ورسوائی کا کیا عالم ہو گا اور جسے اس کے نفس نے یہ کہہ کر گمراہ کر دیا کہ تیرا یہ خیمہ جہنم کی آگ بجھا دے گا اور جو اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں قطعی نجات یافتہ سمجھتا ہے، حالانکہ قطعی نجات تو صرف انہیں دس خوش نصیبوں کو حاصل ہوگی جنہیں نجات دہندہ شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جنت کی بشارت عطا فرمائی ہے، اس کے باوجود ان کے خوف کایہ عالم تھا کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی تک یہ کہہ اٹھے :”کاش! میں کسی مؤمن کے سینے کا بال ہوتا۔” اور حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماگئے :”اگر عمر کی مغفرت نہ ہوئی تو عمر ہلاک ہوجائے گا ۔”
حدیث پاک میں ہے: جویہ کہے: ”یقیناًمیں جنت میں جاؤں گا وہ جہنم میں جائے گا۔”
(مجمع الزوائد ، کتاب العلم ، باب کراھیۃ الدعوی، الحدیث:۸۸۰،ج۱،ص۴۴۳)
یہاں اس خوف سے ہماری مراد عورتوں جیسی رقتِ قلبی نہیں جوکچھ دیر کے لئے رولیتی ہیں، پھر نیک عمل چھوڑ دیتی ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ خوف ہے جو انسان کے دل میں گھر بنا کر اسے گناہوں سے روکے اور اطاعت کی پابندی کی ترغیب دلائے، یہی وہ خوف ہے جو نفع بخش ہے اور یہ احمقوں کا خوف نہیں جو ڈرانے والی گذشتہ باتیں سنتے ہیں تو نَعُوْذُبِاللہِ اور یَا رَبِّ سَلِّمِْ (یعنی خدا کی پناہ اور یا رب عزوجل ! سلامت رکھنا) کے علاوہ کچھ نہیں کہتے بلکہ اس کے باوجود گناہوں کے ارتکاب پرڈٹے رہتے ہیں اور شیطان ان کا اس طرح مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ تم اس شخص کو دیکھ کرمذاق اڑاؤ گے کہ جس پر کوئی خطرناک درندہ حملہ کرنے لگے جبکہ وہ شخص ایک محفوظ قلعے کے قریب ہو جس کا دروازہ بھی کھلا ہو مگر وہ اس میں داخل نہ ہو بلکہ رَبِّ سَلِّم کہتا رہے یہاں تک کہ وہ درندہ آ کر اسے کھا جائے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(92)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم،نورِ مجسَّم،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ایک شخص اپنی جان پر گناہوں کے ذریعے ظلم کیا کرتا تھا، جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا :”جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر میری راکھ کو پیس کرہوا میں اڑا دینا، اللہ عزوجل کی قسم! اگر اللہ عزوجل نے مجھے عذاب دینا چاہا تو ایسا عذاب دے گا جو اس نے کسی کونہ دیا ہو گا،پس جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی وصیت پر عمل کیاگیا، پھر اللہ عزوجل نے زمین کو حکم دیا :”اس کے جواَجزاء تجھ پر ہیں ان کو جمع کر دے۔” زمین نے حکم کی تعمیل کی اور وہ بندہ کھڑا ہو گیا تو اللہ عزوجل نے اس سے پوچھا :”تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے اُبھارا تھا؟” اس نے عرض کی :”یارب عزوجل! تیرے خوف نے۔” تو اس کوبخش دیا گیا۔”
(صحیح البخاری ، کتاب احادیث الانبیاء ،باب ۵۴،الحدیث:۳۴۸۱،ص۲۸۴)
(93)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی :”کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ،باعث نزول سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے سنی ہوئی کوئی حدیثِ مبارکہ سنائیں گے؟”تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :”میں نے صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو فرماتے سنا: ”جب ایک شخص کی موت کا وقت آیا اوروہ زندگی سے مایوس ہو گیا تو اس نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی :”جب میں مر جاؤں تو میرے
لئے بہت سی لکڑیاں جمع کر لینا، پھر اس میں آگ لگا کر مجھے اس میں ڈال دینا تا کہ آگ میرا گوشت کھا کر ہڈیوں کو جلا دے، پھر ان ہڈیوں کو اٹھا کر پیس لینا اور تیز ہوا کے دن اس راکھ کو اُڑا دینا۔” (اس کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا گیا جیسا اس نے کہا تھا) پھر اللہ عزوجل نے اس شخص کی راکھ کو جمع کر کے اس سے پوچھا :”تو نے ایسا کیوں کیا؟” تو اس نے عرض کی :”تیرے خوف سے۔” تو اس کو بخش دیاگیا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح البخاری ، کتاب احادیث الانبیاء ،باب ۵۴،الحدیث:۳۴۷۹،ص۲۸۴،”اوقدروا”بدلہ ”اورُوا نارًا”)
(94)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بھی مَخْزنِ جودو سخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :”اللہ عزوجل نے تم سے پچھلی اُمتوں میں سے ایک شخص کو کثرت سے مال واولاد سے نوازا تھا، اس نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: ”تم نے مجھے باپ کی حیثیت سے کیسا پایا؟” انہوں نے جواب دیا :”ہم
نے آپ کو بہترین باپ پایا۔” تو اس نے کہا :”میں نے تو کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا، لہٰذا جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر راکھ بنا لینا اور پھر میری راکھ کو تیز ہوا میں اڑا دینا۔” جب انہوں نے ایسا ہی کیا تو اللہ عزوجل نے اسے جمع کر کے دریافت فرمایا :”تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے ابھارا تھا؟” اس نے عرض کی :”تیرے خوف نے۔” تو اللہ عزوجل کی رحمت نے اس کا استقبال کیا۔
” (المرجع السابق،الحدیث: ۳۴۷۸، ص۲۸۴،”اعطاہ اللہ” بدلہ”رغشہ اللہ” )